اندھا قانون ، قانون کے ہاتھ

جنگل کا بھی ایک قانون ہوتا ہے اسی طرح ہمارے ملک میں بھی ایک قانو ن ہے۔ اس قانون کی حفاظت کے لیے کچھ لوگوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے چلاتے ہیں۔ان کو اس کام کے لیے ایک وردی دی جاتی ہے لیکن کچھ میرؔ کی طرح اتنے ’سادہ‘ ہوتے ہیں کہ انہیں کسی وردی کی سرے سے ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ وہ چلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے قانون چل رہا ہے۔

ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والوں کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہی قانون کی ضمانت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو قانون ہی ختم ہوجائے۔ اسی لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ اپنی ذات میں خود مکمل قانون ہوتے ہیں۔ کالے کوٹ والے اکثر اسی بات پر کالی وردی والوں سے خاص کر الجھتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اب انہیں یہ بات کون سمجھائے کہ قانون کو قانون نہیں پڑھایا جا سکتا۔اگر قانون ہی پڑھنا ہوتا تو وہ کالا کوٹ نہ پہنچ لیتے۔

ہر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اپنے اپنے فرائض ہیں لیکن یہ لوگ اپنے فرائض سے بڑھ کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جہا ں یہ لوگ کھڑے ہوں وہیں یہ قانون سمجھے جاتے ہیں۔ان کی وردی کسی بھی رنگ کی ہو لیکن اگر سڑک پر ہاتھ دے دیں تو ٹریفک رُک جاتی ہے کیونکہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اختیار ہے کہ یہ آپ کی جامہ تلاشی سے لے کر شناختی کارڈ تک سب کچھ چیک کرسکتے ہیں۔ اگر آپ گاڑی پر ہیں تو گاڑی کے کاغذات سے لے کر لائسنس تک ہر چیز طلب کرسکتے ہیں۔لیکن آپ کے پاس سوال کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سوال کے درست جوابات اگر انہوں نے تعلیمی اداروں میں دیئے ہوتے تو آج یہ کام نہ کرتے۔ انہیں یہ عادت بچپن سے ہی ہوتی ہے کہ یہ کسی سوال کا جواب نہیں دیتے کیونکہ سوال کا جواب دینا یہ اپنی توہین سمجھتے ہیں اور توہین قانون کبھی برداشت نہیں کرتا۔اگر یہ سڑک سے گزر رہے ہیں تو عوام کا فرض ہے کہ وہ ان کو راستہ دیں کیونکہ قانون ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ نے ان کو راستہ دینے میں تاخیر کی تو آپ قانو ن کے راستہ میں رکاوٹ سمجھے جاسکتے ہیں اور قانون اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانا جانتا ہے۔
پاکستان سے باہر ٹریفک پولیس والے گاڑی سے اتر کر گاڑی والے کے پاس جاتے ہیں اور پھر ہاتھ ملا کر چالان کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں چونکہ قانون نافذ کرنے والوں کا بے حد احترام پایا جاتا ہے اسی لیے عوام خود اتر کر ان کے پاس جاتی ہے اور ہاتھ گرم کرکے چالان نہ کرنے کی اپیل کرتی ہے جو اکثر رحم دل قانون نافذ کرنے والے موقع پر ہی منظور کرکے قانون کو مزید الجھنوں سے بچا لیتے ہیں۔ یوں معاملات موقع پر ہی رفع دفع کرلیے جاتے ہیں۔

کالی وردی والے اکثر سڑک کے کنارے اندھیرے میں کھڑے ہو کر جرم کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ہر آتے جاتے کو دیکھ کر اندازا لگا لیتے ہیں کہ مجرم کون ہے۔ مجرم ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے لیکن یہ مجرم کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔انہیں عوام سے شکایت ہے کہ وہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ اگر وہ بھی تعاون کریں تو معاملات تھانہ تک پہنچے سے پہلے ہی ختم کیے جاسکتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصہ قبل شہر کے چوک چوراہے اور گلیاں جنگ کا منظر پیش کرتی دکھائی دیتی تھیں۔ عوام نے قانون اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور بیریئر لگا کر راستے بند کررکھے تھے۔یہ کام تو قانون نافذ کرنے والوں کا تھا لیکن عوام نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔آج کل یہ بیریئر آپ کو صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے باہر دکھائی دیں گے۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ اگر خطرات لاحق ہیں تو وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کوہیں جن کو سیکورٹی کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کا فرض ہے کہ وہ قانون نافذکرنے والوں کی سیکورٹی کو یقینی بنائیں۔

دہشت گردی کی جنگ میں قانون نافذ کرنے والوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ انہوں نے کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینے دیاکیونکہ قانون کو اپنے ہاتھ میں رکھنا صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے اسی لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے تاکہ قانون بھٹکنے نہ پائے۔ قانون نافذ کرنے والے قانون کو راستہ دکھاتے ہیں کہ قانون کو کس طرح اپنا راستہ بنانا ہے۔

قانون اندھا ہے اس لیے اس پر کچھ لکھنا بھی گویا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے اور ہمیں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا بالکل بھی پسند نہیں اس لیے قانون کے ساتھ مذاق بالکل بھی نہیں کرسکتے ۔ اس لیے قانون کو یہی ختم کرتے ہیں۔
٭……٭
 
Mir Shahid Hussain
About the Author: Mir Shahid Hussain Read More Articles by Mir Shahid Hussain: 49 Articles with 39360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.