کیا ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے

دنیا کے کسی بھی ملک کی عزت و وقار کا انحصار اس ملک کی خارجہ پالیسی پر ہوتا ہے اور خارجہ پالیسی کا انحصار ملکی قیادت پر ہوتا ہے۔مخلص ، مضبوط اور با وقار قیادت با عزت خارجہ پالیسی بناتی ہے جس سے اسے دنیا میں ایک با عزت مقام ملتا ہے۔اقوام عالم میں ملک احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے
ایک زمانہ تھا جب پاکستان کا گرین پاسپورٹ دنیا میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ قوم کی بھی ہر ملک میں عزت تھی۔کچھ قوموں نے ہماری ترقی اور معاشی پالیسیوں سے سیکھا۔ آج وہ قومیں ہم سے آگے نکل چکی ہیں۔ دنیا میں اپنا ایک با عزت مقام بنا چکی ہیں جبکہ ہم بطور قوم اپنی عزت و وقار کھو چکے ہیں۔ ہم دنیا کی نظروں میں صرف اور صرف دہشتگرد ہیں۔یہی حالت ہمارے پاسپورٹ کی ہے۔ لوگ دیکھتے ہی شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ملک پاکستا نیوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بہت کمزور اور کسی حد تک بے مقصد ہے جو ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔جس ملک کا دل چاہتا ہے پاکستان کیخلاف بیان دے دیتا ہے ۔ہماری قومی سلامتی کیخلاف کاروائیاں کرتا ہے۔ ہمارے قومی وقار کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ مذاق بناتا ہے ۔قوم کا دل جلتا ہے لیکن ہمارے راہنما خاموشی کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ہماری خارجہ پالیسی ہماری سلامتی اور قومی وقار کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے جس کی کئی مثالیں ہیں جن میں سے چند ایک میں اپنے قارئین کیساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔

پچھلے سال امریکی صدر باراک او باما نے بھارت کا دورہ کیا۔ دس سالہ دفاعی معاہدے کے علاوہ سول نیو کلئیر توانائی، اہم اور جدید ہتھیاروں کی سپلائی اور معاشی ترقی کے کئی ایک معاہدوں پر دستخط کئے۔پاکستان کی طرف نظر پھیر کر دیکھنا تک پسند نہ کیا۔یہ تھی عزت فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی اور امریکہ کیلئے روس سے لڑنے کی۔ حال ہی میں امریکہ کے ڈ یفنس سیکر ٹری ایشٹن کارٹر نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا۔ دورے سے پہلے انہوں نے سر کردہ امریکی تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز سے خطاب میں کہا کہ اب وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے نئے سودوں کے متعلق بات کرینگے۔ پہلے بھارت اور پاکستان سے ایک ہی سکے کے دو رخ کی نظر سے بات کرتے تھے لیکن اب ویسا نہیں ہوگا۔بھارت کا ایک عالمی کردار فہے۔ہم اسی لحاظ سے بھارت کے ساتھ ڈیل کرینگے۔یاد رہے کہ ایک سال میں ایشٹن کارٹر کا بھارت کا یہ دوسرا دورہ تھا۔اس دورے میں بھارت کے ساتھ سابقہ معا ہدوں کی تجدید کے علاوہ طیارہ برادرجہازوں ،جیٹ لڑاکا طیاروں ،جیٹ انجنوں اور جدید قسم کے ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔مزید یہ کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک دوسرے کی بری ،بحری اور ہوائی سہولتیں استعمال کرنے کا معاہدہ بھی ہوا۔ اس سے بڑی ناکامی بھلا ہماری خارجہ پالیسی کی کیا ہوگی؟

