اگرچہ یہ بھی آدم و حوا کی نسل ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

This article is about Bakarwal gujjars a neglected community in Pakistan. every word is reflecting a truth and it describes misries of the community.

a bakarwal during their journey from plains of punjab to snowy mountains of northern areas.

 تعارف : جنوبی ایشیاِ ء کے مشہور پہاڑی سلسلے ہمالیہ اور خا ص طور پر ہمالیہ کی شاخ پیر پنجال کے خانہ بدوش قبائل کو بکروال کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور چرواہوں کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بکروال ، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے بھیڑ، بکریاں پالتے ہیں اور یہی انکا حوالہ ہے۔ بکر وال مشہور قبیلے گوجر کی ایک ذیلی شاخ ہیں ( گوجر قبیلہ ایک بین البراعظمی قبیلہ ہے ۔ یہ قبیلہ ہمارے ہاں گوجر، عرب میں جزر، غذر، خزرج یا خزر کہلاتا ہے اور اسکی تقریباَ 3000 ذیلی شاخیں (گوتیں)ہیں۔ ایک روایت کے مطابق گوجر جارجیا سے بر صغیر میں آ ئے تھے۔افغانستان کے قومی ترانے میں لفظ گوجر اس قبیلہ کی شناخت کا عکاس ہے۔عرب میں الجذر خاندان کے افراد کی نشاندہی چند صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے مثلاً دائی حضرت حلیمہ سعدیہؓ ، حضرت اویس قرنیؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ؂۱ ہمارے وطن عزیز کے کئی شہروں کے نام گوجر یا اس کی مختلف گوتوں کے نام پر ہیں مثلاً گوجرانوالہ، گوجرہ، گجرات، گوجر خان، گوجر پورہ، گوجر سنگھ ، کالا گوجراں وغیرہ اور گوتوں کے نام پر گورسیاں، بھملہ، جھنڈا چیچی، کسانہ، جاگل، کھاریاں وغیرہ۔)

جغرافیائی تقسیم : یوں تو بھیڑ بکریاں پالنے والے لوگ شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر خطے اور تقریبا ہر ملک میں بستے ہیں لیکن ہم انسانوں کے جس خاص گروہ کا ذکر کر رہے ہیں ان کی اکثریت انڈیا، پاکستان اور افغانستان کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔ انڈیا میں بکروال جموں وکشمیر کے تینوں مشہور حصوں یعنی جموں، کشمیر اور لداخ میں یہ لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ جموں کے مندرجہ ذیل علاقوں میں بکروال آباد ہیں: ضلع جموںِ کٹھوعہ، ادھم پور، پونچھ، راجوری وغیرہ اسی طرح کشمیر کے علاقوں مثلاً سری نگر، بارہ مولہ، کپواڑہ، پلوامہ، بڈگام اور اننت ناگ میں بکروال بستیاں آباد ہیں، لداخ کے مرکزی علاقہ اور کارگل میں بھی بکروال ملتے ہیں، اسکے علاوہ ہما چل پردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب کے علاقوں میں رہتے ہیں ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تقریبا تمام علاقوں گلگت، ہنزہ، بلتستان اور استور میں انکی آبادیاں ہیں علاوہ ازیں پنجاب کے شمالی حصوں اور خیبر پختونخواہ کے شمالی حصوں بھی بکروال بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

بکروال خانہ بدوش قبائل ہیں اور موسمی تغیر و تبدل کے ساتھ اپنا مسکن بھی تبدیل کرتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ درجہ جرارت سے بھاگتے ہیں اور موسم سرما ملک کے مختلف میدانی علاقوں میں گزار کر گرمیوں میں اکثر دیو سائی ، استور اور دیگر شمالی علاقہ جات کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔ ہر سال مئی ، جون کے مہینے میں ان کے قافلے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سے اپنے ریوڑوں کے ساتھ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور کاغان وغیرہ کی طرف عازم سفر دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح انڈیا کے بکروال سردی کا موسم عام طور پر جموں کے مختلف علاقوں میں گزارتے ہیں اور گرمیوں میں کشمیر کی طرف رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔بکروال بادلوں کی طرح متحرک رہتے ہیں اور اپنی بھیڑ بکریوں کی افزائش کی ضروریات انہیں مستقل ٹھکانہ نہیں بنانے دیتی۔
؂۱ ؂۱ اردو اور گوجری کے لسانی روابط محقق محمد اکرم چوہدری ص 115 (مقالہ پی ایچ ڈی)

