کلیم الدین احمد کی تنقیدات پر ڈاکٹر عبدالمغنی کی آرا

 ڈاکٹر عبدالمغنی کی ادبی تحریروں پر کلیم الدین احمد کا غالباً ایک عکسِ نامعلوم عموماً دکھائی دیتا ہے۔ کلیم الدین احمد کی شخصیت اور کارناموں پر ڈاکٹر عبدالمغنی سے زیادہ شایدہی کسی دوسرے تنقید نگار نے لکھا ہو۔ ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘ کے پونے چھے سو صفحات تو تمام وکمال کلیم صاحب کی نذرہی ہیں۔ اس کے علاوہ ، اردو ادب میں کلیم الدین احمدکے مقام کے تعیّن کے سلسلے سے بھی ڈاکٹر عبدالمغنی نے بہت متحرّک اور سرگرم خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۶۲ء میں شایع مقالہ ’’کلیم الدین احمد کی ناقدانہ حیثیت‘‘ سے لے کر ۱۹۸۷ء میں شایع کتاب ’’تنقیدِ مشرق‘‘ تک---- ڈاکٹر عبدالمغنی پوری مستعدی کے ساتھ کلیم الدین احمد کے تنقیدی مقام کو متعیّن کرنے میں مصروف رہے ہیں......اس لیے کلیم الدین احمد کی تحریروں پر ڈاکٹر عبدالمغنی کی آرا کا منصفانہ جائزہ لینا وقت کا ایک اہم تقاضا تھا اور ڈاکٹر عبدالمغنی کی طویل خدمات کا انصاف پسندانہ اعتراف بھی۔

کلیم الدین احمد اور ڈاکٹر عبدالمغنی کے مطالعے میں جو سب سے بڑا مشترک موضوع ہے، وہ اقبالؔ کی شاعری اور نظریات کی تفہیم سے متعلّق ہے۔ کلیم الدین احمد نے جن اردو شاعروں پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے، ان میں اقبالؔ کا نام سب سے پہلا ہے۔ انھوں نے ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ اور دوسرے مقالات میں ضمنی طور پر اقبال کے فکروفن کا تذکرہ کرنے کے علاوہ ’’اقبالؔ....ایک مطالعہ‘‘ میں کوئی چار سو صفحات میں تفصیل سے اقبال کے کلام کا جائزہ لیا ہے اور اپنی تنقیدی آرا کو دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھیں اقبالؔ کو اردو کا ایک اہم اور اچھا شاعر ماننے میں تامل نہیں ہے لیکن دنیا کے عظیم شاعروں کی صف میں اقبالؔ کو جگہ دینے سے کلیم الدین احمد متّفق نہیں۔ اسی لیے اقبال کی شاعری اور افکار کے حوالے سے انھوں نے اپنی باتیں تفصیل سے پیش کی ہیں۔اقبالؔ کے افکار اور شاعری کے معاملے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کا رویہّ قدرے مختلف ہے۔ ان کی اوّلین کتاب ’’نقطۂ نظر‘‘ سے لے کر ’’اسلوبِ تنقید‘‘ تک تقریباً چار ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ان کی شایع شدہ تنقیدی تحریروں میں کم از کم ڈیڑھ ہزار صفحات ایسے ضرور ہیں جو اقبالؔ کے شاعرانہ اوصاف کو بیان کرنے میں صَرف ہوئے ہیں۔ حجم کے معاملے میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے کلیم الدین احمد سے کوئی چوگنا سرمایہ ابھی تک پیش کردیا ہے۔

