حسین شاہ کی کہانی

یہ کہانی صرف حسین شاہ کی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ہر ضلع اور تحصیل میں حسین شاہ جیسے لوگ بستے ہیں بعض لوگ حسین شاہ کی طرح خوش قسمت ہوتے ہیں کہ انہیں کم از کم کوئی راہ تو مل جاتی ہے جبکہ اکثر یت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سسک سسک کر مر جاتے ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ہم ایک ایسے معاشرے اور حکمرانوں کی رعایا میں رہتے ہیں جن کو صرف اپنی مال ومتاع کی فکر ہے۔ہمارے حکمرانوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ اس ملک میں غریب کتنی مشکل اور تکلیف میں زندگی گزار رہاہے۔قابل لوگ مایوس ہورہے ہیں۔ سونے پر سہوگہ یہ کہ جو ادارے ٹوٹے پھوٹے بنے ہیں ان میں سر کاری آفسران نے اپنی بادشاہت قائم کی ہوئی ہے۔ پہلے تو غریب اور پسماند علاقوں سے تعلق رکھنے والے آگے آہی نہیں آ سکتے اگر کسی کو موقع مل گیا تو ان کو بنیادی مرعات اور حق بھی نہیں دیا جاتا ۔یہی وجہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی شعبہ ہو خاص کر سپورٹس اور آرٹس کا ٹیلنٹ ختم ہورہاہے ۔ ٹیلنٹ کے نام پر صرف سفارشی آگے آرہے ہیں۔حسین شاہ کی کہنانی اسلئے یاد آئی کہ ان پر ایک فلم شاہ کے نام سے بنائی گئی ہے جس کو دیکھ کر ملک میں حکمرانوں اور اداروں میں سرکاری آفسروں کے نام پر مافیاز کے بارے میں حقیقت مزید آشکار ہوئی کہ یہ مافیاز کس طرح نئی اور غریب ٹیلنٹ کااستحصال کرتی ہے۔حسین شاہ 1980کی دہائی میں کراچی کے پسماندہ علاقہ لیاری کافٹ پاتھ پر رہنے والا با کسر تھا جس نے ملک کے لیے کئی ایورڈز جیتے اور وطن کا نام روشن کیا لیکن اس کے باوجود ان کی تنخواہ نہ ہونے کے برابر تھی ، ملک کے لیے کھیلنے والوں کا خوراک ،تر بیت اور ٹرنینگ پر کتنی توجہ دی جاتی ہے تاکہ کھلاڑی بہتر پرفارمنس کر سکیں اس کا موازانہ ہم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے پڑوس ملک بھارت سے کرے تو ان کے کھلاڑی مختلف فیلڈز میں پا کستان سے کئی گناہ آگے ہیں جب ہم مزید پسماندگی کی طرف گامزن ہے۔ حسین شاہ کو سرکار کی طرف سے جوتے اور باکسنگ کے دستانے تو نہیں دیے جاتے لیکن پورے دنیا میں ملک کا نام روشن کرنے والے حسین شاہ باکسر کو عالمی سطح اور پا کستان کی حکو مت نے تمغہ امتیاز اور دوسرے تمغے کافی دیے جس کی غربت سے تنگ آکر ہر کھلاڑی بیجنے کی کوشش کرتا ہے لیکن قیمت سو روپے سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ حسین شاہ کو انعام میں پیسے توکچھ نہ ملے لیکن جو رقم 20ہزار روپے اور ایک پلاٹ سرکاری کی طرف سے ملا تھا وہ بھی اس طرح واپس لیا گیا کہ سرکاری آفسر نے ان کو پلاٹ کے کاغذات دینے کے عوض بیس ہزار روپے واپس لیے جبکہ پلاٹ بھی بعد ازاں ان کو نہیں دیا بلکہ وہ سر کار ی دفتروں میں بیٹھے ہمارے ٹیکسوں اور زکواۃسے پلنے والے آفسران نے ہڑپ کر لیا اور اسی طرح حسین شاہ ایک کمرے کے کرایے میں رہنے والا کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ فٹ پاتھ پر آگیا اور پیٹ پالنے کیلئے لیبر کاکام شروع کیا۔ قارئین سوچتے ہوں گے کہ میں نے 30سال پرانی کہانی کیوں سنائی ۔ اس کہنانی کا بنیادی مقصداپنے اداروں ، سرکاری آفسران کی بادشاہت اور حکومتوں کی بے حسی بتانا مقصود تھا۔ حالات آج بھی کچھ خاص مختلف نہیں ہے۔ہماری ہاکی ، فٹ بال ، سکواش اور باکسنگ سمیت کئی کھیل حکومت کی عد م دلچسپی کی وجہ سے زوال پذیر ہوگئے ہیں ،کئی ہنر مند اور ٹیلنٹیڈ لوگ ضائع ہو گئے اور ہور ہے ہیں۔ حکومت نے صرف کرکٹ پر توجہ دے ر کھی ہے اس میں بھی اب صرف سفارشی لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے یعنی کھلاڑی بھی سفارشی اور مینجمنٹ بھی سفارش پر آگئی ہے ۔نون لیگ حکومت نے اب ہر میدان میں زرداری حکومت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب نجم سیٹھی کا کرکٹ سے کیا لینا دینا کہ ان کو کرکٹ حوالے کی گئی ہے۔ ان کو خوش کرنا تھا تو کوئی اور بڑا عہدہ دیتے ۔بحر کیف حکومتوں کی نااہلی اور ملک کا نام روشن کرنے والوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ جب لیاری سے تعلق رکھنے والے حسین شاہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے تو اس وقت قومی کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی سربراہی میں ورلڈ کپ جیت لیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی کرکٹ کے اعزاز میں لاکھوں روپے کے نقد انعامات دینے کے علاوہ کھلاڑیوں کو پلاٹ بھی دیے تھے۔ ان پلاٹوں کا 24سال بعد نون لیگ حکومت نے اس وقت ذکر کیا جب ان کے مقابل میں عمران خان کھڑے ہیں ۔ نون حکومت نے عمران خان پر اپنے احسانات کا ذکر کیا کہ میاں نواز شریف نے ان کو دو پلاٹ دیے ۔ ہم نے سوچ کہ شاید وہ پلاٹ میاں صاحب نے اپنے ذاتی جیب سے دیے ہوں گے لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے سرکاری پلاٹ کھلاڑیوں کو دیے تھے جس میں عمران خان بھی شامل تھا ۔ عمران خان نے میاں صاحب کا ریکارڈ درست کراتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں پلاٹ میں شوکت خانم ہسپتال کو اس وقت دے چکا ہوں جو ریکارڈ پر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا بس چلے تو وہ جس طرح حسین شاہ سے پلاٹ واپس لیا اسی طرح دوسرے کھلاڑیوں سے بھی لیتے ۔ ان کے نزدیک ملک صرف ان کا ہے سرکاری بھی ان کی ہے جن کو چاہے پلاٹ دے یا 24 سال بعد اس کا ذکر کرے کہ ہم نے تم پر احسان کیا تھا۔ احسان تو تم پر اس ملک کے عوام نے کیا ہے کہ جنہوں نے تم کو کرسی پر رہنے کا حق دیا ،احسان تو ان لوگوں اور کھلاڑیوں کا ہے جن کی وجہ سے تم لو گ سرکاری خزانے کو لوٹ رہے ہو اورجن کی وجہ سے پوری دنیا میں جیوے جیوے پا کستان ، یہ وطن پیارا وطن ، اس پر جان بھی قربان ہے وغیر ہ و غیرہ کے نغمے گائے جاتے ہیں اور تم لوگ اس پر غرور کرتے ہو کہ میں اس ملک کا سربراہ ہو لیکن کا ش تم لوگ حقیقی معنوں میں اس ملک سے محبت کرتے اور اپنا تعلق وطن سے اس طرح ظاہر کرتے جس طرح ایک عام آدمی وطن سے محبت کرتا ہے اور اس ملک پر جان قربان کرتا ہے ۔ خدار ملک میں اور عزیر بلوچ یا چھوٹو گینگ پیدا نہ کرو اور حقیقی معنوں میں حقدار کو ان کا حق دو۔ عوام کوبھی حسین شاہ جیسے کرداروں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں باکردار اور مخلص لوگوں کا ساتھ دیں اور کرپٹ لوگو ں کا احتساب کرے اور ان کے خلاف آواز بلند کرے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203591 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More