ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر

ملک میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر.... حکومت کو نئے چیلنجز کا سامنا

ملک میں جوں جوں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے توں توں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جارہا ہے۔ پاناما لیکس کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد سے شریف فیملی کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی فیملی کے بچاﺅ کے لیے روز کوئی نیا طریقہ دریافت کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے کوئی نئی افتاد میاں صاحب کی بچاﺅ کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہے اور میاں صاحب کو ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کرنا پڑتا ہے۔ پاناما پیپرز کے اسکینڈل سے پردہ فاش ہوئے کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ حکومت کرپشن کے خلاف اقدامات میں سنجیدہ ہے۔جبکہ تمام سیاسی جماعتیں ہاتھ دھو کر میاں صاحب کی وزارت کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ پاناما لیکس انکشافات کے بعد حکومت اوراپوزیشن جماعتوں کے درمیاں باقاعدہ سیاسی محاذ آرائی شروع ہوچکی ہے۔ حکومت مخالف سیاسی جماعتیں خم ٹھونک کر حکومت کے خلاف میدان میں آچکی ہیں اور بھرپور جلسے اور احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پاناما لیکس کے سامنے آنے کے بعد سے نواز شریف شدید سیاسی دباؤ کا شکار ہیں۔ دنیا کے بڑے ٹیکس چوروں کی فہرست میں شریف فیملی کا نام آجانے کے بعد ملک بھر کے تمام حلقوں کی جانب سے میاں نواز شریف کی حکومت پر انگلی اٹھائی جارہی ہے اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

پاناما لیکس سامنے آنے کے بعد سے اب تک حکومت اس بات پر اصرار کر رہی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات ایک ریٹائرڈ جج سے کرائی جائیں۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں یہ تحقیقات چیف جسٹس کی سربراہی میں کروانے کا مطالبہ کر رہی تھیں اور انھوں نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بننے والے کسی بھی کمیشن کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، جبکہ حکومت کو اب اپنا معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس بھیجنا پڑا ہے۔ حکومت پر اپوزیش کی جانب سے بڑھتے ہوئے اس دباؤ کے پس منظر میں پہلے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے تمام شعبوں میں احتساب شروع کرنے اور فوج کی طرف سے اس کی بھرپور حمایت کرنے کی بات کی اور پھربعض اعلی فوجی افسران کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ فوج کے ادارے میں بدعنوانی پر برطرفیوں اور ان کی مقامی میڈیا پر تشہیر ایک غیر معمولی اقدام تھا جس سے تمام اداروں میں بلاامتیاز احتساب کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ میں کئی گنا اضافہ ہو گیا، جس کے بعد حکومت کافی لیت و لعل کے بعد خط لکھنے کو تیار ہوئی ہے اور میاں نوازشریف نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ تحقیقات میں اگر ان کے خلاف ایک بھی الزام ثابت ہوا تو وہ وقت ضائع کیے بغیر گھر چلے جائیں گے اور ن کا مزید کہنا تھا کہ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر جو الزامات لگائے جارہے ہیں، وہ 22 برس پرانے ہیں، جبکہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پاناما لیکس کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں حزب اختلاف کی جماعتیں اس ضمن میں ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے میں سرگرداں ہے اور اس سلسلے میں حزب اختلاف کے رہنماؤں میں اہم ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور سینیٹ میں قائد ایوان اعتزاز احسن نے تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دو مئی کو پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کو اجلاس بلانے پر اتفاق رائے کے علاوہ پاناما لیکس پر تحقیقات کے لیے حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ضابط کار یا ٹی او آرز کو مسترد کر دیا گیا۔ خورشید شاہ احمد شاہ کا کہنا ہے کہ اس بات پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے ،لیکن شروعات وزیراعظم کے خاندان سے ہوں۔ قائد حزب اختلاف اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے درمیان پیر کو ہونے والی ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ 2 مئی کو اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جائے گا اور اس میں ’ون پوائنٹ ایجنڈے پر بات چیت ہو گی جو کہ پاناما لیکس ہے۔ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سمیت دیگر کئی رہنما بھی پاناما لیکس کے حوالے سے حکومت کے خلاف سرگرداں ہیں۔ جبکہ اس سے قبل عمران خان نے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں جلسے کے دوران وزیراعظم کو پاناما لیکس کے معاملے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے ساتھ وہ 26 اپریل سے صوبہ سندھ میں انسداد کرپشن تحریک اور رائے ونڈ میں دھرنے سے قبل وہ اگلے ہفتے اتوار کو لاہور میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل پیش کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ عمران خان حالیہ دنوں میں پاناما لیکس میں شریف خاندان کی مبینہ کرپشن پر متعدد مرتبہ رائے ونڈ میں دھرنا دینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسے کے روز جماعت اسلامی نے بھی لاہور میں کرپشن کے خلاف دھرنا دیا۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ حکمران لوٹی دولت واپس کریں یا اڈیالہ جیل جانے کو تیار ہوجائیں، وزیراعظم نے جو موقف اختیار کیا، وہ ان کی اہلیہ اور بیٹوں سے نہیں ملتا۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے یکم مئی کو پورے ملک میں کرپشن کے خلاف عظیم الشان ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا۔جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی وزیراعظم میاں نواز شریف پرپاناما لیکس کے حوالے سے تنقید کر چکے ہیں اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے پاس استعفیٰ کے سوا کوئی آپشن نہیں، حکمران خود اقتدار سے الگ نہ ہوئے تو عوام ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ان کے علاوہ ملک کی کئی چھوٹی بڑی جماعتیں وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرہی ہیں۔