نقدِ اقبالؔ کے سلسلے میں کلیم الدین احمد کی شکایت یہ تھی کہ اقبال پر لکھی گئی کتابوں میں اقبالؔ کی شاعری زیادہ تر موضوعِ بحث نہیں ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو ضمناً۔ ان کا کہنا تھا کہ زیادہ گفتگو اقبالؔ کے خیالات سے ہوتی ہے اور ان میں اقبالؔ کی شاعری کی خوبیوں اور خامیوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف ان کے خیالات کی تشریح ہوتی ہے۔ اس لیے کلیم الدین احمد نے اقبالؔ کے کلام اور خیالات پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت محسوس کی اور گویا اپنے خیال میں اردو تنقید کی ایک بڑی کمی کو پورا کرنے کے لیے ’’اقبال :ایک مطالعہ‘‘ جیسی کتاب لکھی۔

اقبالؔ پر لکھنے کے جواز کے سلسلے سے ڈاکٹرعبدالمغنی کا معاملہ کلیم الدین احمد سے بالکل مختلف ہے۔ کلیم الدین احمد کی طرح ڈاکٹرعبدالمغنی نے بھی اقبالؔ کے سلسلے سے اردو تنقید کے احوال سے سراسر اختلاف کیا ہے۔ ’’تنقیدِ مشرق‘‘ میں وہ لکھتے ہیں :
’’تفہیمِ اقبال میں اردو تنقید کی ناکامی نے اردو ادب میں مغرب کے نفوذواثر کا دروازہ کھول دیا۔ اقبالؔ کے بعد کوئی ذہن مغرب سے مقابلہ کر کے ادب میں توازن قائم رکھنے کے لیے باقی نہیں رہ گیا۔ چنانچہ پہلے مارکسیت، پھر جدیدیت نے اردو ادب پر یلغار کی۔‘‘ (تنقیدِ مشرق :ص۔۵)

اقبالؔ کے سلسلے سے عبدالمغنی کے لگاتار اتنی مستعدی سے لکھنے کا اصل جواز یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
’’یہی وہ صورتِ حال ہے جس میں پچھلے تیس سال سے میں تنقیدیں لکھ رہا ہوں اور اوّل روز سے میں نے کوشش کی ہے کہ مشرق کے حقیقی شعور کے ساتھ مغرب کا صحیح فہم حاصل کیا جا ئے اور قدیم سرماے پر فخر کرتے ہوئے...... جدید تجربوں کی جانچ پڑتال ایک آزاد نظر اور باخبر ذہن سے کی جائے تاکہ کھویا ہوا توازن بحال ہو۔‘‘ (تنقیدِ مشرق :ص۔۵)

اسی ذاتی احساس کے ساتھ انھوں نے مرتکز ہو کر اقبالؔ کے سلسلے کی تنقید رقم کی ہے۔ ان کے بنیادی نتائج اس طرح ہیں :
(۱) اقبالؔ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
(۲) اقبالؔ فارسی کے سب سے بڑے شاعرہیں۔
(۳) اردو اور فارسی غزل گو کی حیثیت سے اقبالؔ کا مقام اوّل ہے۔
(۴) اقبالؔ دنیا کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
(۵) اقبالؔ دنیا کے سب سے بڑے مفکر ہیں۔

اور اب اقبالیات میں اپنے ڈیڑھ ہزار صفحات کی عرق ریزی کے بعد اتمامِ حجّت کے طور پر کتاب نما،نئی دہلی، جولائی ۱۹۸۸ء میں انھوں نے اپناآخری فیصلہ دیا : ’ کسی نئی تحریر کے لیے اقبالیات میں جگہ بنانا آسان نہیں۔‘

ڈاکٹر عبدالمغنی کی اقبال کے سلسلے کی دل چسپی یہیں تمام نہیں ہوتی بلکہ اقبال کے تعلّق سے ان کی تنقیدی حِس وہاں بھی بیدار رہتی ہے جہاں اس کے ذکر کا امکان تک نہیں ہوتا۔ آغاحشر کی ڈرامانگاری یا ملاابن العرب مکّی کی طنز نگاری، میرانیس کے مرثیے پر مضمون ہویا ڈاکٹر عابد حسین کے کارناموں پر یا غالبؔ کے فارسی کلام کے بارے میں تحریر ہو، ڈاکٹر عبدالمغنی کا قلم اقبال کے ذکر کے بغیر چل ہی نہیں سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نثری نظم اور آزاد غزل پر بھی جب ڈاکٹرعبدالمغنی کا مضمون ختم ہوتا ہے تو اقبالؔ کے دوشعر تبرکاً پیش کردیے جاتے ہیں۔

