جعل ساز اور قانون ساز ادارے، یہ ہے میرا پاکستان۔ ۔ ۔

مسلم لیگ (ن)کے رکن پنجاب اسمبلی طارق محمود باجوہ نے میٹرک سے پانچ سال پہلے ایم اے کرنے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، اُس نے تو ہمیں حیرت زدہ ہی کردیا، کمال ہے بھئی ....یقین نہیں آرہا .... ویسے تو جعلی ڈگریوں کے پنڈورا بکس سے روز نئی نئی کہانیاں سامنے آرہی تھیں، لیکن ایسا محیر العقل کارنامہ کہ 2007 میں میٹرک پاس کرنے والے طارق محمود باجوہ نے 2002 میں ایم اے کرلیا، ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے، حیران ہونے کی بات تو ہے، لیکن بھائی یہ پاکستان ہے، یہاں ہونی کب انہونی میں بدل جائے اور انہونی کب ہونی میں بدل جائے، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جعلی ڈگریوں کے معاملے نے ہمارے پورے تعلیمی نظام کو ہی مشتبہ بنا دیا ہے، روزانہ بڑے بڑے لیڈروں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں کے نام اِس حوالے سے منظرعام پر آرہے ہیں، جس سے مستقبل کی نسل پر اِس جعلسازی کے جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ آگے چل کر بہت تباہ کن ہوں گے، کیا اِس سوال کا جواب کسی کے پاس ہے کہ ِاس سے دنیا میں پاکستانی معاشرے کے بارے میں جو تاثر پیدا ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر ہماری جو تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے، اُسے ہم کس طرح ٹھیک کریں گے اور اِس کے نقصانات کی تلافی کیسے ہوگی؟

یہ درست ہے کہ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ، زیادہ پیسے لے کر جعلی ڈگریاں جاری کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن سب زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں پر اِس صورتحال کی اصلاح کا فریضہ عائد ہوتا ہے وہ خود جعلی ڈگریوں سے اپنا کام چلا رہے ہیں اور وہ اِس کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین عابد شیر علی کے بقول یہ لوگ اِس مسئلہ کے حل کے لئے ہونے والے سارے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور ایسے لوگوں کا تعلق تمام پارٹیوں سے ہے، اَمر واقعہ یہ ہے کہ جعلی ڈگری کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں شروع ہونے والی بحث نے مجموعی طور پر ارکان اسمبلی کی اخلاقی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے، گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کا مجموعی طرز عمل اِس اَمر کا عکاس ہے کہ عوامی غیر مقبولیت کی آنچ نے انہیں تکلیف دینی شروع کردی۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے خلاف اصل شکایت پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو تھی جو آزاد عدلیہ اور آزاد ذرائع ابلاغ کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہی تھی اور خود مسلم لیگ (ن) آزاد عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کی حمایت کر رہی تھی، لیکن پیپلزپارٹی نے ذرائع ابلاغ سے شاکی ہونے کے باوجود میڈیا کے خلاف محاذ نہیں کھولا، یہ کام کیا بھی تو مسلم لیگ (ن) نے،اِس طرح پنجاب اسمبلی نے قانون ساز اداروں میں اُن ”جعلسازوں“ کی موجودگی کی حمایت کی، جن پر خود اپنی اخلاقی ساکھ برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

دنیا میں تعلیم یافتہ، مہذب اور آزاد معاشروں میں یہ روایت ہوتی ہے کہ وہاں پر ہر اُس عمل کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے جو معاشرے، قوم اور ملک کیلئے بدنامی کا سبب ہوں، بالخصوص جمہوری معاشروں میں اِس قسم کے اقدامات کو گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے جس میں جمہوریت کے نام پر حکمران یا سیاستدان ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے جمہوریت کا سر شرم سے جھک جائے، 9جولائی کو پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے خلاف قرارداد ایک ایسے موقع پر پاس کی گئی جب ملک بھر میں سیاستدانوں کی جعلی ڈگریوں کا شور برپا ہے، آئے دن کسی نہ کسی معزز رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کی شرافت سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور سربازار رسوالی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، قابل افسوس بات یہ ہے کہ جمہوریت کی مالا چبنے والے حکمران اور اُن کے ساتھی اراکین اپنے خلاف شائع مواد پر اِس قدر سیخ پا ہوگئے کہ آئینہ دکھانے پر انہیں اتنا غصہ آتا ہے کہ اپنا چہرہ صاف کرنے کی بجائے آئینے کو توڑنے کیلئے سنگ باری پر اتر آتے ہیں، جسے چوری اور پھر سینہ زوری کہتے ہیں۔

