بھائی، دوست، دشمن اور قادیانیت

تحریر: شوکت علی مظفر

ہم نے ہمیشہ پرویز مشرف کے خلاف ہی لکھا اور وجہ یہ تھی کہ انہیں کتے بہت پسند ہیں اور ہمیں سخت نا پسند۔ میاں نواز شریف ہمیں اچھے لگتے تھے تو اس وجہ سے کہ وہ پائے کے بہت شوقین ہیں اور میری بھی پسندیدہ ڈش یہی ہے اسی وجہ سے مَلک مجھے ”بڑے پائے کا مزاح نگار“ سمجھتا ہے، لیکن میاں صاحب نے ایک ایسی حرکت کردی کہ ہمیں مشرف صاحب ایک دم ہی اپنے کتوں سمیت اچھے لگنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے جب میاں صاحب قادیانیوں کو ”بھائی“ کہہ کر گود میں بٹھائیں گے تو سابق صدر کا اچھا لگنا مجھ جیسے کمزور مسلمان کے لیے فطری بات ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف نے جس قسم کی ”بھائی چارگی“ کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے تو ہمیں لفظ ”بھائی“ بھی آلودہ آلودہ سا لگ رہا ہے۔ اگرچہ مَلک نے ہمیں کہا بھی کہ”مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“ تو معلوم نہیں ہمارے منہ سے خود بخود یہ سوال کیسے نکل گیا ”کیا نواز شریف مسلمان نہیں رہے؟“

مَلک صاحب چونکہ معاملہ فہم انسان ہیں اس لیے کوشش کرتے ہیں کہ تلخی نہ پیدا ہو اس لیے فرمایا ”ہوسکتا ہے انسانیت کے ناطے میاں صاحب نے قادیانیوں کو بھائی کہہ دیا ہو۔“

مگر قادیانیوں کا سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی تو خود کو انسان مانتا ہی نہیں تھا۔
مَلک نے تیوری چڑھائی” یہ تو جاہل سے جاہل انسان بھی جانتا ہے کہ وہ خود کو نبی، مسیح موعود اور مہدی گردانتا تھا۔“

”مَلک جی آپ سمجھے نہیں۔ نبی بھی ہوتا تو انسان ہی ہے مگر قادیانیوں کا مرزا خود کو انسان ہی نہیں مانتا۔“

مَلک نے گھورا اور محلے کی زبان میں کہا”اشتیاق احمد نہ بن....ڈائریکٹ بات کر.... مرزا خود کو کیا مانتا ہے؟“
”مرزا قادیانی خود کو انسان کی شرم والی جگہ (تعین خود کیجئے وہ کون سی جگہ ہوتی ہے)مانتا ہے۔“

” تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“ مَلک نے شرم والی جگہ کا سن کر شرماتے ہوئے پوچھا۔
”مرزا خود اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم ص97خزائن ج21ص127 میں انکشاف کرتا ہے کہ
کرمِ خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار

اس کا ترجمہ مولانا اللہ وسایا صاحب نے ایک مناظرے میں پنجابی زبان میں یوں کیا تھا، میں بندے دا پتر ای نئیں جیہڑی انسان دی سب توں شرم والی جگہ اے میں اَو ہاں۔ آگے کہتے ہیں، غلام احمد کو تو آپ”بندے دا پتر“ ہی نہیں ثابت کرسکتے چہ جائیکہ اسے نبی ثابت کیا جائے۔ “

”یار! پھر میاں صاحب نے کس حساب سے انہیں اپنا بھائی کہا ہے؟“ مَلک نے پریشانی سے میری طرف دیکھا۔
”حساب تو میں واضح کرچکا ہوں، نتیجہ خود نکال لو۔“میں نے مختصر جواب دیا۔

صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میرے حساب سے سیاست کو چولی کا مقام حاصل ہے، کیونکہ ”چولی کے پیچھے کیا ہے؟“سب کو معلوم ہے۔ صحافت کو دامن کے درجہ پر رکھا جاسکتا ہے، مگر سنا ہے(پڑھا بھی ہے) مرزا قادیانی نے اپنے زمانے میں اس دامن کو بھی داغدار کرنے کی کوشش کی تھی۔ کوئی اخبار شخبار ان کی سرپرستی میں نکلتا رہا ہے اور اس میں بھی وہی کچھ ہوتا تھا جو ان کی کتابوں میں بھرا پڑا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدوس ہاشمی تو خوامخواہ ہماری تحریروں کے صاف جملوں سے بھی ”اپنا مطلب“ نکال کر خوش ہوتے ہیں اور پھر طنز بھی کرتے ہیں کہ میں جو اکثر جملے استعمال کرتا ہوں ، ڈاکٹر صاحب انہیں صرف سوچ سوچ کر اندر اندر ہی خوش ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب! کیا آپ کو مرزا قادیانی کی تحریریں نظر نہیں آئیں جو کھلے عام حیض و نفاس اور خدا سے وہ والا کام کروانے کی باتیں لکھتا ہے جو کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو حوالہ حاضر ہے کہ مرزا قادیانی” اسلامی قربانی“ نمبر34ص12پر لکھتا ہے”اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ وہ کام کیا جو مرد اپنی عورت کے ساتھ کرتا ہے۔“ اور کشتی نوح ص48خزائن ج19ص50پر خوشخبری دیتا ہے کہ”مجھے حمل ہوگیا۔“ اس حمل سے کوئی اولاد ہونے کی اطلاع تو نہیں ملی البتہ یہ معلوم ہے کہ ان کا پیٹ خراب ہوگیا تھا جس کی وجہ سے دست سے دست بدست لڑتے لڑتے بیت الخلاء میں ہی ”پتلی گلی“ سے جان نکل جانے کے سبب لڑھک گئے۔

