ہر روز ایک نئی داستان

جج نے مجرم کو سزا سناتے ہوئے کہا ''تمہیں آزاد کیا جاتا ہے تا کہ تم نوکری کی تلاش میں سارا دن دھکے کھاؤبے روز گاری تمہارا کچومر نکال دے کھانے پینے کی چیزیں تمہیں مہنگی ملیں 'جھوٹے سیاسی لیڈر تمہارا ناطقہ بند کر دیںپولیس بار بار آوارہ گردی میں تمہارا چالان کرے اور تمہیں رات کو سکون کی نیند نہ سونے دیں''جج نے اپنے مجرم کو جو سزا سنائی ہے ہمارے ملک میں یہی سزا حکمرانوں نے عام آدمی کو سنا رکھی ہے
جج نے مجرم کو سزا سناتے ہوئے کہا ''تمہیں آزاد کیا جاتا ہے تا کہ تم نوکری کی تلاش میں سارا دن دھکے کھاؤبے روز گاری تمہارا کچومر نکال دے کھانے پینے کی چیزیں تمہیں مہنگی ملیں 'جھوٹے سیاسی لیڈر تمہارا ناطقہ بند کر دیں پولیس بار بار آوارہ گردی میں تمہارا چالان کرے اور تمہیں رات کو سکون کی نیند نہ سونے دیں''جج نے اپنے مجرم کو جو سزا سنائی ہے ہمارے ملک میں یہی سزا حکمرانوں نے عام آدمی کو سنا رکھی ہے -

ملک کے سیاسی حالات میں ہر نئے دن کے ساتھ ایک نیا انکشاف سامنے آرہا ہے ہر روز ایک نیا قصہ سننے میں آرہا ہے عاصم ملک اور عذیر بلوچ کا قصہ ابھی جاری ہی ہے کہ مصطفٰی کمال کی انٹری ہوگئی اور دھماکہ خیز انٹری ہوگئی ان کے بعد اب ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی کے رکن ڈاکٹر صغیراحمد نے بھی مصطفی کمال کے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے پارٹی سے استعفیٰ دیدیا اور باغی لیڈر کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ اب یہی نہیں رکابلکہ جاری ہے مصطفیٰ کمال نے جو انکشافات کئے اس سے کئی لوگوں کے چہرے تو سامنے آگئے لیکن یہ انکشافات اکثر لوگ بہت پہلے سے جانتے تھے بات صرف اتنی سی تھی کہ یہ الزامات پہلے غیرتصدیق شدہ تھے اب گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا دی اور ان کے اپنوں نے ہی اس کی باقاعدہ تصدیق کردی جس کی وجہ سے کچھ سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں ایک زمانہ تھا کہ کراچی کوکبھی عروس الباد کا شہر کہا جاتا تھا روشنیوں کے اس شہر کو پھر کسی کی (کسی کی کیا اپنوں کی ہی) نظر لگ گئی اور پورے ملک کے ہر نسل اور ہر مکتب فکر کے لوگوں کو اپنے اندر سمانے والے اس شہر نے انہی انسانوں کو نگلنا شروع کر دیا گولیاں تھیں کہ برس رہی تھیں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ گھر سے باہر تو جارہا ہے کیا واپس زندہ گھرجا بھی سکے گا یا نہیں۔ گولیاں کون برسا رہا تھا سب کو علم تھا اور ہے لیکن ہرکوئی اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش تھا اور ہے کوئی اپنی زندگی سے مجبور تھا اور کسی کو شہر کی فکر نہیں تھی اور نہ ہی اس میں رہنے والے پرامن شہریوں کی ۔ہر ایک اپنے مفاد کا اسیر تھا پھر ایک نے ہمت کی اور چیلنج سمجھ کر اس کا بیڑہ اٹھایا اور اس میں کامیاب بھی ہوگیا لیکن اس کے جاتے ہی ایک بار پھر وہی لوگ منظم ہوگئے جنہوں نے پہلے اندھر نگری مچا رکھی تھی پھر لوگوں کا جینا محال ہوگیا اب ایک بار پھر باہمت لوگوں نے روشنیوں کے اس شہر کی روشنیاں بحال کرنے کا عزم کیا تو بڑے بڑے دام میں پھنس رہے ہیںلیکن جو لوگ پھنس رہے ہیں وہ صرف مہرے ہیں اور ان مہروں کے پھنسنے پر ہی ان کے بڑوں نے بڑاشور مچا رکھا ہے کیونکہ انہیں اس میں اپنا چہرہ نظر آرہا ہے مصطفٰی کمال ہو 'انیس قائم خانی ہو 'عذیر بلوچ ہو'ڈاکٹر عاصم ہو یا ڈالر گرلزماڈل ایان علی ہواب ان کے سرپرست بظاہر نہ تو انہیں جانتے ہیں اور نہ ہی ان کے بقول ان کا ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہے وہ عذیر بلوچ سے بھی واقف نہیںجو ان کے اشاروں پر چلتا تھا اور جس نے چارسو قتل کا اعتراف کیا ہے جس میں بے نظیر قتل کیس کے اہم