درحقیقت ہمارے سیاستدان اِس محاورے کے مصداق بن چکے ہیں اور بجائے اِس کے کہ اُن کی طرف سے ندامت اور شرمندگی کا اظہار سامنے آتا، ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی پر مبنی رویہ سامنے آرہا ہے جو ملک کے لئے کسی طور بھی نیک شگون نہیں ہے، چونکہ اِن لوگوں کا تعلق بااثر خاندانوں سے ہے اور انہیں پاکستان کی رولنگ کلاس سمجھا جاتا ہے اِس لئے یہ خود کو ہر قسم کے احتساب سے مبرا سمجھتے ہیں اور اِس حوالے سے اُن میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ اُن کی ڈگریوں کو کیوں چیک کرایا جارہا ہے، صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ جس کی چوری پکڑی جاتی ہے وہ بجائے نادم اور شرمسار ہونے کے عدلیہ اور صحافیوں پر تنقید کرنے لگتا ہے اور سارے معاملے کو ایک سازش قرار دے ڈالتا ہے۔

یہی وہ رویہ ہے جس کی نشاندہی کرتے ہوئے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ”تم سے پہلے والی امتیں اِس لئے تباہ ہوئیں کہ جب اُن کا کوئی معزز فرد جرم کرتا تھا تو اُس کے جرم سے صرف نظر کرلیا جاتا تھا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تھا تو اُسے سزا دی جاتی تھی۔“درحقیقت من حیث القوم ہم اخلاقی تباہی کے اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں جس کے آگے کنواں اور پیچھے گہری کھائی ہے، غضب خدا کا، ہماری اخلاقی باختگی کا یہ مقام بھی آنا تھا کہ ہم یہ خبر سن رہے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے 23ارکان کی ڈگریوں کو باضابطہ جعلی قرار دے دیا ہے، ابھی مزید ڈگریوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے جس کے بعد خدشہ ہے کہ ایسی ڈگریوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ سکتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ وہ نقشہ بن چکا ہے جس کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا، درحقیقت ہم ایک بڑی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جس انارکی کی جانب اہل علم اشارہ کر رہے تھے وہ وقوع پذیر ہوچکی ہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ اِسے دیکھنے کے لئے دیدہ بینا چاہیے، اِس وقت نیچے سے لے کر اوپر تک ہر شخص من مانی کر رہا ہے، ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے، اِس صوت حال پر جب میڈیا چیخ و پکار کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے، عدالتیں فعالیت کا مظاہرہ کرتی ہیں تو اُن کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جج، جرنیل اور جرنلسٹس تو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ سیاستدان بھی اپنی اُن ذمہ داریوں کو ادائیگی پر توجہ دیں جو قوم نے انہیں ووٹ دے کر سونپی ہے ۔

قارئین محترم ہمارا ماننا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سیاستدانوں کے اپنے کرموں کا پھل ہے، یہ وہ کھلواڑ ہے جو وہ اپنے ملک کے ساتھ گزشتہ 63 برسوں سے کر رہے ہیں اور جسے اب کوئی بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا، یہ سارا منظر نامہ اب اِس حد تک ناقابل برداشت ہوچکا ہے کہ ایک عام آدمی بھی اِس سے شدید کوفت اور بیزاری محسوس کر رہا ہے، واضح رہے کہ یہی میڈیا اُس وقت سیاستدانوں کو بہت بھلا لگتا تھا جب وہ مشرف حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہا تھا، اب چونکہ یہ لوگ خود حکومت میں ہیں اور جعلی ڈگریوں سمیت کئی طرح کے سیکنڈل سامنے آرہے ہیں، اِس لئے جو لوگ اِس سے متاثر ہو رہے ہیں، اُن کی خواہش ہے کہ میڈیا ایسے معاملات کو نہ اچھالے۔

سچائی یہ ہے کہ لوگ اپنے کردار پر غور نہیں کرتے، جن لوگوں کے خلاف ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے جعلی ڈگریاں بنوا کر الیکشن لڑا وہ اِس پر اظہار ندامت کرنے کے بجائے ڈھٹائی سے اپنے اِس عمل کا دفاع کرتے ہیں، کچھ کو عدلیہ سے شکایت ہے تو کچھ کو میڈیا سے،لیکن کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کو تیار نہیں ہے، بالعموم پورے معاشرے کا چلن یہی ہے، لوگ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہی نہیں، ندامت کا اظہار تو بہت دور کی بات ہے، حالیہ مہینوں میں سیاستدانوں کے حوالے سے کیسے کیسے راز افشا نہیں ہوئے، بڑے بڑے نیک نام لوگوں کے سیکنڈل سامنے آئے لیکن بجائے یہ تسلیم کرنے کے کہ اُن سے غلطی سرزد ہوئی، وہ یا تو عدلیہ کو برا بھلا کہتے ہیں یا پھر صحافیوں پر دشنام طرازی شروع کر دیتے ہیں، اِس تناظر میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے اور خود احتسابی کی ضرورت نہیں محسوس کرتے، یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو آج ہمارے اخلاقی زوال اور معاشرتی انحطاط کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 316720 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More