صحافت کا ایک نامور ستارہ مبشر لقمان بھی ہے میں نے چینل پر آج تک ان کے صرف دو پروگرام ہی دیکھے ہیں۔ ایک میں ہیجڑوں کا ڈائریکٹر”بوبی“ مہمان تھا اور دوسرے پروگرام میں قادیانیوں کا موجودہ ڈائریکٹر ”غلام احمد“ مہمان تھا۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پروگرام کس ”لیول“ کا ہے۔ مبشر صاحب اپنے پروگرام کو ”میں تو کرتا ہوں کھری بات“ کے بینر تلے چلاتے ہیں، حالانکہ انہیں یہ لکھنا چاہئے”میں تو کرتا ہوں وَکھری بات۔“ جو حضرات پنجابی نہیں جانتے وہ کسی پنجابی سے ”وَکھری“ کا ترجمہ کرالے لیکن خیال رہے پنجابی کہیں مرزا غلام قادیانی کی طرح کذاب اور جھوٹا نہ ہو ورنہ مطلب کیا سے کیا نکل جائے ہماری گارنٹی نہیں۔

مَلک کے دل میں پھر شیطان نے گدگدی کی تو اس نے کہا”تم بار بار مرزا کو جھوٹا کہہ رہے ہو۔ قادیانیوں نے اس کا ثبوت مانگ لیا تو پھر....؟؟“
” میں تو صرف جھوٹا اور کذاب کہہ رہا ہوں جس کے حوالہ کے لیے مرزا قادیانی کی اپنی کتابیں ہی بہت ہیں مگر قادیانی حضرات تو خود ہی نہ صرف اپنے بابائے دوزخ کی توہین کرتے ہیں بلکہ گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مجھے پتہ ہے مَلک! تم اس کا بھی ثبوت مانگو گے تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی کتاب”قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرے“کے صفحہ نمبر171کے آخری پیرے میں تحریر ہے کہ آج سے برسوں پہلے کنری سندھ میں ایک مسلمان لوہار کی دکان پر ایک مرزائی آگیا۔ اس نے مرزا غلام احمد قادیانی کی مدح و توصیف شروع کردی اور کہا کہ مرزا قادیانی تمام نبیوں کا سردار تھا۔ مسلمان لوہار دستے والی کلہاڑی کی دھار تیز کرتا رہا۔ جب مرزائی مبلغ کی تبلیغ کرتے کرتے منہ میں جھاگ تیرنے لگی تو مسلمان نے کلہاڑی لہرا کر مرزا قادیانی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا اور مرزائی سے مطالبہ کیا کہ جو گالیاں مرزا قادیانی کو میں نے دی ہیں، تم بھی دہراتے چلو تاکہ سبق یاد ہوجائے۔ مرزائی ڈر کے مارے گفتنی و ناگفتنی ان گالیوں کی گردان مرزا قادیانی کو سنانے میں مسلمان لوہار سے بھی چند قدم آگے۔ اب مسلمان نے وہ تیز دھار کلہاڑی مرزائی کے ہاتھ میں تھما دی اور گردن جھکا کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا کہ آپ مجھ سے یہ مطالبہ کریں کہ میں (نعوذ باللہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کروں ورنہ کلہاڑی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کہہ کر مسلمان لوہار رَو پڑا کہ میں مر جاﺅں گا، ٹکڑے ٹکڑے ہونا قبول کرلوں گا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر مسلمان لوہار اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ مرزائی مبلغ صاحب آپ کے اور ہمارے سچے جھوٹے ہونے کی یہی دلیل ہے۔ سچے ہی کی توہین ناقابل برداشت، جھوٹے کی جتنی توہین کیے جاﺅ، اس جھوٹے کے ماننے والوں پر اس کا اثر نہ ہوگا۔“

میاں نواز شریف تنہا ہی قادیانیوں کو بھائی کہنے والے نہیں ہیں دیگر بڑے بڑے سیاستدان بھی انہیں اپنا سمجھتے ہیں، جبھی تو ان کی حمایت میں بیانات اور ان کے حقوق کے لیے آواز یں اٹھاتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی موجودہ سیاست کو گندگی کا ڈھیر ہی سمجھا جاتا ہے جس سے کبھی کسی غریب کو فائدہ نہیں پہنچتا اور قادیانیت بھی یہی کچھ ہے تو اگر میاں صاحب نے قادیانیوں کو اپنا بھائی سمجھا ہے تو ”سیاست کا اثر“ ہے۔ دعا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ”یومِ تکبیر“ کے صدقے عقل دے تاکہ انہیں دوست دشمن کی پہچان ہوسکے کیونکہ بات تو صرف چاہت کی ہوتی ہے ورنہ دوست اور دشمن شروع ایک ہی لفظ سے ہوتے ہیں!

نوٹ: شوکت علی مظفر صاحب کا یہ مضمون ہمیں پسند آیا اور اسی لئے ہم نے سوچا کہ اس کو آپ لوگوں سے شئیر کیا جائے کیونکہ اس وقت ہماری ویب اور میڈیا پر بھی یہی موضوع زیر بحث ہے۔ امید ہے کہ ہماری یہ کاوش آپ کو پسند آئے گی۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458893 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More