دوسری جانب چند روز قبل جنرل راحیل شریف کی جانب سے بلاتفریق احتساب کی حمایت اور اس کے بعد اپنے ادارے سے اس پر عملدرآمد کا آغاز کے بعد وزیراعظم نواز شریف پر دباﺅ کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنرل صاحب بھی ملک کی اپوزیشن کی طرح پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں نواز شریف کے خاندان کے احتساب کی حمایت کرتے ہیں۔ موجودہ حالات یہ بتاتے ہیں کہ ناما پیپرز کے افشا نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے بے حد سیاسی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ جب سے انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے، شاید ان پر اتنا بھاری وقت کبھی نہیں آیا۔ اگرچہ اس سے پہلے ماضی میں بھی ان پر کئی بار سخت حالات آتے رہے ہیں، انہیں وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا، ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور ان کو جیل بھی جانا پڑا ہے۔ ان تمام مشکلات سے نواز شریف نکل گئے تھے، لیکن ان ادوار میں نواز شریف کی ساکھ کو خاصا نقصان نہیں پہنچا تھا، ان پر اور ان کے خاندان پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات ضرور لگے، لیکن وہ ان میں سرخرو ہوگئے۔ یہ سارے الزامات مقامی سیاست کے جھگڑے تھے،۔قومی مالیاتی اداروں سے جڑے ہوئے تھے اور قومی عدالتوں سے ہی وہ بری ہو گئے، لیکن پانامہ پیپرز کا پاکستان کی سیاسی چپقلش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی سطح کا اسکینڈل ہے جس میں عالمی سطح پر ہونے والی مالی بدعنوانیوں کو افشا کیا گیا ہے۔ ایسا ان کے ساتھ ماضی میں نہیں ہوا۔ جب وہ پہلی بار اقتدار سے باہر ہوئے ، تب بھی ان کی اپنے حریفوں پر سیاسی برتری قائم رہی اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف پر بھی وہ اخلاقی اعتبار سے بھاری رہے لیکن اب ایسا نہیں رہا خصوصاً قوم سے خطاب کر کے انھوں نے جس طرح اپنے خاندان کی صفائی پیش کی، اس کے بعد ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ پاناما پیپرز میں آنے والے اپنے خاندان کے افراد کے ناموں سے خودکو الگ کر سکیں، اگر وہ قوم سے خطاب نہ کرتے اور اس معاملے پر دو ٹوک موقف لیتے کہ میرا اپنے خاندان کے کاروباری معاملات سے کوئی تعلق نہیں، پاناما پیپرز کا جواب ان سے مانگیں، جن کے نام آئے ہیں تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔ وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہی نہیں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور رہبر بھی ہیں، مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ ان کی ذات کے ساتھ نتھی ہے، اگر ان کی شخصیت پاکستان کی سیاست میں داغدار ہوتی ہے تو مسلم لیگ ن کی سیاست پر بھی اس کا حرف آئے گا۔ ممکن ہے کہ ان کے خلاف عمران خان کا دھرنا یا اپوزیشن کا احتجاج ناکام ہو جائے، لیکن اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں انھیں مسلسل تنقید کا نشانہ بناتی رہیں گی، ہر فورم پر پانامہ لیکس کے بارے میں ان سے سوال ہو گا اور ان کے پاس سوائے یہ کہنے کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ وہ تو کاروبار نہیں کرتے، کاروبار تو ان کی اولاد کرتی ہے، ایسا وہ کتنی دیر تک کہتے رہیں گے، حالات برق رفتاری سے ان کے مخالف کروٹ لے رہے ہیں۔ دباﺅ اندرونی ہی نہیں بیرونی بھی ہے۔ اس کا میاں نواز شریف کو ادراک بھی ہے، ایسے دباﺅ سے نکلنا آسان نہیں ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت پیپلزپارٹی کے تعاون کی محتاج ہے، اگر پی پی نے حکومت کے ساتھ تعاون نہ کیا تو نئے انتخابات ہوسکتے ہیں۔ پی پی نے پہلے تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران حکومت کا ساتھ دیا اور دونوں جماعتیں مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی آئی ہیں، جبکہ اب پی پی تحریک انصاف کا ساتھ دیتی نظرآرہی ہے، بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور پی پی کا اتحاد خود نہیں بن رہا بلکہ بنایا جارہا ہے، جس کا نتیجہ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں نکل سکتا ہے اورحکومت اس بات کو سمجھتی ہے،اسی لیے کافی حدتک پریشان ہے اورحکومت نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اپوزیشن کے مقابلے میں جلسے کرنا بھی شروع کردیے ہیں، جیسا کہ میاں نواز شریف نے کوٹلی میں جلسہ کیا ہے۔ذرایع کے مطابق وزیراعظم مئی کے پہلے ہفتے میں لندن جائیں گے،واپسی پر وہ چاروں صوبوں میں جلسے کریں گے اور عوام کے سامنے اپنی حکومت کی کاکردگی رکھیں گے اور انتخابات کو ترجیح دیں گے، کیونکہ میاں نواز شریف کو اس بات کا گمان ہے کہ عوام دوبارہ ان کو ہی منتخب کرے گی، لیکن مبصرین میاں صاحب کے اس خیال کو مسترد کرتے ہیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی سول بیورو کریسی اور سیاستدان اپنے اپنے شعبوں میں اصلاح کریں۔ اگر ملک میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کر دیا جائے اور سرکاری عہدیدار سیاسی انتقام کے خوف کے بغیر فرائض منصبی ادا کرنے میں آزاد ہوں تو ملک میں الزام تراشی کے کلچر میں بتدریج کمی آ سکتی ہے۔ ملک سے اگر واقعی کرپشن اور بددیانتی کا خاتمہ مطلوب ہے تو موجودہ نظام کو کام کرنے کا موقع دینا ہو گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.