بکروالوں کی زندگی کے مختلف پہلو:
اگرچہ بکروال قبائل کی زندگی کے تمام پہلووں پر تبصرہ و آگاہی کافی توجہ طلب ہے لیکن اس مضمون میں ہم ان کی زندگی کے چند گوشوں پر روشنی ڈالیں گے۔ بکر والوں کو کبھی اولاد ِ آدم ہی نہیں سمجھا گیا اور کبھی اربابِ دانش نے انہیں قابل اعتنا ء نہیں سمجھا۔ کسی لکھاری نے ان پر لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ بحر کیف آئیے بکر والوں کی زندگی کو ذرا قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک رنگا رنگ اور منفرد کلچر کے حامل و محافظ:
جدید د نیا کے پڑھے لکھے لوگ صحرا کے کلچر ، پنجاب کے کلچر اور حتی کے جانوروں کی زندگی کے تو مختلف پہلووءں کے دلدادہ نظر آتے ہیں مگر کتنوں نے بکروالوں کی زندگی پر تحقیق کو اپنا موضوع بنایا ہے؟ بکروال متنوع کلچر کے حامل ہیں، لباس سے لیکر رسم و رواج تک یہ لوگ باقی دنیا سے منفرد ہیں۔ خواتین مخصوص لباس اور ٹوپی پہنتی ہیں جبکہ مرد سر منڈواتے ہیں، پگڑی، ڈاڑھی اور ہاتھ کی لاٹھی انکی پہچان ہے، ان سب سے بڑھ کر یہ بات اھمیت کی حامل ہے کہ ان بکروالوں کی بدولت گوجری زبان و ادب آج بھی اپنی پہچان قا ئم رکھے ہوئے ہے۔ گوجری زبان اس سرزمین کی قدیم زبان ہے اور ہماری قومی زبان اردو نے جن زبانوں سے اثر قبول کیا ہے ان میں سر فہرست گوجری زبان ہے اور اس پر کافی تحقیقی کام ہو چکا ہے۔ گوجری زبان اپنے ذخیرہ الفاظ، محاورات اور ضرب الامثال کے لحاظ سے بہت وسعت کی حامل ہے، پنجاب اور دیگر علاقوں کے زمیندار گوجر اپنی مادری زبان کو یا تو ترک کر چکے ہیں یا بھلا بیھٹے ہیں آج گوجری زبان کی بقا ان بکروالوں کی مرہونِ منت ہے

ہر لمحہ سفر :
کہتے ہیں سفر وسیلہِ ظفر ہوتا ہے لیکن جب ہم بکروالوں کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو اس مقولے سے اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے۔ یہ قسمت کے مارے ساری زندگی سفر ہی میں گزار دیتے ہیں لیکن یہ سفر کھبی ان کے لیے آسانی کی منزل نہیں لایا۔ بکر والوں کی نئی و پرانی نسلیں جدید دنیا اور اسکی سہولیات سے ہمیشہ دور ہی رہتی ہیں۔ اپنی مستی میں محو رہتے ہوئے زندگی کا سفر طے کر لینا ان کی تقدیر کا حصہ ہے۔

نا خواندگی :
بکر والوں کا نا خواندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔اگرچہ ان کے بچے بے حد ذہین ہوتے ہیں مگر کسی ایک جگہ مستقل رہائش نہ رکھنے کی وجہ سے یہ بچے ان پڑھ رہ جاتے ہیں۔

توہم پرستی:
جدید دنیا میں توہم پرستی کسی طعنے سے کم نہیں ہے لیکن بکروال آج بھی اسے کسی قیمتی اثاثے کے طور پر سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔ بکروالوں کی اکثریت آج بھی خوش قسمتی اور بد قسمتی کو مختلف نشانیوں ، علامتوں اور اشیا ء سے مر بوط سمجھے ہوئے ہیں۔

جدید دنیا اور اسکے تقاضوں سے بے خبری :
آج دنیا میں جو موضوعات زیرِ بحث ہیں اور جن ایجادات سے بنی نوعِ انسان فیضیاب ہو رہے ہیں بکروالوں کے کیلئے یہ با لکل اجنبی دنیا کے قصے ہیں۔اگر کسی بکروال کو لاہور یا اسلام آباد کے کسی چوراہے پہ نسل نو کے درمیان کھڑا کر دیا جائے تو وہ یقیناًایکدوسرے کو دیکھ کر ششدر رہ جائیں گے۔وہ دنیا سے لا تعلق رہتے ہیں اور دنیا ان سے بے نیاز۔

گلہ بانی کے جدید طریقوں سے عدم آگاہی : گلہ بانی کو اگرچہ دنیا کے کئی ممالک میں ایک منافع بخش معاشی سرگرمی کے طور پر اپنایا جا رہا ہے لیکن بکر وال آج بھی گلہ بانی کے وہی طریقے استعمال کرتے ہیں جو کبھی ان کے آباو اجداد کیا کرتے تھے۔ ٹیلیویژن کی سکرین پر امریکن SHEPHERD یا روسی گلہ بانوں کو دیکھیں اور ان کا موازنہ ان بکر والوں سے کریں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