معاملہ جہاں اس قدرانسیت کا ہو، وہاں ڈاکٹر عبدالمغنی اقبالؔ کے سلسلے سے اپنی بات پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرنے کے اوّل حق دار قرار پاتے ہیں۔ اسی AUTHENTICITY اور AUTHORITY کے ساتھ انھوں نے اقبالؔ کے سلسلے کی پوری تنقید لکھی ہے۔ اردو تنقید میں وہ انھی خصوصیات کے سبب دور سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ لہٰذا اقبال کے موضوعِ خاص کے علاوہ بھی کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری کا انھوں نے انفرادی طور پر بھی جائزہ لیا ہے۔ اُن کے نتائج حسبِ ذیل ہیں :
(۱) کلیم الدین احمد ادب کے تصوّرات سے کچھ زیادہ واقف نہیں۔
(۲) ہم عصر مغربی تنقید وشاعری سے بھی ان کی زیادہ واقفیت نہیں ہے۔
(۳) مشرقی علوم سے تو وہ بالکل ہی بے خبر ہیں۔
(۴) ان کا خودساختہ اندازِ نقد کسی تخلیق کے مکمّل جائزے کا اہل نہیں ۔
(۵) ان کی تنقیدیں بے جا شدّت اور حد سے بڑھ کر غلو اور مبالغہ سے بھری ہوئی ہیں۔
(۶) مشرقی طرزِ اظہار کے خلاف فقط ایک ردِّعمل کا اظہار اُن کے یہاں ہوا ہے۔
(۷) انھوں نے اپنی تنقید سے نئی نسل کی کوئی رہنمائی نہیں کی۔
(۸) ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ ان کی نامرادی کا نمونہ ہے۔
(۹) ان کی تنقیدیں شخصی جانب داری اور تعصّب پر مبنی ہیں۔
(۱۰) ان کا تصوّرِہیئت ناقص اور مصنوعی ہے۔
(۱۱) ان کی تمام تنقیدیں ایک گورکھ دھندہ ہیں۔
(۱۲) ان کے ادبی موقف اور طریقِ کار کے درمیان مطابقت نہیں۔
(۱۳) ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں تنقیدی حربے زیادہ استعمال کیے گئے ہیں اور کمالات کم دکھائے گئے ہیں۔
(۱۴) ان کے بہتیرے تنقیدی بیانات کی طرح ان کے اشعار بھی محض اسٹنٹ ہیں۔
(۱۵) ان کا مقصد اردو شاعری سے ایک طرح کا تمسخر اور اردو ادب کے ساتھ گویا مذاق ہے۔
(۱۶) ان کی تنقید کسی معین تصوّرِ ادب اور واضح اصولِ تنقید سے خالی ہے۔
(۱۷) ان کی تنقید ایک پارہ پارہ قسم کی تنقید ہے جس میں متن وعبارت کے تجزیے جہاں تہاں سے اقتبا سات لے کر جزوی طور پر کردیے گئے ہیں۔
(۱۸) ان کی نثر علمی ہونے کے بجاے ظریفانہ ہے۔
(۱۹) وہ دوٹوک فیصلہ کرنے کی قوّت رکھتے ہیں مگر اس میں فتوے کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
(۲۰) بیسویں صدی کے سب سے بڑے انگریزی نقّاد ٹی۔ایس۔الیٹ کی تو کلیم الدین احمد کو َہوا ہی نہیں لگی۔
(۲۱) وہ اردو تنقید میں اپنی تنگیِ داماں کا علاج نہیں کر سکے۔
(۲۲) کلیم الدین احمد کے تنقیدی کام میں تخریب کا پہلو نمایاں ہے۔
(۲۳) ان سے بہتر تنقید نگار آل احمد سرور اور احتشام حسین ہیں۔
(۲۴) نئی نسلوں پر اُن کا کوئی اثر نہیں۔
اپنے مضامین کے مجموعے ’’تشکیل جدید‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے :
’’جو بات سوچ سمجھ کر لکھی جاتی ہے، اسے سوچ سمجھ کر ہی پڑھا جانا چاہیے۔ ایک سنجیدہ کام کی تنقید بھی سنجیدہ ہی ہونی چاہیے۔ ایک ذمّہ دارانہ شغل کے متعلّق ایک ذمّہ دارانہ رویّہ ہی مفید ہو سکتا ہے‘‘ (تشکیل جدید :ص۔ ۵)
اسی کتاب سے ایک دوسرا اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ادبی مطالعے کا یہ انداز کہ ایک قسم کے ادبی تصوّرات کو اصولِ موضوعات تسلیم کر کے دوسری قسموں کے تمام ادبی تصوّرات پر حکم لگا دیا جائے اور پھر اسی اصول موضوعہ کے مطابق، تمام ادبی نمونوں کی قدروقیمت معیّن کی جائے، کسی طرح عالمی ادب کا آفاقی معیار بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔‘‘ (تشکیل جدید:ص۔۵)