گواہ بھی شامل ہیں جو کبھی سابق وزیرداخلہ رحمنٰ ملک کے خاص آدمی تھے اور جیسے بعد میں بے نظیر بھٹو کے سیکیورٹی سکواڈ کا انچارج بنا دیا گیا تھااب ڈاکٹر عاصم کے انکشافات کے بعد عذیر بلوچ بڑے بڑے انکشافات کر رہے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ میں ابھی اس کے معمولی چرچے ہو رہے ہیںکراچی جرائم کی دلدل میں کیسے پھنسا اور عذیر بلوچ کون ہے اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا ہوگاجس سے بڑے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیںاور بات کئی نسلوں تک جا پہنچتی ہے کراچی میں امن کے نام پر پیپلز امن کمیٹی دو ہزار آٹھ میں زرداری حکومت میںبنی تھی اور اس کی سربراہی رحمان ڈکیت عرف سردار رحمان خان بلوچ کو دی گئی ۔جب رحمان ڈکیت نے پر پرزے نکالنے شروع کیے تواس کے سرپرستوں نے ہی اپنا کام نکالنے کے بعد نو اگست دو ہزار نو کو اسے پولیس مقابلے میں تین ساتھیوں سمیت پار کر ادیا یہ رحمان ڈکیت دادل(داد محمد)کا بیٹا اور شیرو(شیر محمد)کا بھتیجا تھاجس کا کام بڑے سیاسی لوگوں کے مخالفین سے نمٹنا تھاکہا جاتا ہے کہ اس وقت کراچی کے علاقے لیاری میں رحمان ڈکیت اور ارشد پپو کے نام سے دو گروہ تھے ، ان دونوں گروہوں نے اپنے علاقوں کی حدود متعین کر رکھی تھی جہاں یہ آمنے سامنے ہوتے تھے اور اگر کوئی دوسرا جاتا تو اسے مار دیتے تھے۔ دونوں گروہوں نے لیاری میں اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی تھیں جہاں یہ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان ، قتل اور مختلف جرائم میں ملوث تھے-

ایک پولیس آفیسر نے اس وقت نو گو ایریا کی وضاحت ایک ایسے علاقے کے طور پر کی تھی جہاں حکومت کی رٹ نہ ہو، جہاں ایک مخصوص لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے طبقے کا قبضہ ہو اور دوسرے مکتب فکر کے لوگ آزادانہ طور پر وہاں نہ تو گھوم پھر سکیں اور نہ ہی کاروبار کر سکیں۔لیاری پاکستان کا قدیم علاقہ ہے جہاں زیادہ تر بلوچ مچھیرے آباد تھے اور آج اس علاقے کی آبادی تقریبا سترہ لاکھ ہے۔ سوال یہ ہے کہ لیاری بلوچ مچھیروں کی بستی سے ایک نوگو ایریا میں کیسے بدلا؟پولیس ریکارڈ کے مطابق لیاری میں انڈر ورلڈ مافیا کی شروعات منشیات فروشی سے جڑے دو بھائی داد محمد عرف دادل، شیر محمد عرف شیرو اور ان کے مخالف ''کالا ناگ ''کے درمیان لڑائی سے شروع ہوئی ۔اس لڑائی کو داد محمد عرف دادل کے بیٹے رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت اور اس کے مخالف ارشد پپو نے جاری رکھا۔ ان دونو ں گروہوں نے لیاری کے بیس فیصد حصے پر اپنے پنجے گاڑ دئیے تھے۔ لیاری کی تنگ و تاریک گلیاں جرائم پیشہ عناصر کے لیے فائدہ مند اور پولیس کے لیے نقصان دہ تھیں کیونکہ ان گلیوں کی بھول بھلیوں میں نہ تو پولیس موبائل داخل ہو سکتی ہے نہ ہی موٹر سائیکل سوار اہلکار گشت کر سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں نے لیاری میں اپنی پوزیشنیں بہت مضبوط کر لیں تھیں اور جب بھی پولیس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے تو شدید مزاحمت ہوتی تھی ۔پولیس کے ریکارڈ میں لیاری میں سب سے پہلے نبی بخش عرف کالا ناگ کا نام ملتا ہے جس پر سمگلنگ اور کچی شراب کی فروخت کا الزام تھا۔ سمگلنگ کی وجہ سے اسے شہر کے بعض تاجروں کی حمایت حاصل رہی، جو سمگلنگ شدہ سامان کے خریدار بھی تھے۔کالا ناگ کی وفات کے بعد داد محمد عرف دادل اور شیر محمد عرف شیرل کے نام نظر آتے ہیں، ایرانی بلوچ نسل سے تعلق رکھنے والے دادل لیاری انڈر ورلڈ کے پہلے ڈان سمجھے جاتے تھے صدرایوب خان کے دور سے لیاری کے جرائم پیشہ افراد کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوئی اور ایسا کرنے والوں میں کراچی کے چند معزز خاندان بھی شامل رہے ۔