بکر والوں کی حالت زار کی بہتری کیلئے تجاویز :
یوں تو کسی کی حالت کو بدلنا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن بکروال دورِ جدید کے انسان سے اس قدر دور ہیں کہ حکومت کی طرف سے محض چند اقدا مات ہی ان کی زندگی میں انقلاب لانے کیلئے کافی ہیں۔

معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا :
اگر حکومت ان سادہ لوح انسانوں کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے تھوڑٰ ی سی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو یہ ان لوگوں کیلئے بڑا ہی کارِ خیر ہو گا ویسے بھی یہ حکومت وقت کا فرض ہے کے اپنے شہریوں کی بھلائی کے اقدامات کرے۔ اس گروہِ انسان کو کس قدر نظر انداذ کیا گیا ہے اسکا اندازہ اس با ت سے گایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی ٹیکسٹ بک برائے بی اے کورس کوڈ نمبر 412 معاشرتی و ثقافتی بشریات کے یونٹ نمبر 8 ( پاکستان کے خانہ بدوش) میں 4 خانہ بدوش گروہوں کا ذکر کیا ہے 1)سندھ کے باگڑی (2کوچی یا پاوندے (3چولستانی 4 (او ڈ )صفحہ نمبر (191 معزز مصنفین نے بکروالوں کو خانہ بدوشوں کی فہرست میں ہی نہیں لکھا۔ حالانکہ صرف GOOGLE اور YOUTUBE پر بکروال لکھ کر تلاش کیا جائے تو بکروالوں کی دوران سفر کی بیشمار VIDEOS اور تصا ویر مل جاتی ہیں۔ دنیا میں آجکل جانوروں پر تحقیق کی جا رہی ہے، دوسرے سیاروں پر زندگی کو تلا ش کیا جا رہا ہے خدارا آدم کے ان بیٹوں اور حوا کی ان بیٹیوں کو جانوروں سے کم تر نہ سمجھا جائے اور ان پر بھی تحقیقی کا م کیا جائے، یونیورسٹیوں میں ان پر مقالہ جات لکھوائے جائیں۔ بھارت کے صدر پرنام مکر جی اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے وہاں کے بکر والوں کے وفد سے ملاقات کی اور انکی مشکلات حل کرنے کی یقین دہانی کرائی کیا ہمارے صدر اور وزیر اعظم بکر والوں کو ملاقات کے قابل سمجھیں گے ؟؟

مردم شماری :
بکر والوں کی با قاعدہ مردم شماری ہونی چاہیے اور انکی با قاعدہ رجسٹریشن کا کام جلد از جلدکرنا چاہیے۔ انکو رجسٹریشن کارڈ جا ری کرنے چاہییں اور وہ کارڈ دکھانے پر انہیں مراعات دی جانی چاہییں۔ مثلاً دورانِ ہجرت مختلف محکمہ جات کے اہلکاروں کو پابند کیا جائے کے وہ ان کی رہنمائی اور مدد کر یں۔

بکروالوں کیلئے سکولوں کا قیام :
بکروالوں کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کا احساس یورپ کے کچھ ماہرین تعلیم نے کیا اور ان کے لئے BAKARWAL MOBILE SCHOOLS (BMS)ْ قائم کئے ہیں یہ سکول بکروالوں کے موسمِ گرما اور موسمِ سرما کے قیام کے علاقوں میں کیمپنگ کر کے ان کے بچوں کو پڑھانے کا فریضہ اد ا کرتے ہیں ِ ایسے سفری سکولز انڈین کشمیر میں بھی سرٖگرم ہیں۔ اصل میں یہ کا م ہماری اپنی حکومت کا ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں تعلیم سے محروم طبقہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی حکمتِ عملی طے کرے۔ہمارے پالیسی ساز نرم نرم صوفوں اور ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر تعلیمی فتوحات کی بات تو کرتے ہیں اے کاش یہ لوگ بکروال قبائل کی تعلیم و تربیت کیلئے بھی کچھ سوچیں۔

