پانامہ لیکس۔ کون جیتا ہے تیری زلف سر ہو نے تک

 وزیر اعظم محمد نواز شرف نے قوم سے خطاب کے دوران قوم کے سامنے اپنی مظلو میت کا رونا رونے کے علاوہ جو اہم اعلان کیا وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پانامہ لیکس کے حوالہ سے تحقیقات کے لئے خط لکھنے کا تھا ۔اب وہ خط عدالتِ عظمیٰ کے رجسٹرار کو مو صول بھی ہو گیا ہے اور ذرائع ابلاغ نے اس خط کا مسودہ بھی حاصل کر لیا ہے۔ خط کے مندرجات کے مطابق تحقیقاتی کمیشن تین ججوں پر مشتمل ہو گا۔اس مجوزہ کمیشن کو جو ٹاسک دیا گیا ہے ، وہ قابلِ توجہ بھی ہے اور قابلِ غور بھی، دراصل اسی خط میں وہ راز چھپا ہے ، جس کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف پسِ پردہ اپنا مقصد حاصل کر نا چا ہتے ہیں۔خط میں لکھا گیا ہے کہ کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستان اور ریجن سے تعلق رکھنے والے افراد یا قانونی اداروں کے پانامہ یا کسی دوسرے ملک میں آف شور کمپنیوں کے معاملہ میں ملوث ہو نے کی تحقیقات کرے گا۔عوامی مناصب پر فائز موجودہ یا سابقہ افراد یا ان کے اہلِ خاندان کی طرف سے سیاسی اثر رسوخ کے ذریعئے بینکوں کے قرضے معاف کرانے ، کرپشن، کمیشن یا کک بیک کے ذریعے حاصل شدہ فنڈز کی تحقیقات کرے گا۔

اگر وزیراعظم کی طرف سے لکھے گئے انہی سطور پر نظر ڈالیں تو ایک بات جو با لکل واضح دکھائی دیتی ہے ،وہ یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے نہ صرف یہ کہ گزشتہ حکمرانوں کے گرد رسہ کسنے کی کو شش کی ہے بلکہ پانامہ لیکس سے متعلق تحقیقات کو اتنی طول دینے کی کو شش کی ہے کہ کمیشن کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہو گا کہ وہ اگلے دو سالوں میں انکو ائری مکمل کر لے۔پانامہ لیکس مین تقریبا دوسو پاکستانی شہریوں کے نام شامل ہیں ، اگر کمیشن بِلا ناغہ ایک فرد کی انکوئری کرنے پر چار دن بھی لگا ئے تو اس طرح آٹھ سو دن درکار ہو نگے ۔یوں نواز شریف کا دورِ اقتدار ختم ہو چکا ہو گا۔علاوہ ازیں کمیشن کو یہ ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے کہ وہ سیاسی اثر رسوخ کے ذر یعےبینکوں سے قرضے معاف کرانے، کرپشن، کمیشن اور کک بیک کے ذریعے حاصل شدہ فنڈز کی تحقیقات بھی کرے۔جس کے لئے کم از کم ایک سال کی مزید مدت کی ضرورت ہو گی۔بناء بر ایں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مو جودہ حکمرانوں کے دورانِ اقتدارمیں نواز شریف کی مقرر کردہ کمیشن انکوائری مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کر سکے۔یوں یہ بات یقینی ہے کہ کمیشن بننے کی صورت میں بھی پانامہ لیکس کا معاملہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے گا۔ہمارے حکمرانوں کا رویہ قومی معاملات میں ساری دنیا سے جدا ہے۔ پانامہ لیکس کی وجہ سے پو ری دنیا میں ہلچل پیدا ہو ئی ،مسائل بھی پیدا ہو ئے مگر انہیں حل کر دیا گیا ۔ بر طانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیا ہیاور اپنے اثاثے پارلیمنٹ میں پیش کر دئیے ہیں ۔اسی طرح روس کے صدر پپو ٹن اور امریکی صدر اوباما نے بھی اپنے تمام اثاثے اپنی قوم کے سامنے ظاہر کر دئیے ہیں۔آئس لینڈ کے وزیراعظم نے تو استعفیٰ بھی دے دیا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ وطنِ عزیز میں اس پر ابھی تک اس پر کام ہی شروع نہیں ہو سکاجو ڈیشنل کمیشن کے دائرہ کار کو دیگر معاملات کے ساتھ جو ڑ کر یہ کو شش کی گئی ہے کہ اس معاملہ کو لٹکا دیا جائے۔وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں جو کچھ کہا، قوم اس سے مطمئن نہیں ہو ئی، انہوں نے قوم سے جو باتیں کیں ،وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی جو نواز شریف کی بی ٹیم سمجھی جاتی تھی، انہوں نے وزیراعظم کے خطاب کے فورا بعد وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطا لبہ کر دیا۔کل اسلام میں عمران خان نے ایک بڑے جلسہ میں میاں نواز شریف سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ دہرایا۔

لا ہور میں جماعتِ اسلامی کے امیر سراج ا لحق نے بھی وزیراعظم سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ کیا، گویا نواز شریف کی پوزیشن روز بروز کمزور ہو تی جا رہی ہے۔نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے پے درپے وار کو رو کنے کے لئے مختلف اضلاع میں جلسے منعقد کرانے کا پروگرام ترتیب دیا ہے مگر اس طرح پانامہ لیکس کا معاملہ ختم نہیں ہو گا ۔ جلسے جلوسوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ مناسب یہ ہو گا کہ وزیر اعظم نواز شریف دنیا کے دیگر ممالک کے سربراہان کی پیروی کرتے ہو ئے اپنے اثاثے پارلیمنٹ میں پیش کر دے یا کم از کم جو ڈیشنل کمیشن کو صرف پا نامہ لیکس سے متعلق ارکانِ پالیمنٹ کے اثاثہ جات کی انکوئری کا معاملہ سپرد کر دے یا اپو زیشن جماعتوں سے ملکر ٹی او آر طے کرکے کمیشن کو ٹاسک سونپ دے تاکہ یہ معاملہ بہ احسنِ تقویم اپنی منطقی انجام کو پہنچ سکے۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285898 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More