چھوٹو گینگ اور اس کے سہولت کار؟

ملک میں قانون کے ضابطے اور اخلاقیات سپریم ہوہونی چاہیں۔قانون وہ واحد طاقت ہے جو جنگل کو معاشرے میں تبدیل کرتی ہے،جس معاشرے میں ضابطہ قانون اور اخلاقیات نہ ہوں، اس معاشرے کو معاشرہ کہنا معاشرے جیسے لفظ کی توہین ہے……مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حالات اسی دور سے گزر رہے ہیں،جہاں قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے،جو چاہتا ہے، اس سے بڑی آسانی سے کھیلتا ہے،کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکتا۔اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی،جس کی مثالیں آئے روز سامنے آتیں رہتی تھیں، مگر چھوٹو گینگ کے کارناموں اور فوج کی جانب سے اس کے خلاف آپریشن نے حکومت پنجاب کے ’’سب اچھا ہے‘‘ کے تمام تردعوؤں کو کھوکھلا اور محض بڑھک بازی ثابت کر دیا ہے۔نو سال سے حکومت کرنے والے حکمرانوں کی ناک کے نیچے چھوٹو گینگ نے اپنے جرائم کی بادشاہت قائم کر رکھی تھی،مگرریاست کی یہ جرأت نہیں کہ اسے ہاتھ بھی لگا سکے،اب بھی جب فوج کے ’’الضرار‘‘کمانڈوز کی جانب سے آپریشن شروع ہو چکا ہے تو حکمرانوں کی جانب سے مضحکہ خیز تاویلیں گھڑی جا رہی ہیں کہ وہ علاقہ ایسا ہے جہاں دلدل اور پانی ہے، کشتیوں کے بغیر جانا نا ممکن ہے،تین صوبوں کی سرحدیں لگتی ہیں وغیرہ، اس لئے ہم ان جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑ نہیں سکے۔

راجن پور کے علاقے کچا میں طویل عرصے سے چھوٹو گینگ، جس کا سردارغلام سرور عرف چھوٹو ہے،سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث رہا ہے،اس پر 48قتل،متعدد اغوا برائے تاوان،ڈاکے،دہشت گردی جیسے اقدامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔اس کے گینگ میں 150 کے قریب جرائم پیشہ لوگ شامل ہے،تا حال8اضلاع کی پولیس چھوٹو گینگ کو قابو نہیں کر سکی ،اس کو پکڑنے کے لئے ہر سال آپریشن کیا جاتا رہا ہے،جس کا الگ سے بجٹ بھی دیا گیا ، مگر اس کے باوجود پولیس فورس اس گینگ کو اپنی گرفت میں نہیں لا سکی اور ہر بار پولیس فورس کو جل دے کر اس کی گرفت سے نکل جاتا رہا ہے۔اس سے یہ سمجھنے میں شاید کوئی مشکل پیش نہ آئے کہ جس طرح سندھ میں صعولت مرزا اور عزیر بلوچ کی پشت پناہی کرنے والے بڑے بڑے نام سامنے آئے ہیں ، اسی طرح پنجاب میں چھوٹو گینگ کی پشت پناہی کرنے والے وڈیروں ، جا گیرداروں اور سیاستدانوں کو بھی بے نقاب کرنا لازمی ہو گا، کیونکہ اس طرح کی سہولت میسر نہ ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے،لہذا ان سہولت کاروں کا گرفت میں آنا بھی ضروری ہے۔

پنجاب پولیس کے بارے میں ملک کی بہترین فورس ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے پولیس فورس کے لئے بے تحاشا فنڈز مہیا کئے جاتے رہے ہیں ،مگر اس کی کارکردگی ہمیشہ صفر ہی رہی ہے ،جبکہ چھوٹو گینگ کے خلاف پولیس فورس کی کارکردگی نے اس کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں جرائم کو کنڑول کرنے کے لئے اب پنجاب فورس کیا کرے گی،کیا ان کے پاس فنڈز کی قلت تھی؟کیا ان کے پاس نا تجربہ کار منصوبہ ساز ہیں؟کیا ان کی نیتوں میں کھوٹ ہے؟کیا صوبے میں جرائم کی بینح کنی کر کے معاشرے میں تبدیلی یا اصلاح کرنا نہایت مشکل کام ہے؟کیا حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس فورس اس قدر لاچار ہے کہ چھوٹو گینگ کے سامنے ہمیشہ گھٹنے ٹیک دیتی ہے؟ایسے حالات میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے چیلنجوں کا کیوں کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟یہاں حکومت پر تنقید کرنا مقصود نہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ جو سوالات جنم لے رہے ہیں ،ان کے جوابات کیسے ملیں گے؟حکومتی نمائندے بیانات ،وعدوں اور وقت گزاری کے علاوہ کچھ کرتے نظر نہیں آتے۔اب عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ،وہ نفرت اور محبت،سچ اور جھوٹ کی سیاست کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