سیاسی پناہ ملنے کے بعد ان جرائم پیشہ افراد کا کردار بھی بڑھ گیا سیاسی لوگ انہیں مخالفین کو دھمکانے، ڈرانے، سیاسی جلسوں پر حملے کرانے، پولنگ اسٹیشنوں پر دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں دادل کو گرفتار کیا گیا، جو جیل میں چل بسے جبکہ ان کے بھائی شیرل مخالف گروہ کے ہاتھوں مارے گئے۔دادل کا بیٹا عبدالرحمان عرف رحمان ڈکیت ان دنوں کم عمر تھا اس لیے گروہ کی قیادت لال محمد عرف لالو نے سنبھالی۔لیکن ان دنوں میں ایک اور شخص اقبال عرف بابو ڈکیت جرائم کی دنیا میں داخل ہوا اور دادل کی جگہ لے لی لیکن 1996میں اسے پولیس گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔بابو کی گرفتاری کے بعد لال محمد عرف لالو کچھ عرصے کے لیے جرائم کی دنیا کے اکیلے ڈان رہے۔ وہ جرائم کے علاوہ مقامی لوگوں کی مالی مدد بھی کرتے تھے، اس لیے ان کے لیے ہمدردیاں پیدا ہوئیں۔اسی عرصے میں عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت نے بابو ڈکیت گروہ کے لڑکوں کو جمع کر کے اپنا گینگ بنایا اور اپنے والد دادل کی جگہ واپس لینے کا آغاز کر دیا۔ بابو ڈکیت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے رحمان کے ساتھ ڈکیت کا نام بھی جوڑ لیا۔لالو بنیادی طور پر رحمان کے والد کے گینگ کے ہی رکن تھے اس لیے ابتدا میں دونوں میں کوئی تکرار نہیں ہوئی اور یوں دونوں گروپ غیر اعلانیہ تقسیم شدہ علاقوں میں وارداتیں کرتے رہے لیکن پھر اغوا کے تاوان پر دونوں میں تنازعہ پیدا ہوگیااور دشمنی کا آغاز ہوا۔2004میں لالو کو پولیس نے گرفتار کرلیا تو اس گروپ کی قیادت ان کے بیٹے ارشد کے پاس آئی جس کا سامنا عبدالرحمان عرف رحمان ڈکیت سے ہوا جو اس وقت تک لیاری کا ڈان بن چکا تھا۔رحمان ڈکیت نے لال محمد عرف لالو کی طرح مقامی غریبوں، بیواں کی مالی مدد کر کے ہمدردیاں حاصل کیں اور اسی بنیاد پر مقامی سیاست پر اثر انداز ہونا شروع کیا۔اس کے جواب میں ارشد پپو نے رحمان ڈکیت کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر کی ایک ایسی تنظیم کی حمایت حاصل کر لی جو لیاری میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خواہش مند تھی۔اس تنازعہ کے دوران میوہ شاہ قبرستان میں دفن رحمان بلوچ کے والد دادل اور چچا شیرل کی قبریں مسمار کی گئیں اور اس کے علاوہ رحمان ڈکیت کے قریبی سمجھے جانے والے مقامی ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف ماما فیضو (امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کے والد)کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔اس واقعے کے بعد دونوں کی دشمنی میں شدت آگئی اور دونوں گروہوں کے باہمی تصادم میں کئی درجن لوگ مارے گئے۔2008میں حکومت کی تبدیلی کے بعد لیاری میں امن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا جس کی سربراہی عبدالرحمان بلوچ المعروف رحمان ڈکیت نے سنبھالی۔اس دوران ارشد پپو منظر سے غائب ہی رہے۔ اگست دو ہزار نو میں رحمان ڈکیت کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں تین ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا۔اس کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب گینگ وار کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن یہ ممکن نہ ہوا اور رحمان بلوچ کے گروہ کی قیادت ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو کے بیٹے عذیر بلوچ نے سنبھال لی جو اس وقت تک رحمان ڈکیت کے گروپ میں اپنے لیے ایک اہم مقام بنا چکے تھے ۔اسی دوران شیر شاہ مارکیٹ میں تاجروں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد حکومت نے عذیر بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر دی۔