ڈائرکٹ بھارت کیساتھ بھی ہماری خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے۔بقول نوائے وقت پاکستان کو اپنا فدویانہ رویہ ترک کرنا پڑیگا۔ معلوم نہیں پاکستان بھارت سے مر عوب ہے ،احساس کمتری کا شکار ہے یا پھر ذاتی مفادات کا لحاظ ہے۔ بہر حال وجہ کوئی بھی ہو یہ با عزت اور باوقار قوم والا رویہ ہرگز نہیں۔یہاں ہم تین مثالیں لیں گے۔پہلی مثال تو ہائی پرو فائل بھارتی جاسوس کلبھوشن یا دیو کی ہے جسے بلوچستان سے پکڑا گیا۔ یا دیو نے قبول کیا ہے کہ وہ ’’را‘ ‘ کا ایجنٹ ہے اور کئی سال سے یہاں کام کررہا ہے ۔’’را‘‘ کا مقصد بلوچستان اور کراچی میں امن و امان خراب کر کے دہشتگردی کو ہوا دینا ہے اور ا س دہشتگردی کے ذریعے کراچی کو بلوچستان سے علیحٰدہ کرنا ہے۔اس مقصد کیلئے وہ کراچی میں رہا اور افغان انٹیلی جنس سے بھی اسکے گہرے رابطے تھے جہاں بلوچ دہشتگردوں کو تر بیت دی جاتی۔ رقم اور ہتھیار فراہم کئے جاتے اور پھر بلوچستان میں دہشتگردی پھیلانے میں انکی مدد کی جاتی۔ ان بلوچ دہشتگرد تنظیموں کو ’’را‘‘ کی طرف سے بھی کروڑوں روپے کے فنڈز ملتے تھے جو یا دیو تقسیم کرتارہا۔کچھ منتخب شدہ اشخاص کو تربیت کیلئے بھارت بھی بھیجا جاتا ۔ ’’را‘‘ کے ان دہشتگرد گروپس کے غیر ممالک میں رہنے والے بلوچ لیڈروں سے بھی گہرے رابطے ہیں۔اتنا بڑا ثبوت ہاتھ آنے کے بعد قوم کا خیال تھا کہ پاکستان بھارت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کریگا لیکن یہاں حکومت نے چند ممالک کو نیم دلانہ بر یفنگ دینے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی مکمل خاموشی میں چلے گئے۔

دوسری مثال پٹھان کوٹ پر حملے کی ہے۔جونہی حملہ شروع ہوا بھارتی لیڈروں اور بھارتی میڈیا نے الزام پاکستان پر لگا دیا حالانکہ اسوقت تک کوئی خاص ثبوت بھی سامنے نہیں آیا تھا۔پاکستان نے فوری طور پر بھارت کی مدد کی۔ الزام چونکہ جیش محمد پر تھا انہیں پکڑا۔تفتیش کی۔گو جرانوالہ میںایف آئی آر درج کرائی اور بعد میں مزید تفتیش اور ثبوتوں کیلئے اپنی ٹیم بھارت بھیجی لیکن بھارت نے بالکل تعاون نہ کیا۔ نہ توانہیں مکمل طور پر ائیر بیس کا معائنہ کرنے دیا گیا اور نہ ہی واقعہ کے عینی شاہد گواہوں سے ملنے دیا گیا اور مزید یہ کہ بھارت نے پاکستان سے ہر قسم کے مذاکرات بھی معطل کر دئیے ۔ پہلے کی طرح پاکستان اب بھی خاموش ہے۔تیسری مثال ہمارے دوست ممالک کی ہے جن میں ہمارے پڑوسی افغانستان ، ایران ، عرب امارات اور سعودی عرب ہیں۔ افغانستان کیساتھ بھارت کے گہرے تعلقات ہیں اور وہاں ’’را‘‘ کام کررہی ہے۔ایران میں بھارت چاہ بہار بندر گاہ ڈیو لپ کررہا ہے اور کئی بلین ڈالرز تیل اور گیس میں انوسٹ کئے ہیں۔ بقول ایرانی صدر: ’’پاکستان اور بھارت دونوں ہمارے دوست ہیں‘‘۔عرب امارات سے بھی بہت گہرے تعلقات پیدا کر لئے ہیں اور امارات 75بلین ڈالرز کی خطیر رقم بھارت میں سپیس اور انفراسٹرکچر پر انوسٹ کررہی ہیں۔جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے نر یندرا مودی کے حالیہ دورے میں کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔بھارتی وزیر اعظم سعودی عرب کے سب سے بڑے اعزاز کنگ عبدالعزیز آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا جو آج تک کسی پاکستانی لیڈر کو نصیب نہیں ہوا۔تو یوں بھارتی خارجہ پالیسی نے پاکستان کو اپنے ہی دوستوں میں تنہا کردیا ہے۔ معلوم نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کہاں پر ھے جناب۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299841 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More