پاک بھارت کشیدگی کی تازہ لہر۔۔۔۔۔2

اسلام آباد میں انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس پر بھارت نے شدید ردعمل کا اظہار اسی لئے کیا ہے۔ دہلی حکومت اس طرح کی کانفرنسز پر عدم اعتماد ظاہر کرتی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کشمیر کو انٹرنیشنلائز کیا جا رہا ہے۔ بھارت اس طرح کے اقدامات کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتا ہے۔ اسلام آباد میں کشمیر کانفرنس کا انعقاد میر پو ر یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یا مسٹ نے کیا تھا۔ یہ آزاد کشمیر کی ایک یونیورسٹی ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کے چانسلر اور صدر آزا کشمیر سردار محمد یعقوب خان کی سر پرستی میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان اوران ک ٹیم نے کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے سر توڑ کو شش کی۔ حکومت پاکستان کا تعاون اسے حاصل رہا۔ مقبوضہ کشمیر سے آزادی پسند وں کو بھی اس میں مدعو کیا گیا۔ بھارت نے حریت کانفرنس کی قیادت کو نظر بند کر دیا تھا۔ ظفر اکبر بٹ اور آغا سید حسن الموسوی الصفوی سمیت تقریباً ایک درجن کشمیریوں نے اس پار سے کانفرنس میں شرکت کی۔ سید علی شاہ گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق نے ویڈیو لنک سے خطاب کیا۔پاکستان کی نمائیندگی سینئٹر راجہ ظفر الحق ، وزیر امور کشمیر چوہدری بر جیس طاہر، ڈاکٹرعطیہ عنایت اﷲ ، دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا، اور دیگر نے کی۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب خان کا خطاب بھی اہم تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر عبد الرشید ترابی، مقبوضہ کشمیر سے مدعو حریت رہنما ظفر اکبر بٹ،سکھ رہنما نریندر سنگھ خالصہ ، سینئر کشمیری دانشور اور حریت پسند شیخ تجمل الاسلام ،حریت رہنما غلام محمد صفی، مشعل ملک نے بھی کشمیریوں کی ترجمانی کی۔ حریت قائدشبیر احمد شاہ، ڈاکٹر غلام نبی فائی کے مقالات بھی اس موقع پر پیش کئے گئے۔ مقررین نے مسلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے اور عوام کو حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کیا۔ دنیا کی خاموشی پر احتجاج کیا۔ بھارت کے فوجی قبضہ کو بھارتی حکمرانوں کے وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ جواہر لعل نہرو سمیت دہلی کے حکمرانوں نے کشمیرمیں رائے شماری کے وعدے کئے تھے۔ یہ وعدے کبھی وفا نہ ہوئے۔ اس طرح مسلہ کشمیر حل نہ کرنے کی وجہ سے عوام انسانی اور سماجی مسائل کے بھی شکار ہورہے ہیں۔ سیاسی اور سفارتی ہی نہیں مسلے کا انسانی پہلو بھی ہے۔

کانفرنس نے عالمی برادری کو مسلہ کشمیر کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ کیوں کہ دنیا کا کشمیر کو نظرانداز کرنا بھارت کو خطے میں نسل کشی کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندو پنڈت اور بھارتی فوجیوں کے لئے اسرائیل کی طرز پر بستیاں قائم کرنے کی اس لئے مذمت اور مخالفت کی جاتی ہے کہ یہ دہلی کی کشمیر میں عوام کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ بھارت نے پہلے ہی جموں خطے کی ہندو آبادی کو مسلم عوام کے خلاف جنگ کرنے کے لئے مسلح کیا ہوا ہے۔ بھارتی فوجی ٹریننگ کیمپوں میں ہندو نوجوانوں سمیت خواتین کو بھی اسلحہ کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ یہ سب ویلج ڈیفنس کمیٹیو ں اور سپیشل پولیس افسران کی آڑ میں ہو رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے کھڑی کی جارہی اس غیر سرکاری ملیشیا نے خطے میں قتل عام اور نسل کشی کی کئی وارداتیں کی ہیں۔ سارا الزام یہ آزادی پسندوں پر ڈال دیتے ہیں۔ وند ہامہ قتل عام اور چھٹی سنگھ پورہ میں سکھ برادری کی نسل کشی اس کی مثالیں ہیں۔

اسلام آباد یا دنیا کے کسی بھی فورم پر کشمیر یا بھارتی مظالم اور ریاستی دہشگردی کی بات پر بھارت ایسا ہی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اسلام آباد کانفرنس کی کامیابی کی یہی دلیل ہے کہ بھارت نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جیسے اس کی دکھتی رگ پاؤں تلے آ گئی ہو۔ بھارت کو کشمیر میں رائے شماری کرانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کشمیریوں کو مستقبل کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ اور شفاف موقع ملنا چاہیئے۔ سید علی شاہ گیلانی کی طرف سے کشمیر میں سکارٹ لینڈ کی طرز پر ریفرنڈم کا مطالبہ بھی بروقت ہے۔ لیکن بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ عوامی مطالبات کو مسترد کر دیتا ہے۔ بھارت مسلہ کا فوجی حل اور ریاستی دہشت گردی کا تسلسل چاہتا ہے۔ دہلی اب بھی دنیا کو باور کرا رہی ہے کہ کشمیر انٹرنیشنل مسلہ نہیں بلکہ پاکستا ن اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مسلہ ہے۔ کشمیر کا بھارت سے الحاق بندوق کی نوک پر ہو اہے۔ مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ تک اعتراف کرتی ہے کہ ریاست کا بھارت کے ساتھ کبھی الحاق نہیں ہوا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس حسنین مسعودی اور جسٹس جنک راج کوٹوال پر مشتمل بنچ نے یہ ریمارکس پنے ایک حالیہ فیصلے میں دیئے۔ فارن پالیسی جریدے کی رپورٹ نے عالمی سطح پر بھارت کو بے نقاب کر دیا۔ جب اس نے لکھا کہ بھارت کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

او آئی سی بھی کشمیر پر اپنا اصولی موقف پیش کر رہی ہے۔ اس نے کشمیر پر ایک بار پھر اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے۔ جو پاکستان اور آزاد کشمیر کا دورے کے بعد اپنی رپورٹ تیار کر رہا ہے۔ بھارت اسے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکاری ہے۔ بھارت انسانی کی عالمی تنظیموں کو بھی وادی کا دور کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں ہونا چاہتا۔ وہ کشمیر کو بندوق کی نوک پر قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ عوام پر بدترین مظالم ڈھا رہا ہے۔ اسلام آبادمیں انٹرنیشنل کانفرنس اور پاکستان کی جانب سے مسلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے سے بھارت و سیاسی اور سفارتی طور پر شکست کا احساس ہو تا ہے۔ اس لئے وہ اشتعال انگیزی کا اظہار کرتا ہے۔ مسلہ کشمیر دو طرفہ بات چیت یا مذاکرات کی میز پر حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے دنیا میں جارحانہ سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ دنیامیں موجود پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کمیٹی کو منظم ااور فعال کرنے سے سفارتکاری میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔بھارت کا کشمیر پر دعویٰ ہے۔ وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ پاکستان مسلے کا بنیادی فریق ہے۔اسے بھارتی دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لئے دلیل سے دنیا کو قائل کرنا ہے۔ معذرت خواہانہ پالیسی کا آج تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کشمیر پالیسی پر از سر نو غور کیا جانا زیادہ بہتر آپشن ہو گا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 494982 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More