بھیڑ بکریوں کی افزا ئش کیلئے سہولیات کی فراہمی :
گلہ بانی ایک معاشی سرگرمی ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی رائج ہے ، بکروال چونکہ سال میں دو مرتبہ اپنے مال مویشی کے ہمراہ لمبا سفر طے کرتے ہیں اور دورانِ سفر انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ہمارے اداروں کو چاہیے کہ ان کی مشکلات میں ان کی مدد کریں مثلاً محکمہ جنگلات کے لوگ انہیں ہر جگہ سے بھگاتے نظر آتے ہیں اگر انکا یہی سلوک رہا تو بکروال کہاں جائیں گے؟ انکا تو کوئی اور ذریعہ معاش بھی نہیں ہوتا، نہ زرعی زمینیں نہ سرکاری ملازمت۔ اسکے علاوہ بعض غیر ذمہ دار ٹرانسپورٹرز انکی بھیڑ بکریوں کو کچل جاتے ہیں یہ بکروال قسمت کے مارے لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں بھی تو کس سے۔۔۔؟ اگر حکومت ان کی بھیڑ بکریوں کی ویکسینیشن کا انتظام کر دے اور انکی مناسب سرپرستی کرے تو ہمارا ملک گوشت، اون، چمڑے اور دودھ سے بننے والی پروڈکٹس میں نہ صرف خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ ان کی برآمد کے اعداد و شمارمیں نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جانوروں کی بہت سی انواع دنیا سے نا پید ہو چکی ہیں بکروال بھیڑوں اور بکریوں کی تقریبا تمام اقسام کی پرورش کر کے ان کی نسل کے تسلسل کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔حکومت کو جلد از جلد بکروالوں کی بہبودکے اقدامات شروع کرنے چاہییں۔

صحت کی سہولیات کی فراہمی:
بکروال عموما مہلک و لا علاج امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور عدم آگاہی اور غفلت ہی میں عازم سفرِ عدم ہو جاتے ہیں ۔ دوران سفر اپنے مال مویشی کو راستے میں چھوڑ کر یہ لوگ کسی ہسپتال میں چیک اپ کے لئے جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے دوران سفر حکومت کو چاہیے کہ کم از کم تین مقامات میں ان کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے مثلاً راولپنڈی، مظفر آباد اور کیل کے مقامات میں یہ کیمپ لگائے جائیں جہاں انکے بچوں کو پولیو اور دوسری بیماریوں سے بچاو کے قطرے پلائے جائیں اور بیماروں کو حسب ضرورت ادویات فراہم کی جائیں تو صحت کے ضمن میں یہ ایک بڑی خدمت ہو گی۔

رہائشی سکیم کا اجرا ء :
متحدہ ہندوستان میں بسنے والے تقریبا 100 فیصد بکروال مسلمان تھے اور پاکستان بننے کے بعد وہ ہجرت کر کے مسلم اکثریت کے علاقے یعنی پاکستان میں آ گئے۔ پاکستان میں مہاجرین کو اراضی الاٹ کی گئی لیکن یہ بکروال جس طرح ہجرت کے وقت آئے تھے آج بھی اسی طرح در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں انہیں کسی نے کھبی اس بابت نہ پوچھا۔ وطنِ عزیز کی بے شمار زمینیں بے آباد اور ویران پڑی ہے، اگر حکومت بکروالوں کو یہ بے آباد زمینیں الاٹ کر نے کی کوئی سکیم شروع کرے تو ان کی زندگی بدل سکتی ہے۔ بکروال ملکی معیشت پر بوجھ بھی نہیں ہیں وہ اپنے وسائل خود پیدا کرتے ہیں ۔ اگر آزادی اور ہجرت کے 68سال گزرنے کے بعد بھی بکروالوں کو مستقل آباد ہونے کیلئے زمین نہ دی جا سکی تو پھر شاید زمانے کی ٹھوکریں انہیں کبھی سنبھلنے نہ دیں گی۔

قانونی تحفظ کی فراہمی :
بکروالوں کو دورانِ سفر نہ جانے کتنی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لوگ ان سادہ لوح بکروالوں کو عجیب عجیب حربوں سے لوٹ لیتے ہیں، کوئی اپنے آپ کو قانون کا محافظ بنا کر پیش کرتا ہے تو کوئی محکمہ جنگلات کا نمائندہ۔ ان کو زدوکوب کر کے ان کے مویشی چھین لیے جاتے ہیں لیکن کیا ہمارے تھانے کا عملہ ان کی داد رسی کرتا ہے ؟ حکومت کو چاہیے کہ ان بکروالوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان آرمی کو راشن سپلائی کیلئے اپنے گھوڑے اور خچریں فراہم کرتے ہیں تاکہ بارڈرپہ موجود پاک فوج کو دشوار گزار راستوں سے گزر کر سامانِ ضروریات باہم پہنچائی جا سکیں ۔

جانوروں پہ تحقیق کرنے والے معزز محققین آئیے ان انسانوں پہ کام کریں ، مریخ پر زندگی کی تلاش کرنے والے صاحبان صد احترام کہیں آپ کی اپنی زمین پر کوئی زندگی کی سختیوں کے سامنے زندگی کی بازی ہار نہ جائے۔ اس گروہ انساں کو بہت ہی نظر انداز کیا گیا ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل قلم ان کو منصہ شہود پر لائیں ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے دن عمر اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا ہمارے حکمران بھی ذرا سوچیں کہ وہ ان کی بے یارو مددگار انسانوں کی بابت جواب دہ ہو نگے۔
ہم نے تو دل جلا کر سر عام رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
Muhammad Munir saifi
About the Author: Muhammad Munir saifi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.