موزے، برساتی کوٹ، سیل فون کی حفاظت کرنی چاہیے

دو دن پہلے پریس کلب میں میرے ایک دوست کے پاس امریکہ سے فہد ہاشمی کے والد کا فون آیا۔ طویل گفتگو کے بعد میرے دوست نے بتایا کہ ہاشمی صاحب کراچی میں رہتے تھے۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ جنہں۰۸۹۱میں دو ڈھائی سال کی عمر میں پاکستان سے امریکہ لے گئے تھے۔ ان بچوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی، ان کی اردو بھی واجبی سے ہے۔ ان میں چھوٹا بیٹا فہد ہاشمی ہے۔ فہد ہاشمی نیویارک کے علاقے کوئینز میں پلے بڑھے۔ انہوں نے بروکلین کالج سے ۳۰۰۲ میں پولیٹیکل سائنس کی ڈگری لی۔ اور پھر انٹرنیشنل ریلیشنز میں لندن کی میٹرو پولیٹن یونیورسٹی سے ۶۰۰۲ میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ نائین ایلیون کے بعد امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف جو ظالمانہ پالیسی اختیار کی۔ اس پر امریکیوں نے بھی احتجاج کیا۔ فہد ہاشمی بھی امریکی پالیسوں اور مسلمانوں کے خلاف امریکی امتیازی رویہ پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتا تھا۔ امریکی معاشرہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن فہد کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ فہد ہاشمی ایک ذہین اور پڑھنے لکھنے والا طالب علم تھا۔ دوران طالب عالمی اس کا تعارف ’المہاجرون‘ نامی تنظیم سے ہوا۔ اس کی لمبی ڈارھی اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس کی ہمدردی اور امریکہ کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے اسے امریکی پالیسوں سے اختلاف کا راستہ دکھایا۔ لیکن وہ امریکی شہری تھا۔ قانون کی پاسداری کو مقدم رکھتا تھا۔ اس لئے وہ کسی خلاف قانون کام میں ملوث نہیں ہوا، لیکن امریکی انیٹیلیجنس اور ایف بی آئی اس کے پیچھے لگی رہی۔ چھ جون کو اسے ہیتھرو ایئر پورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر القاعدہ سے رابطے، فوجی ساز وسامان اور رقم کی فراہمی کا الزام لگایا گیا۔ جب وکیل نے فوجی امداد کی تفصیلات پوچھی تو یہ موزے اور برساتی کوٹ نکلا۔ امریکیوں کی پوری کوشش تھی کہ فہد کو برطانیہ سے امریکہ لے جایا جائے۔ وہ برطانیہ سے امریکہ کے حوالے کئے جانے والے پہلے فرد ہیں۔ ۷۰۰۲ میں امریکی فہد ہاشمی کو امریکہ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں اسے اے کیٹیگری سیکورٹی میں تین سال تک ۳۲ گھنٹے قید تنہائی میں رکھا جاتا رہا۔ جب ایک گھنٹے اس کی اہل خانہ سے ملاقات کرائی جاتی تو اس دوران چاروں طرف کیمرے لگے ہوتے۔ اس رویہ نے فہد کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ اس کی داستان اس قدر ہولناک تھی کہ اس کی ایک امریکی پروفیسر نے اس پر احتجاج کی مہم شروع کردی۔ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی کیمونٹی میں یہ کیس بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ جو مقدمے سے قبل ہاشمی کی قید کے حالات پر اعتراض کر رہے ہیں۔ ہاشمی کو مین ہیٹن کی جیل کی کوٹھری میں لگ بھگ تین سال تک دن کے 23 گھنٹوں کے لیے تنہا رکھا جاتا تھا۔

بروک لین کالج کی سیاسیات کی پروفیسرژاں تھیو ئارس نے ہاشمی کو پڑھایا تھا اور انہوں نے اس کے مقدمے کی تشہیر کے لیے ایک مہم منظم کرنے میں بھی مدد کی تھی جس میں مین ہیٹن میں چندہ اکھٹا کرنے کی ایک حالیہ مہم بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہاشمی کی قید کے حالات اذیت رسانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اِس قسم کے حالات غیر انسانی ہیں۔ یہ بین الااقوامی معیار کے منافی ہیں۔ یہ لوگوں کی اہلیت پر اور مسٹر ہاشمی کی جانب سے خود اپنا دفاع کرنے کی اہلیت پر ایک غیر مناسب سودے بازی کے مترادف ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ یہ غیر امریکی رویہ ہے۔ جیل کے باہر فہد ہاشمی کے حمایتیوں کا طویل عرصے تک باقاعدگی سے احتجاج بھی جاری رہا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ ہاشمی کو قانونی کاروائی سے پہلے ہی اذیتناک حراست میں رکھا گیا ہے۔ لیکن امریکی اپنے اس خلاف قانوں رویہ پر شرمندہ نہیں ہیں۔ وہ اسے معمول کی کاروائی قرار دیتے ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکی شہری سید فہد ہاشمی کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے جرم میں بدھ کو نیو یارک کی ایک عدالت نے پندرہ سال قید، اور رہا ہو کر مزید تین سال نگرانی میں گزارنے کی سزا سنائی۔ ڈاکٹر عافیہ کی طرح یہ کیس بھی مسلمان نوجوانوں کو یہ باور کرانے کے لئے ہے کہ وہ اپنے دل سے جذبہ جہاد کو نکال پھینکیں۔ ورنہ انہیں دنیا میں عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ امریکیوں نے مسلمانوں پر تشدد کے جو نئے انداز پنائے ہیں۔ ان پر امریکی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شرمندہ ہیں۔ اور مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ قیدیوں کو طویل عرصے قید تنہائی میں رکھ کر انہیں نفسیاتی مریض بنا دیا جاتا ہے۔ پھر ایسے ٹاﺅٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ جو قیدیوں کی ہمدری حاصل کرتے ہیں۔ اور انہیں عدالت میں اعتراف جرم اور ہلکی سزا سنانے کے لئے ہموار کرتے ہیں۔ فہد ہاشمی پر بھی یہی نسخہ آزمایا گیا۔ جج نے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم اعتراف کرتے ہو۔ تو اس نے کہا الحمدللہ۔ جی ہاں ۔ پھر اس کا جرم بھی کیا ہے، ایسے مقدمات تو پاکستانی پولیس بھی بناتی رہی ہے، چوہدری ظہور الہی پر بھینس کی چوری سے مشابہ اس مقدمے میں موزے، برساتی کوٹ، سیل فون کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو اپنے موزے، برساتی کوٹ، سیل فون کی حفاظت کرنی چاہیے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387950 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More