ڈاکٹرعبدالمعنی نے تقریباً اپنی تمام کتابوں میں اس انداز کے نفسِ مضمون کاایک ابتدائیہ ضرور شامل کیا ہے اور اپنے ادبی موقف کا تفصیل سے اور مکرّر بیان کیا ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹرعبدالمغنی نے کیا ان اصولوں کو خود اپنی تنقید میں برتنے کی کوشش کی ؟

سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالمغنی کی ضخیم کتاب ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘ قابلِ توجّہ ہے جس کے ابتدائی چند صفحات سے بعض اقتباسات ڈاکٹرعبدالمغنی کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے میں معاون ہوں گے :
(۱) ’’اقبال پرحملہ کرنے کے لیے جناب کلیم الدین احمد ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے اردو تنقید کی بُری طرح پِٹائی کر دی جائے تا کہ اردو کے نقّاد جناب کلیم الدین احمد کے مقابلے میںDEMORALISED ہوجائیں۔‘‘ (ص:۴)
(۲) ’’یہ تو بالکل کسی حکیمِ سڑک کی شعبدہ بازی یا کسی سیاست داں کی اسٹنٹ بازی ہے۔‘‘ (ص:۱۲)
(۳) ’’جہاں تک اقبال کا تعلّق ہے، پوری انگریزی شاعری میں شیکسپیر اور ملٹن کے سوا کوئی اور شاعر ایسا نہیں ہے جو چند منٹ بھی اقبالؔ کے مقابلے ٹھہر سکے۔‘‘
(۴) ’’اقبال کا فارسی و اردو دونوں کلام شیکسپیر اور ملٹن کی تخلیقات کے مجموعی سرماے پر ڈال دیا جائے تو اس کے حجم اور وزن کے نیچے یہ پورا سرمایہ دَب کر رہ جائے گا۔‘‘ (ص:۱۷)
(۵) ’’آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک بے ذوق شخص غزل کو نیم وحشی صنف ِسخن کہتا ہے اور دوسرے اصحابِ ذوق غزل کے نام پر گویا شرماتے پھرتے ہیں۔‘‘
(۶) ’’ہم تو جناب کلیم الدین احمد کے اس اعتراف کے بعد مطمئن ہوجاتے کہ جب اردو ادب اور شاعری کا ذوق نہیں رکھنے کے باوجود ایک شخص (کلیم الدین احمد) نہ صرف اقبالؔ کو اچھّا شاعر مان رہا ہے بلکہ ان کے اندر اور زیادہ اچّھے شاعر ہونے کا امکان بتا رہا ہے۔‘‘
(۷) ’’یہاں پہنچ کر وہ بلّی ایک چھلانگ لگا کر باہر آجاتی ہے جسے جناب کلیم الدین احمد اب تک اپنی تنقید کے خوشنما تھیلے میں بہت کَس کر بند کیے ہوئے تھے۔‘‘ (ص:۲۵)
(۸) ’’وہ (اقبال) خود اپنی جگہ ایک سند ہیں......ایک ایسے زبردست استاد ہیں، جن سے مغرب کا بڑے سے بڑا فن کار اور دانش ور دوچار سبق لے سکتا ہے۔‘‘ (ص:۳۲)

