نائک کیوں ہوئے کھلنایک

یہی عالم آج ہندوستان نامی عظیم جمہوریت کا ہے چند فرقہ پرستوں نے نفرت کا ایسا بیج بویا جو آج تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے جسکی شاخیں پورے ملک میں پھیل چکی ہیں تعصب و عناد کی تاریکی کا پورے ملک پر بسیرا ہے جسکی زد میں مسلم نوجوان آتے رہے ہیں اور جیل کی کال کوٹھری میں زندگی کا سنہرا دور گنواکر باہر آئے اور زندگی کے گرانقدر لمحات برباد ہوگئے اب یہ سلسلہ اسلامی محقیقین و مبلغین تک آن پہونچا ہے جس کی زد میں آج عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار دینے کے لئے پوری کوشش کی جارہی ہے تمام نیوز چینلس تمام اینکرس تمام اخبارات مکمل طور پر اس کوشش میں لگے ہوئے کہ نائیک کو کھلنائیک ثابت کردیا جائے انکے مشن کو روک دیا جائے انکے پیغام کو پھیلنے نہ دیا جائے انکی ہر کوشش ناکام کردی جائے حافظ سعید سے انکے تعلقات ثابت کرنے کوشش کی جارہی ہے وجہ اتنی حقیر ہے کہ آپ لطیفہ محسوس کرینگے ایک ایسا شخص جسے کروڑوں افراد سنتے دیکھتے پڑھتے ہیں اسے اگر کسی متازعہ شخص نے سن یا اس کا پیج لائک کردیا تو دنیا سارے تنازعات اسکے سر منڈھنے کی کوشش کی جارہی ہے بنگلہ دیش میں حملہ ہوا یقینا یہ حملہ لرزا دینے والا تھا 20افراد کے سر تن سے جدا کردئے گئے حیوانیت کا ننگا ناچ کیا گیا پوری انسانیت تکلیف محسوس کررہی ہے ان قاتلوں میں سے ایک شخص نے مشہور اداکارہ شردھا کپور سے ملاقات کی فیسبوک پر فوٹو شئیر کیا عام طور پر نوجوان خوبصورت اداکاری سے جلوہ بکھیرنے والی دوشیزہ سے ملنے والوں لاکھوں لوگ اسکی ایک ادا پر جان چھڑکنے والوں کی کمی نہیں ہوتی اس طرح ان میں سے ایک شخص نے ذاکر نائیک کے ویڈیو کو شئیر کیا اور ایک شخص ٹویٹر پرانہیں فولو کرتے ہیں یہ وہ جرم ہے جس کی وجہ سے ذاکر نائیک دہشت گرد کہلارہے ہین اور نائیک سے کھلنائیک بن گئے۔
1991 سے تبلیغی سرگرمیوں مصروف ڈاکٹر ذاکرنائیک کا شمار دنیا کے عظیم مبلغین میں ہوتا ہے رفتار زمانہ کے پیدا شدہ سوالات اور اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کا وہ نقلی اور عقلی جواب دیتے ہیں انکا جواب مسکت ہوتا ہے اور سامنے والا انکے دلائل کی تاب نہیں لاپاتا خاموشی میں ہی نجات تصور کرتا ہے دنیا کے بڑے بڑے محقیقن کو انہوں نے سرنگوں کردیا انکا شمار دنیا کےچوٹی کے اسکالرس میں ہوتا ہے تقابل ادیان میں انکو درک اور مہارت حاصل ہے کروڑوں سے زیادہ لوگ انہیں فالو کرتے ہیں شوشل میڈیا پر انکا جلوہ ہے انکے عقیدت مندوں کے فہرست طویل ہے جس میں دنیا بھر کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں انکی خدمات کو سراہتے ہوئے سعودی عرب حکومت نے انہیں عظیم ایوارڈ شاہ فیصل اعزاز سے سرفراز کیا اور انکی کئ کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر شہرت عامہ حاصل کرچکی ہیں انکی ہر تقریر کروڑوں افراد سنتے ہیں انکا ہر بیان یوٹیوب پر موجود ہے جسے ہر کوئ بآسانی سن سکتا ہے دیکھ سکتا ہے اور محسوس کرسکتا ہے انکا پیغام امن کا ہے یا بد امنی کا وہ نفرت کی تعلیم دیتے ہیں یا محبت کی انکا راستہ شر و فساد کا ہے یا عدل و انصاف کا ہر ذی شعور ذی عقل اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے ہاں اگر آنکھوں پر تعصب کا عینک چڑھا ہوا ہو تو کیا کیا جائے اخوت و بھائ چارگی کی دیواریں منہدم ہوگئ تو کیا علاج کیا جا سکتا ہے معدہ اگر خراب ہو تو لذیذ پکوان بھی بے مزہ لگتے ہیں نیت اگر خراب ہو تو محبت میں بھی نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔

یہی عالم آج ہندوستان نامی عظیم جمہوریت کا ہے چند فرقہ پرستوں نے نفرت کا ایسا بیج بویا جو آج تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے جسکی شاخیں پورے ملک میں پھیل چکی ہیں تعصب و عناد کی تاریکی کا پورے ملک پر بسیرا ہے جسکی زد میں مسلم نوجوان آتے رہے ہیں اور جیل کی کال کوٹھری میں زندگی کا سنہرا دور گنواکر باہر آئے اور زندگی کے گرانقدر لمحات برباد ہوگئے اب یہ سلسلہ اسلامی محقیقین و مبلغین تک آن پہونچا ہے جس کی زد میں آج عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار دینے کے لئے پوری کوشش کی جارہی ہے تمام نیوز چینلس تمام اینکرس تمام اخبارات مکمل طور پر اس کوشش میں لگے ہوئے کہ نائیک کو کھلنائیک ثابت کردیا جائے انکے مشن کو روک دیا جائے انکے پیغام کو پھیلنے نہ دیا جائے انکی ہر کوشش ناکام کردی جائے حافظ سعید سے انکے تعلقات ثابت کرنے کوشش کی جارہی ہے وجہ اتنی حقیر ہے کہ آپ لطیفہ محسوس کرینگے ایک ایسا شخص جسے کروڑوں افراد سنتے دیکھتے پڑھتے ہیں اسے اگر کسی متازعہ شخص نے سن یا اس کا پیج لائک کردیا تو دنیا سارے تنازعات اسکے سر منڈھنے کی کوشش کی جارہی ہے بنگلہ دیش میں حملہ ہوا یقینا یہ حملہ لرزا دینے والا تھا 20افراد کے سر تن سے جدا کردئے گئے حیوانیت کا ننگا ناچ کیا گیا پوری انسانیت تکلیف محسوس کررہی ہے ان قاتلوں میں سے ایک شخص نے مشہور اداکارہ شردھا کپور سے ملاقات کی فیسبوک پر فوٹو شئیر کیا عام طور پر نوجوان خوبصورت اداکاری سے جلوہ بکھیرنے والی دوشیزہ سے ملنے والوں لاکھوں لوگ اسکی ایک ادا پر جان چھڑکنے والوں کی کمی نہیں ہوتی اس طرح ان میں سے ایک شخص نے ذاکر نائیک کے ویڈیو کو شئیر کیا اور ایک شخص ٹویٹر پرانہیں فولو کرتے ہیں یہ وہ جرم ہے جس کی وجہ سے ذاکر نائیک دہشت گرد کہلارہے ہین اور نائیک سے کھلنائیک بن گئے۔ امن کی تعلیم عام کرنے والا دہشت گرد بن گیا اور آرایس ایس شیو سینا مطالبہ کررہی ہے کہ پیس چینل بند کردیا جاء- اسی سے متاثر ہو کر لوگ دہشت گرد بنتے ہیں اور زمانے میں فساد کرتے ہیں نائیک کے بیانوں کی جانچ کی جارہی ہے ابھی کوئ ایسی بات سامنے نہیں جو نائیک کو مجرم ثابت کرے مگر میڈیا اور بھگوائیوں کے یہ تیور بتارہے ہیں یہ حملہ کسی ایک فرد پر نہین بلکہ مسلمانوں پر ہے مذہب اسلام پر ہے نائیک کے ہاتھوں پر بہت سے افراد کا اسلام قبول کرنا مقبول ہونا فرقہ پرستوں کے آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے.ورنہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں کو بانٹ رہے ہیں نفرت کا بیج بورہے ہیں تفریق و تشددکی آبیاری کررہے ہیں انکے جملہ ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیتے ان پر کوئ سوال نہیں ہوتا کوئ سزا کوئ جانچ تفتیش کچھ بھی نہیں بلکہ کرسیاں اور عہدے سپرد کئے جاتے ہیں امت شاہ انوپریہ ٹھاکر یوگی اسکی مثال ہیں عیاں ہوتا ہے ہیکہ یہ حملہ مسلمانوں پر ہے صرف نائیک پر نہیں انکے چینل کو بند کرنا مقصد نہیں منشاء قرآن کے پیغام کو عام ہونے سے روکنا ہے یقینا ہم نائیک کی ہر بات سے اتفاق نہیں رکھتے مگر کوئ انکا جرم ثابت تو کرے اور نفرت آمیز تقاریر کرنے والوں پر قدغن کیوں نہیں. ان تمام چیزوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ملت اسلامیہ کی خاموشی سوالات کو جنم دے رہی ہے اور فرقہ پرستوں کے ٹولے خوشی سے جھوم رہے ہیں انکا مقصد پایئہ تکمیل کو پہونچ رہا ہے ایک تیر سے دو شکار ہوئے نائیک کے مشن کو روکنے کی کوشش اور مسلمانوں کے انتشار آپسی چپقلش کا بھی اندازہ ہوگیا اور احساس ہورہا ہے کہ امت مسلمہ نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نا لئے تو تباہی دور نہیں ہے ہولناک مناظر نگاہوں کی ضیافت کے لئے تیار ہیں قلب شکن واردات کو شمار کرنے کے لئے تیار رہئے یا ہوش میں آجائے اتنا یاد رکھیں..! آج جس طرح میڈیا اور حکومت ذاکر نائیک کے تار دھشت گردوں سے جوڑ رہی ہے قوم خاموش تماشائ بنی بیٹھی ہے کہ ہمارے مسلک کا نہیں ہے ایک وقت آئے گا دجالی میڈیا تمہارے ارشد مدنی جلال الدین عمری اور کچھوچھہ شریف کے نگہبان و ہاسبان پر بھی الزامات و اتہامات کی بارش کریں گے اور انہیں بھی دہشت گردی سے جوڑیں گے لہذا وقت ہے اب بھی سدھر جائیں اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو چیلنج کریں کہ وہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے. کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں ...!
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.