آشوب زیست

کیاآسیب زدہ رات تھی ۔ نہیں معلوم دُنیا بھر کی وحشتیں کہاں سے اکٹھی ہوکراس رات میں ڈھل گئی تھیں۔ میں خلافِ معمول پیپل کے چھے ہاتھ کو محیط تنے سے پشت لگائے بیٹھا تھا اور نہیں جان سکاتھا، کہ یہ خوف ناک صورت حال اس درخت کے باعث ہے یا میرے کسی کرب کے سبب۔ پرندے جو دن بھراس کی گزوں پھیلی شاخساروں میں چونچالی کیا کرتے تھے، کہیں دُبکے پڑے تھے۔ ہوائیں جو اس کے پتوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کیا کرتی تھیں اورنرم سروں میں انھیں رقص کناں رکھتی تھی، نجانے کہاں ٹھہر گئی تھیں۔ میں نے اپنی گھڑی پر نظرجمائی توشب کے گیارہ بج رہے تھے۔ تب موبائل فون کہاں تھا ؟جواس کے سینے پروقت کی رفتاردیکھی جاتی اوراَب کلائی میں گھڑی کہاں ہوا کرتی ہے۔ اب سوچتا ہوں، تو وہ گھڑی کانشہ بھی ہوا ہوگیا ہے۔ رات کے دونوں ہاتھوں میں اندھیرادھراتھا اور دُور دُورتک کوئی سرسراہٹ نہیں تھی۔ بس ایک گم نام خاموشی تھی، جوپورے ماحول پر طاری تھی۔ کبھی کبھی تویوں بھی محسوس ہوتا تھا، خود میری اپنی نبض رُک گئی ہے اور سانسیں تھم گئی ہیں۔ اپنے ہونے کے احساس کے لیے تیزتیز سانس لیتا اورسینے پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن ڈھونڈتا۔ کون تھی وہ اور نہیں معلوم کس جرم کی پاداش میں اُس کاسرتن سے جدا کرکے پھینک دیاگیا تھا۔تیس بتیس سال اُدھر یہ معمولی سانحہ نہیں تھا۔ شہر کے مردہ خانے میں پڑی اُس کی نعش پہچاننے یا تماشا دیکھنے کے لیے لوگ آتے تھے، لیکن بے سر کے دھڑ کی شناخت کیسے ہو؟ میں بھی کئی گھنٹوں تک وہاں موجودرہا اور جب کوئی نیادیکھنے والااندرجاتامیں اُس کے ساتھ چپکے سے گھس جاتا۔ ہر باروہاں موجود اہل کارکی جھڑکیں سنتااورخاموشی سے تکتارہتا۔سوالی نظروں میں دوسرا سوال یہ تھا،کہ آخراسے کس نے مارا ہوگا؟ وہاں موجود لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کوئی کہتاتھا:'' زانیہ ہوگی، اپنوں نے ماردیاہوگا۔'' کہیں سے آوازآتی :''بھاگ گئی ہوگی کسی کے ساتھ اورپھرمطلب براری کے بعدقتل ہوگئی ہوگی۔''کبھی سنائی دیتا:''کسی مرد کے جرم کانشانہ بنی ہوگی۔ اس کے اپنوں میں سے کسی نے ظلم کیاہوگا، جس کا بدلہ یوں لیاگیا ہے۔'' غرض کہ جتنے منھ اُتنی باتیں۔کچی عمر کے ذہن میں ایسی باتیں کہاں سما سکتی تھیں۔ بس تصورات کاطوفان تھا اورتب تک جتنے چہرے نظروں میں سمائے تھے، سب دھیان میں گھوم گئے۔اُس رات شاید اسی سبب سے میرے اوسان میں بے قراری اوردُکھ تھا۔ اب جو سوچتا ہوں تو جسم میں ایک کپکی سے طاری ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ صحافت کے فعا ل دورانیے میں اس سے سنگین واقعات دیکھ چکا ہوں۔ پھر دہشت گردی کے عفریت نے تووہ منظر سجائے ہیں، کہ روح لرز جاتی ہے، لیکن اُس گم نام اور بے چہرہ جسم کو میں اَب تک نہیں بھول سکا۔

میں نہیں سمجھتا، کہ ایسے واقعات کا تعلق کسی مخصوص قوم، خطے یا نسل سے ہوگا۔ جہاں کہیں بھی انسان موجود ہے، وہاں ایسے واقعات کی رونمائی ممکن ہے۔ مغرب، جسے ہم بہت مہذب، انصاف پسند، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ خیال کرتے ہیں اور ایک زاویے سے ہے بھی، وہاں بھی ایسے واقعات ظاہرہوتے ہیں۔ماضی قریب میں توکئی گروہ ایسے پکڑے گئے ،جو کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعدانھیں بے دردی سے قتل کردیاکرتے تھے۔بعض اطلاعات میں انفرادی طور پرایسے افراد کی نشان دہی ہوئی، جنھوں نے شہوت پرستی کے باب میں انتہا کردی۔ یوں کہنا چاہیے ، کہ اُن کی سیاہ کاریوں سے شیطان بھی پنا ہ مانگتا ہوگا۔حالاں کہ وہاں قوانین موجود ہیں اور سہولتیں بھی۔کوئی منھ کالا کرناچاہے تواُسے تحفظ حاصل ہے۔ باہمی رضا مندی سے و ہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود وحشیانہ عمل ظاہر ہوتا ہے،تواس کا مطلب ہے ،ایسے شخص کی روح کچھ زیادہ ہی شیطان کے زیرِاثر ہے۔مغرب میں توبچوں کے لیے ایسے سخت قوانین ہیں، کہ والدین بھی ان کی شخصی زندگی میں مداخلت نہیں کرسکتے، لیکن شیطان کے پجاری انھی بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناڈالتے ہیں اورقانون نافذ کرنے والوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یاد رہنا چاہیے کہ ستر فی صد سے زائدخواتین اورپچاس فی صد سے زائدبچو ں کے بارے میں ایسے واقعات کے اعداد وشمار جار ی ہوچکے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ امریکا کاہے۔

