ترے وعدے پہ جیئے ہم

بدقسمتی سے ہم پر ایسے لیڈران اور حکام مسلط کردیئے گئے ہیں جن کے پاس بنیادی اور ٹھوس کاموں کی ایک لمبی فہرست ہر وقت موجود رہتی ہے جسے وہ عوامی جلسوں اور میٹنگوں میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن عمل میں وہ اس کورے برتن کی طرح ہوتے ہیںجوبس ابھی ابھی کمہار کے ہاتھوں ڈھل کربازار میں آیاہو ۔
گذشتہ دنوں اخبارات میں اس خبر نے خوب جگہ بنائی کہ نریندر مودی کی قیادت میں چل رہی این ڈی اے سرکار نے دوسالوں کے اندرملک کی معیشت اور اقتصادیات کو بڑی حد تک نہ صرف قابو میں کرلیا ہے بلکہ مختلف کاروباری و صنعتی میدانوں میں اچھی خاصی پیش رفت بھی کرلی ہے ۔کس قدر حقیقت سے پرے اورمضحکہ خیز بات ہے ۔کوئی وعدہ ، کوئی اعلان ، کوئی کام اسی وقت مکمل سمجھا جاتا ہے جب وہ عمل کی صورت اختیار کرلے، اور خاص وعام بہ آسانی مستفید ہونے لگیں ۔ بدقسمتی سے ہم پر ایسے لیڈران اور حکام مسلط کردیئے گئے ہیں جن کے پاس بنیادی اور ٹھوس کاموں کی ایک لمبی فہرست ہر وقت موجود رہتی ہے جسے وہ عوامی جلسوں اور میٹنگوں میں پیش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن عمل میں وہ اس کورے برتن کی طرح ہوتے ہیںجوبس ابھی ابھی کمہار کے ہاتھوں ڈھل کربازار میں آیاہو ۔

ہمارے وزیرریلوے سریش پربھو صاحب جن میں پربھووالی کوئی صفت تو ہے نہیں، لیکن ان کے اعلانات زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں جیسے وہ خود کو سریش پربھو نہیں بلکہ پربھو ہی سمجھتے ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پڑوسی ممالک چین ، جاپان اور روس کے علاوہ سعودی عرب ، فرانس ، جرمنی ، برطانیہ جیسے کئی ممالک انڈین ریلوے کو جدید ترقیات اور سہولیات سے آراستہ کرنے کیلئے آگے آئے ہیں اور یہ امید بھی جتائی کہ آنے والے دنوں میں ریلوے کو (تین سو ارب روپئے ) سے زائد ایف ڈی آئی حاصل ہوگا جس سے محکمہ ریلوے نہ صرف یہ کہ خود کفیل ہوجائے گا بلکہ اس کے سبب ملک کی معاشی اور اقتصادی حالت نہایت مستحکم ہوجائے گی ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ پربھو جی غلط کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم کافی سالوں سے ان کے کام اور اس کی رفتاردیکھ رہے ہیں، ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ وہ کوئی بھی اعلان اور کتنا ہی بڑا وعدہ کرلیں اسکی عملی شکل شایدہی ہم دیکھ سکیں کیونکہ عوام برسوں سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں ۔حکومتیںبدلتی ہیں نئے نئے وزراء مسند اقتدار پر متمکن ہوجاتے ہیں اور پھر نئے عزائم کے ساتھ بڑے بڑے پروگراموں اور پروجیکٹوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سابقہ سرکار کے کچھ پرانے کاموں کی نئے سرے سے تجدید کاری بھی کی جاتی ہے اور دوبارہ نئے بجٹ کا اعلان کردیا جاتاہے ۔مثال کے طور پر ریلوے اسٹیشنوںیا ریلوے املاک کا اگر ایک سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو بلا شبہ آپ اس محکمے کو بہت ہی فعال اور متحرک پائیں گےمگریہ سرگرمی محض تعمیرسے متعلق امور میں نظرآئے گی، مثلاً کہیںاچھے خاصے اور مضبوط پلیٹ فارم بدلے جارہے ہیں ، کہیں کارآمد شیڈ ہٹاکے نئے شیڈ تبدیل ہورہے ہیں اور کہیں بالکل درست حالت والے ٹائلس کی جگہ نئے ٹائلس لگائے جارہے ہیں ۔آئے دن نئی نئی تبدیلیاں ریلوےحکام محبوب مشغلہ بن گیا ہے ۔جو بھی بڑا افسر تعینات ہوتا ہے اسے عوامی سہولیات کی فکر تو بس برائے نام ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اس کی تمام تر ترجیحات توڑ پھوڑ اور نئے تعمیری کاموں پر ہوتی ہے ، اس کے لئے بڑے بڑے ٹینڈر پاس کئے جاتے ہیں اور پھر لاکھوں اورکروڑوں کےبجٹ پیش کردیئے جاتے ہیں ۔حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں ایک وزیر کی جگہ دوسرا وزیر آجاتا ہے ، اسی طرح افسران آج یہاں تو کل کہیں اور، اب ایسی صورت میں کون دکھ درد سنے عوام کے ، وہ جائیں چولہے بھاڑ میں۔ہم آج ہیں تو عیش کرلیں، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھالیں ، جی بھر کے مال بٹوریں اور تجوریاں بھرلیں بھلاکل کس نے دیکھا ہے ۔

پربھو جی تین سو ارب کا خواب دیکھ رہے ہیں ،بڑے بڑے اعلانات اور وعدےکررہے ہیں۔ترقیات اور سہولیات کے ڈونگرے برسا رہے ہیں ۔ہم بھی کہتے ہیں کہ وہ یہ سارے خواب دیکھیں اور ضرور دیکھیں ،خواب تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ۔ وہ تو خیر منسٹر ہیں ،جتنے چاہیں خواب دیکھیں اور دکھائیں ۔لیکن برائے مہربانی ان اسٹیشنوں کا بھی تو جائزہ لیں جہاں اس شدید اور جھلسا دینے والی گرمی میںمسافروںپر قیامت ٹوٹ پڑی ہے، وہ لمبی لمبی قطاروں میں ٹکٹ کے انتظار میں پسینے بہا رہے ہیں او ر اگر کسی طرح سے ٹکٹ کا انتظام ہو جاتا ہے تو پھر دوسرا مرحلہ اور بڑی قیامت کا ، ٹرینوں میں تل دھرنےکو جگہ نہیں لوگ جانوروں کی طرح سفر کرنے پر مجبورہیں ، ٹکٹوں کی کالابازاری عروج پرہے ساری ٹکٹیں فل رہتی ہیں ۔بکنگ پر ایک بھی ٹکٹ نہیں نہ جانے کون سے بھوت پریت وہ ساری ٹکٹیں خرید لے جاتے ہیں ، لیکن کہتے ہیں ناکہ پیسوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے ، بس پیسہ پھینکو اور تماشہ دیکھ لو ، ٹکٹیں قدموں پر بکھر جائیں گی ۔پربھو جی ہم ایسی ترقی کو نہیں مانتے جس میں ملک چلانے والے تو عیش کریں ، لیکن ملک بھکاری بن جائےاور عوام بدحال وپریشان ۔ایسے میں غالب کا یہ شعر بہت یاد آرہا ہے ۔
ترے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
 
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 95033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.