اس حقیقت سے کسی طور پر بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ تاریخ کی جابر عدالت اپنے فیصلے صادر کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے اور منوانے کی قدرت بھی۔وہ کسی کے جاہ وجلال کو دیکھتی ہے نہ اتھارٹی کو ، اس کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔نہ اپیل،نہ کوئی ریویو پٹیشن ،ہاں مہلت عمل ضرور ملتی ہے۔ تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ بیرونی حملہ آوروں نے جنگیں اس وقت جیتیں جب قلعہ کے دروازے اندر سے کھولے گئے۔چالاک دشمن پہلے اختلافات و انتشار کا ماحول پیدا کرتا ہے، اختلافات کو ہوا دیتا ہے، انہیں چنگاری سے آگ میں تبدیل کرتا ہے، پھر فائر بریگیڈ کا رول بھی ادا کرتا ہے۔جہاں ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہو ،وہاں دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔آپس میں دست و گریباں ہونے کو عین انصاف و عدل کا تقاضہ سمجھا جاتا ہے۔کیا ہم بھی تو ازن و اعتدال سے محروم بے سمتی کا شکار ہو کر آہستہ آہستہ اجتماعی خودکشی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

ہم پر اندرونی و بیرونی دشمنوں نے گھیرا تنگ کر رکھا ہے،حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینے چائیں،انہیں اس حقیقت سے آشنا ہونا پڑے گا کہ سیاست سے پاک بہتر حکمت عملی اور عمدہ تدابیر ایک پائیدار اور مستحکم حکومت کی ضامن ہوتی ہے، انہیں عزم مصمم کے ساتھ عوامی مسائل کا حل ، تعلیم اور علاج معالجے کی بہتر خدمات،روزگار،جرائم سے پاک آزاد ماحول میں خوشگوار زندگی اور ریاست کی ترقی کو اوّلین ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا اور ان پر کماحقہ ، عمل بھی کرنا ہو گا، یہ اقدامات نہ صرف ریاست کی ترقی میں چار چاند لگائیں گے بلکہ ایسے حکمران کی کرسی ہلانے میں بڑے بڑے سیاسی سورماؤں کے پسینے چھوٹ جائیں گے،دوسری طرف عوام ایسے حکمران کے لئے دعاگو ہوتے ہیں اور اﷲ تعالٰی سے اس کی لمبی عمر اور صحت کے بھی طلبگار ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کو عوام نے بار بار حکومت میں لانے کے لئے بھرپور جدو جہدکی ہے،مگر بدلے میں عوام کو بے روزگاری ،غربت ،بے انصافی ،کرپشن ہی ملی۔ نہ جان و مال کا تحفظ ، نہ صحت ،نہ تعلیم ، آئے روز بھوک سے تنگ آکر خودکشیاں ہی انعام میں ملی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ الفاظی اور کاغذی ترقی کی بجائے ریاست کے مفاد میں بہتر اصولوں پر گامزن ہوں،تو پہاڑ جیسی سیاسی رکاوٹیں بھی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں،لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو کبھی باد صبا تو کبھی صر صر،کبھی آندھی کبھی طوفان یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ آتے رہتے ہیں۔گردشِ ایام اور شب و روز کی تبدیلی یقینی ہوتی ہے،رات کا اندھیرا ہمیشہ رہنے والا نہیں ،تاریکی کا پردہ چاک کر کے صبح کی سفیدی کا نمودار ہونا ،جس طرح یقینی ہے،اسی طرح ظالموں اور مظلوموں کے درمیان توازن کی تبدیلی کا چکر بھی چلتا رہتا ہے۔حکمرانوں کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ جب آپ ظلم کرنے اور ظالم کی مددکرنے میں لذت محسوس کرنے لگ جاؤ گے تو سمجھ لینا کہ سخت آزمائش اور چیلنجوں نے دروازے پر دستک دے دی ہے،لگتا ہے کہ ہمارے حکمران کچھ ایسی ہی لذت محسوس کر رہے ہیں ،جو لمحہ فکریہ ہے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 96868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.