اطلاعات کے مطابق:''امریکن پولیس نے 51 سالہ لِی کیوپلان کو حراست میں لیا ہے۔پنسلوینیا میں واقع اس شخص کے گھر سے چھے ماہ سے 18سالہ کی عمر کی 11لڑکیاں برآمد ہوئی ہیں۔یہ سب ایمش ہیں ،تاہم عدالتی ریکارڈ سے واضح نہیں ،کہ یہ کہاں سے آئی ہیں۔ایمش ایسے عیسائیوں کو کہتے ہیں ،جو بہت سادگی سے رہتے ہیں۔ اور روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی ،ٹیلی ویژن، کار اور کمپیوٹرکا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔کیوپلان پر دس مختلف جرائم کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔'' یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی جب ایک چودہ سالہ لڑکی کی فروخت کا معاملہ سامنے آیا۔ لڑکی کے والدین نے مالی مدد کے عوض اپنی بیٹی''تحفتاً لِی کیوپلان کو عطا کی۔ یہ لڑکی مذکورہ شخص کے پاس دو بارحاملہ ہوئی۔ لڑکی کے والدین 43 سالہ ڈینیئل اور اس کی 42 سالہ بیوی سیویلا کوبھی گرفتارکرلیاگیا ہے۔ ان پر جنسی جرم سے متعلق سازش کی فردِ جرم عائد کی گئی۔ یہ قانون ہی ہے، کہ جس کے باعث والدین مجرم ٹھہر چکے ہیں، ورنہ ہمارے معاشرے سمیت بھارت، بنگلہ دیش اور عرب ممالک میں بھی والدین مال و منال کے عوض لڑکیوں کے رشتے کردیتے ہیں۔ بس ذرا زاویہ الگ ہے۔ ناروے سے متعلق تو وہ خبر بہت شہرت حاصل کرچکی ہے، جس میں والدین کی سرزنش اورمارپیٹ کے بعدتمام بچوں کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اوراَب والدین کی بجائے ان کی پرورش حکومت کرے گی ۔ اس لیے ،کہ وہاں بچوں کوسزادیناقانوناً جرم ہے۔

لڑکیوں کے رَسیا اس امریکی کے حوالے سے قانون جو بھی کارروائی کرے گا، سو کرے گا، لیکن میں اس بات پرسوچ رہا ہوں، کہ ہمارے یہاں صنفی امتیاز کی بحث میں مذہب کوجو بدنام کیاجاتا ہے، وہ کہاں تک دُرست ہے؟ملا ومکتب کی توہین کاکتنا جواز ہے؟ حالاں کہ پوری دُنیا میں ایسے واقعات ہورہے ہیں اورانھیں کسی مولوی یا مدرسے نے نہیں سکھایا۔ اصل معاملہ یہ ہے، کہ یہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے احسن التقویم کی منزل عطا کی تھی، اسفل السفلین کی گھمن گھیریوںکا اسیر ہوچکا ہے۔ اَب اس کی روحانی طاقت کی کم زوری ہے، کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے مقام تک پہنچ نہیں پارہا۔ایسا نہیں ہے، کہ وہ اس کی کوشش نہیں کرتا، لیکن اس کی کوتاہ ہمتی اورکوتاہ قامتی اس کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس لیے نام نہاد روشن خیال دانش وروں، صحافیوںاوراین جی اوز کے اہل کاروں کواس انسانی المیے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ دیکھنا چاہیے، کہ خرابی کہاں موجود ہے، اس کے بعدکسی پرالزام دھرنا چاہیے۔ سچ کہوں تو امریکا میں رُونما ہونے والے متذکرہ واقعے سے مجھے اتنا ہی دکھ پہنچا ہے، جتناآج سے تیس بتیس سال پہلے اپنے یہاں بے چہرہ لاش دیکھ کر ہوا تھا۔ لیکن سارا قصور مرد پر نہیں دھرا جاسکتا۔اپنے یہاں کوئی خاتون شوہر کے خوف سے خاموش ہوجائے توبات تسلیم بھی کرلی جائے ،لیکن امریکن ماںسیویلانے کیوں اپنی بیٹی فروخت ہونے دی؟

اسلام نے عورت کو سربلند کیا، لیکن اس بات کواکثریت سمجھ نہیں سکی۔انسانوں نے اپنے تئیں آزادیاں دیں، جس کا نتیجہ امریکا، مغرب اوراپنے یہاں بھی واضح ہے۔ جب مخلوط تعلیم اور ملازمتیں ہوں گی تومواقع بھی عام ہوں گے۔رویے بدلیں گے توجرائم بھی بڑھیں گے۔ یہ قصور پورے معاشرے کا ہے، اس لیے الزام بھی سبھی پردھرنا چاہیے۔میں نہیں سمجھتا ،کہ انسان اس آزارسے آسانی کے ساتھ چھٹکارا پالے گا۔ شاید زندگی کے آخر ی لمحے میں بھی کہیں ایسا منظرموجود ہو۔دوسرے لفظوں میں یہ رونا عمر بھر کا ہے۔ہم البتہ چاہیں تو مثبت سمتیں اختیار کرکے خود کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ ہاں! بس ذرا اپنے گردحصار مضبوط کھینچنا ہوگا اور اپنی آنکھوں کو زیادہ کھول کے رکھنا ہوگا۔
Khawar Chaudhary
About the Author: Khawar Chaudhary Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.