یہ اقتبا سات کلیم الدین احمد کے سلسلے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کے تنقیدی نظریات کی نشان دہی کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ پوری کتاب میں موضوع سے متعلّق، علمی اور سنجیدہ بحث کے نام پر اسی انداز کے فقروں میں اقبال کے سلسلے سے کلیم الدین احمد کے تنقیدی کارناموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈاکٹرعبدالمغنی نے اردو شاعروں کو عالمی معیار سے پرکھنے کی بات بار بار کی ہے۔ ایک طرح سے کلیم الدین احمد کے ردِّعمل میں ہی یہ بات سامنے آئی ہے۔ اردو شعروادب کا محاکمہ کرتے ہوئے کلیم صاحب نے ہمیشہ ایک بلند معیارِ نقد کا تصوّر پیش کیا ہے۔ جگہ جگہ دوسری زبانوں کے شاعروں، نثرنگاروں سے موازنہ بھی کیا۔ ڈاکٹرعبدالمغنی نے اس معیار کو نامکمّل قرار دیا اور انھوں نے اس میں مشرقی ادب کے شامل نہیں ہونے کا اعتراض قائم کیاہے۔ کلیم الدین احمد کے قارئین اچھّی طرح جانتے ہیں کہ انھوں نے دورانِ تجزیہ حسبِ ضرورت عربی اور فارسی شعراکا ضرور تذکرہ کیا ۔ خود ’’اقبال: ایک مطالعہ‘‘ کا پیشِ لفظ بھی اس کا گواہ ہے۔ لیکن ڈاکٹرعبدالمغنی اس بات کا اقرار اس لیے نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ اس کے بعد کلیم الدین احمد کو مشرقی ادب سے نابلد قرار دینا مناسب نہیں ہوتا۔

اب ڈاکٹرعبدالمغنی کا عالمی ادب اور اس کا معیار ملاحظہ کیجیے:’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘’تشکیلِ جدید‘ میں شامل اس مضمون کا ذکر کئی دوسری کتابوں اور مقالوں میں خود ڈاکٹرعبدالمغنی نے مثال کے طور پر کیا ہے اور ایک طرح سے تقابلی مطالعات کے مثالی نمونے کے طور پر انھوں نے اِسے پیش کیا ہے۔اس مضمون میں ابتدا ً تو انھوں نے مشرق ومغرب کے امتیاز واتّصال کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس سے پورے طور پر معروضی طریقے سے انھوں نے ایک آفاقی معیار قائم کرنے کے وسیلے ڈھونڈے ہیں۔ لیکن جب عملی طور پر موازنے کا مقام آتا ہے تو باری باری رومی، حافظ، سعدی، خیّام، میر، غالب، کالی داس، امراء القیس، ٹیگور، دانتے، ملٹن، شیکسپیر، گیٹے، یے ٹس اور الیٹ کو دو دو چار چار جملوں میں اسی طرح رد کر دیا ہے جیسے آغاحشر کے سامنے انھوں نے شیکسپیر کو چاروں خانے چِت کر دیا تھا۔ آخر میں اب جب کہ کوئی نہیں بچ جاتا ہے، اس لیے اقبالؔ دنیا کے سب سے بڑے شاعر قرار دے دیے جاتے ہیں۔ پتا نہیں، اسے تنقید کہیں گے یا خُردہ گیری۔ یہی نہیں، مشرقی زبانوں میں ہندی، تلگو، تمل، کنّڑ، مراٹھی، پنجابی جیسی ہندستانی زبانوں پر توجّہ دینے کی ضرورت ڈاکٹرعبدالمغنی کو کیوں نہیں ہوتی؟