عزیر بلوچ2013میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوگیا عذیر بلوچ کس طرح اس گروہ میں شامل ہوا یہ بھی اپنی جگہ ایک کہانی ہے عذیر بلوچ کے والد کو جب قتل کیا گیا تو وہ اپنے باپ کے قاتلوں کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے تھانے اوے کچریوں میں کیس لڑتا رہا لیکن چونکہ اس کے مخالفین طاقتور تھے اس کے کیس پر اثر انداز ہوتے رہے ایسے میں رحمان ڈکیت گروہ نے اسے اپنے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن وہ گروہ میں شامل نہیں ہوئے جب وہ عدالت کچریوں سے مایوس ہوا تو اس نے رحمان ڈکیت کے گروہ میں شامل ہوکر اپنا بدلہ لینے کی ٹھان لی بدلہ تو اس نے لے لیا لیکن پھر وہ اس گروہ کے رنگ میں رنگا گیا اس دور میں لیاری میں رحمان بلوچ کے جانشین اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی بے تاج حکمرانی نظر آتی تھی پولیس انہیں بھی گینگسٹر سمجھتی تھی جس کا اعتراف خود عذیر بلوچ نے ان الفاظ کے ساتھ کیا ''میرے اوپر کوئی سو کے قریب کیسز ہیں اور تیس لاکھ روپے میرے سر کی قیمت مقرر کی گئی تھی۔ان کے کیسز میں اقدام قتل، قتل، اغوا برائے تاوان، ناجائز اسلحہ، پولیس سے مقابلہ، پولیس اہلکاروں پر حملے سمیت دوسرے مقدمات شامل ہیں مگر عذیر بلوچ کے مطابق وہ خود لیاری گینگ وار کا شکار رہے ہیں''۔کراچی پولیس لیاری میں کئی آپریشن کر چکی ہے مگر کبھی بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی۔ لیاری سمیت کراچی کے کئی علاقوں کو اس وقت نوگو ایریا بنانے کی اصل ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کے لیے ان گروہوں کو استعمال کر رہی تھیں۔ جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ نے ایسی صورتحال پیدا کر دی تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ گروہ سیاسی قوتوں پر بھی حاوی ہوگئے اور پھر نہ توسیاسی جماعتیں ان علاقوں میںجانے کی ہمت کر سکتی تھیں اور نہ ہی پولیس کی جرات ہوتی تھی کہ وہ ان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔ رحمان بلوچ کے جانشین سمجھے جانے والے عزیر بلوچ کی آہنی گرفت کا اندازہ اس علاقے میں سڑکوں سے ہوتا تھاجہاںمسلح گارڈز کی بندقوں کے سائے میں عزیر بلوچ کی سیاستدانوں جیسی شان و شوکت تھی ایسے عناصر کی شہر کے مختلف مقامات پر اجارہ داری ہی نے دراصل کراچی کے اکثر علاقوں کو انتظامیہ کے لیے نوگو ایریا بنادیا تھا پولیس نے عدالت میں ایک رپورٹ جمع کی تھی جس میںاس شہر میں بیالیس مقامات کی نشان دہی کی گئی تھی جہاں پولیس نہیں جا سکتی تھی۔ کراچی میں حالیہ گرفتاریوں اور موجودہ سیاسی صورتحال نے بعض بڑوں میں کھلبلی مچا رکھی ہے اور اس کھلبلی میں وہ الٹے سیدھے بیانات جاری کرنے لگے ہیںجس سے ان لوگوں کی حقیقت مزید کھلتی جارہی ہے عذیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم کا معاملہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کا معاملہ سامنے آگیا ادھر پنجاب میں شریف برادران کے احتساب کے کیس کھلنے کی باتیں سامنے آنے لگی ہیں اس حوالے سے عدالت کے احکامات بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے سیاسی صورتحال تیزی گرم ہوتی جارہی ہے اگر مصطفی کمال 'عذیر بلوچ 'ڈاکٹر عاصم'ایان علی اور دیگر کے معاملات کوصحیح طریقے سے آگے بڑھایا گیا تو بہت سے بڑوں کے ایسے انکشافات سامنے آسکتے ہیں جو لوگوں بلکہ ان بڑوں کے اپنوں کو بھی ہلا کر رکھ دیں گے اور شہر قائد میں روشنیاں بھی بحال ہوجائیں گی بشرطیہ کہ ایسا ہو جائے۔
SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 40741 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.