چھوٹو گینگ بمقابلہ پولیس

(خصوصی مضمون)
جیسا کہ آپ ہر روز اخباروں اور نیوز چینلز پر ایسی خبریں پڑھتے اورسنتے رہتے ہیں مثال کے طور پر ’’رات گئے پولیس کے بہادر اہلکار ایس ایچ او صاحب کی قیادت میں ناکہ لگائے کھڑے تھے کہ پانچ موٹر سائیکل سوارافراد کو مشکوک جان کر رکنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے پولیس کے نڈر اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کی کچھ دیر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد اچانک ملزمان کی جانب سے فائرنگ بند ہوگئی پولیس کے جوان اپنے جوشیلے ایس ایچ او کی قیادت میں آگے بڑھے تو دیکھا کہ تین ملزمان اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے تھے جبکہ ملزمان کے دو ساتھی رات کی تاریکی اور کھیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جنکی گرفتاری کیلئے پولیس کی جانباز ٹیمیں تشکیل دیدی گئی ہیں ملزمان ڈکیتی کی مختلف وارداتوں میں ملوث تھے ، مقابلے میں دو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے‘‘ اس طرح کے درجنوں پولیس مقابلے روزانہ کی بنیاد پر پنجاب اور سندھ سمیت ملک بھر میں ہوتے ہیں لیکن ہر پولیس مقابلے کے حقائق حقیقت کے برعکس نظر آ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ پولیس کی ایک روایتی کہانی ہے جو میڈیا کو ہر مقابلے کے بعد فراہم کی جاتی ہے، ہر پولیس مقابلے میں ملزمان کا اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونا اور پولیس اہلکاروں کا معمولی زخمی ہونا سمجھ سے بالا تر ہے دراصل ایسے پولیس مقابلوں میں زیادہ تعدادفرضی مقابلوں کی ہوتی ہے جن میں اُن ہتھکڑیاں لگے افراد کو پولیس مقابلے کا رنگ دیکر ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے جو پولیس افسران کو حصہ نہیں دیتے جبکہ اس کے برعکس پولیس کو باقاعدہ حصہ دینے والے جرائم پیشہ عناصر کو پولیس کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کیے جانے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔ لیکن اگر کبھی پولیس کا مقابلہ حقیقت میں کسی جرائم پیشہ گروہ سے ہوجائے تو نتیجہ میں ملزم تو کم ہی ہلاک ہوتے نظر آتے ہیں لیکن پولیس افسران و اہلکار ضرور جاں بحق ہوتے ہیں ۔ جسکی کی واضح مثال گزشتہ تین ہفتوں سے زائد عرصہ سے جاری جنوبی پنجاب کے چھوٹو گینگ کے خلاف پولیس کے آپریشن سے لگائی جا سکتی ہے ۔ اس آپریشن میں پنجاب اور سندھ کے نو سے زائد اضلاع کی پولیس نفری سمیت ایلیٹ فورس، انسداد دہشت گردی فورس ،سنائیرز کے بائیس سو سے زائد اہلکار اور پنجاب اور سند ھ کے ’ان کاؤنٹر سپیشلسٹ افسران‘ شامل تھے جن کو چھوٹو گینگ کے صرف ایک سو پچاس کے قریب ملزمان نے ناکوں چنے چبوا دئیے ۔ پولیس کی ٹیم جب ملزمان کی طرف بڑھی تو ملزمان نے بڑی پلاننگ کرکے انہیں گھیرا ڈال لیا اور اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں نوے گولیاں لگنے سے ایک ایس ایچ او اور پانچ اہلکار جاں بحق ہوگئے جبکہ دو درجن سے زائد اہلکاروں کو گینگ کے ارکان نے یرغمال بنا لیا اور انکے ہتھیار اور وائرلیس سیٹ بھی قبضہ میں لے لیے جس کے ذریعے چھوٹوگینگ پولیس کی منصوبہ بند سے بھی آگاہ ہوتا رہا اور اسی وائرلیس کے ذریعے پولیس کو دھمکیاں بھی دیتا رہا کہ فائرنگ اور آپریشن بند کرکے اس علاقے سے واپس چلے جاؤ ورنہ یرغمال بنائے ہوئے پولیس اہلکاروں کو ایک ایک کر کے مار دے گا ۔ چھوٹو نے اپنے زخمی ساتھیوں کے علاج معالجہ کیلئے ایک ڈاکٹر کا بھی مطالبہ کیا۔ جس پر پولیس حکام نے فائرنگ کا سلسلہ روک دیا اور آپریشن بھی عارضی بند کرنیکا کا فیصلہ کیا جبکہ ملزمان کو ایک ڈاکٹر بھی مہیا کردیا گیا۔ دریائے سندھ میں 2010ء کے سیلاب کے بعد بننے والے یہ جزیرہ جو’’ چھوٹو جزیرے ‘‘ کے نام سے مشہور ہے یہاں جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے جرائم پیشہ عناصر سمیت کالعدم تنظیموں کے ارکان نے اپنی پناہ گاہ بنا رکھا تھا ۔ پولیس اس گینگ کیخلاف 2008 ء سے اب تک پانچ ناکام آپریشن کرچکی ہے جن کی نگرانی مختلف سابقہ آئی جیز، آر پی اوز اور ڈی پی اوز کرچکے ہیں لیکن آج تک پولیس غلام رسول عرف چھوٹو کو گرفتار کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے ۔ انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق حالیہ پانچواں آپریشن سیکیورٹی اداروں کے دباؤ پر شروع کیا گیا تھا جبکہ کئی پولیس اہلکار چھوٹو گینگ کیخلاف آپریشن کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے ۔ غلام رسول عرف چھوٹو تحصیل روجھان کا ایک معمولی کسان تھا مقامی سرداری نظام اور ریاستی جبر نے اسے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ۔ ابتداء میں مقامی پولیس تمام جرائم کا ذمہ دار چھوٹو کو ٹھہرا کر اس کے خاندان کو مشق ستم بناتی رہی اور علاقے کے تمام جرائم اسی کے کھاتے میں ڈالے جاتے رہے چھوٹو اپنی جان بچانے کیلئے چند ساتھیوں کے ہمراہ کچے کے علاقے میں چھپ گیا مقامی میڈیا نے پولیس کو خوش رکھنے کیلئے اس کی تشہیر ڈاکو اور دہشت گرد کے نام سے کی تووہ سندھ، پنجاب ، بلوچستان سمیت ملک بھر کے جرائم افراد کی مرکز نگاہ بن گیا اور اس طرح چھوٹو کے گینگ میں بڑے بڑے نامی گرامی جرائم پیشہ افراد ڈاکوؤں ، کلرز، اغواء کاروں نے شمیولیت اختیار کرلی اس طرح وہ ایک طاقتور گینگ ماسٹر کا روپ اختیار کرگیا ،اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری کی وارداتوں کے ذریعے چھوٹو نے پیسہ اکٹھا کیا اور اسے بڑی ایمانداری سے ساتھیوں میں تقسیم کیا جس وجہ سے گروہ کے اندر سے کبھی کوئی بغاوت نہ ہوئی ۔ اس کے علاوہ غلام رسول چھوٹو نے مقامی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے مقامی لوگوں کی امداد، شادیوں کے اخراجات اور غم میں برابر شریک رہا اور لوگوں کو تحفظ فراہم کیے رکھا اسی وجہ سے پولیس آج تک اس کیخلاف مخبر پیدا نہ کرسکی ۔ اطلاعات کے مطابق غلام رسول عرف چھوٹو نے علاقے میں اپنے مقابلے میں کسی جرائم پیشہ گروہ کو سر اٹھانے نہیں دیا ۔ طارقی بوسن گینگ جو چھوٹو گینگ کیلئے کام کرتا تھا جب الگ ہوا تو چھوٹو نے نومبر2005 ء میں صادق آباد کے قریب کچہ کے علاقے میں بلوا کر طارقی بوسن اور اسکے تمام ساتھیوں کو ہلاک کردیا اس واقعہ کے بعد علاقے کے تمام چھوٹے ڈاکوؤں نے چھوٹو گینگ میں شمیولیت اختیار کرلی اس طرح چھوٹو گینگ مزید مضبوط ہوتا گیا۔ اسی طرح مارچ 2010ء میں کھدلی بھنڈ گینگ بھی جو قبل ازیں چھوٹو گینگ کیلئے کام کرتا تھا چھوٹو کی مخالفت کی نذر ہوگیا اور چھوٹو نے کھدلی بھنڈ سمیت اس کے متعدد ساتھیوں کو کچہ کے علاقہ میں ہی موت کے گھات اتار دیا اور اس گینگ کے بچ جانے والے ڈاکوؤں کو اپنے گینگ میں شامل کرلیا ۔ یہاں قابل امر ذکر یہ ہے کہ ان دونوں گینگز جو چھوٹو کے ہاتھوں ہلاک ہوئے پولیس نے ان کو پولیس نے مقابلے کانام دیکر تشہیر کروائی جبکہ حقیقت میں ان دونوں گروپوں کو چھوٹو نے ہلاک کیا تھا ۔ حالیہ آپریشن سے پہلے جب بھی پولیس نے چھوٹو گینگ کیخلاف کاروائی کرنے کی کوشش کی چھوٹو نے پولیس کو ناکوں چنے چبوائے ۔ ہر بار چھوٹو پولیس چوکیوں پر دھاوا بول کر اہلکاروں کو یرغمال بنا لیتا تھا اور اپنے مطالبات کی منظوری کے بعد بااثر شخصیات کے حوالے کردیتا تھا ۔ اس گینگ کے اس قدر مضبوط ہونے کیا ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں مقامی وڈیروں کے علاوہ کئی قبیلوں اور برادریوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے جو انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں۔حالیہ آپریشن ضرب آہن میں چھوٹو گینگ نے مقابلہ کرنے کیلئے بھاری ہتھیاروں جن میں اینٹی ائیر کرافٹ گنز، دستی بم، راکٹ لانچر، مشین گنز سمیت جدید اسلحہ کا استعمال کیا ہے ۔جبکہ جس طرح پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا یہ بھی تربیت یافتہ جنگجوؤں کی طرز کا ہے ۔ خدشہ ہے کہ اس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ملوث ہے جس نے بلوچ لبریشن کے ذریعے جدید اسلحہ اور "را" سے تربیت یافتہ جنگجو بھی چھوٹو گینگ میں شامل کروا رکھے ہیں ۔ مقابلے کے دوران گینگ کے ماہر نشانہ بازوں نے سروں میں گولیاں مار کر پولیس اہلکاروں کو شہید کیا ۔ چھوٹو گینگ کے ہاتھوں پولیس کی بڑی ٹیم کو شکست کے بعد آئی جی پنجاب سمیت پولیس حکام کو افواج پاکستان سے مدد لینے کے سوا کوئی راستہ نظر نہ آیا جس کے بعد آئی جی پنجاب نے افواج پاکستان سے مدد کی درخواست کردی ۔ افواج پاکستان کی اوکاڑہ سے آرمی کی بٹالین اورایس ایس جی کی دو پلاٹونز نے جرائم پیشہ عناصر کے مقبوضہ علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا جس کے فوری بعد چالیس ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال دئیے اور گرفتاری دیدی جبکہ ابتدائی آپریشن میں افواج پاکستان نے دس کے قریب ڈاکوؤں کو ہلاک کردیا ہے اور آخری اطلاعات موصول ہونے تک گینگ کو ہتھیار ڈالنے کیلئے ڈیڈ لائن دیدی گئی ہے جس کے بعد فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کردیا جائے گا ۔ جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق چھوٹو نے افواج پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جبکہ پولیس کیخلاف آخری سانس تک لڑنے کا عزم کیا ہے رپورٹ کے مطابق چھوٹو کا کہنا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں اور نہ ہی ملک دشمن ہیں بلکہ ہم زمیندار ہیں اور اپنے گھر بار چھوڑ کرجانا نہیں چاہتے ہمیں جینے دیا جائے۔ جبکہ ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد آپریشن عارضی طور پر بند کیے جانے کے دوران چھوٹو اور اسکے متعدد ساتھی مغوی اہلکاروں سمیت سندھ اور بلوچستان کی طرف فرار ہوچکے ہیں ۔حالیہ آپریشن میں پولیس کی بدترین شکست کے بعد آئی جی سمیت دیگر کئی اضلاع کے ڈی پی اوز تبدیل کرکے قابل آفیسرز تعینات کیے جانے کا امکان بھی موجود ہے۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 11266 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.