آخر میں، ڈاکٹرعبدالمغنی کی نفسیات پر غور کریں تو ہمیں نتائج کے سلسلے میں آسانیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔ ہم نے سطور بالا میں جو اشارے کیے ہیں، اس کا بیش تر حصّہ کلیم الدین احمد سے متعلّق تھا، لیکن اس کے علاوہ بھی، ڈاکٹرعبدالمغنی کی کوئی ڈیڑھ درجن کتابوں پر غور کریں تو ان کی تنقیدی شبیہہ ایک ضدّی، اپنے خیالات میں کوئی ردّوبدل اور ترمیم نہیں کرنے والے اور چونکانے کے لیے کسی کو کوئی بھی بات کسی بھی حدتک کہہ دینے والے شخص سے ملتی جلتی ہے۔ ایسا شخص دن کو رات اور رات کو دن محض اس لیے کہہ سکتا ہے تاکہ اس کی بات پر لوگ چونکیں اور اس طرح کم از کم اس بہانے اس کا ذکر تو ہوتا رہے۔

اس مضمون میں موجود ڈاکٹرعبدالمغنی کے اقتباسات کے ساتھ ساتھ براہِ کرم ان کے دوسرے تنقیدی مضامین کا مطالعہ کریں۔ اس کے لیے ان کے رسالہ ’مریخ‘ کا مطالعہ بھی خاصا عبرت ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ان کے اخلاقی معیارِ نقدنے آزاد نظموں، نثری نظموں، علامتی کہانیوں اور اس طرح کی بہت ساری ترقّی یافتہ چیزوں کے لیے NO ENTRY لگا رکھی ہے۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹرعبدالمغنی کی تنقیدیں ان کے تعصبات اور جانب دارانہ رویّے کی وجہ سے کارِزیاں ہو کر رہ گئی ہیں۔ استدلال اور تجزیے کی کم معیاری نے اس معمولی کام کو اور بھی معمولی بنادیا ہے۔

اردو ادب نے بہت ساری برساتیں دیکھی ہیں۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں، جب ترقّی پسند تحریک اور جدیدیت کے دَور میں ہزاروں لکھنے والے ادب کی برسات کے ریلے میں کب کے بہہ گئے اور وہ لوگ جو کبھی اپنے دور میں شعر وادب کا آفتاب وماہتاب تھے، ہم نے دیکھا کہ ان کا آج کہیں کوئی پتا نہیں۔اس لیے میں اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا کہ ڈاکٹرعبدالمغنی کے اندازِ نقد نے اپنے تیور نہیں بدلے اور علم وفن کی صحیح قدرشناسی کی جانب ان کی توجّہ نہ ہوئی تو وہ دن دور نہیں جب ادب کی برسات کے پہلے ریلے میں ڈاکٹر صاحب جیسی ہزاروں شخصیات بہہ جائیں گی اور ادب کی تاریخ میں ان کا تذکرہ تک نہیں ہوگا۔

[۱۵-۱۴ جنوری ۱۹۹۰ء کے بہار اردو اکادمی، پٹنہ کے کلیم الدین احمد سے می نار میں پیش کیا گیا۔ کلیم الدین احمد سے می نار کے مقالے، (۱۹۹۶ء) میں شامل۔]
٭٭٭
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 140460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.