رجب طیب اردوغان اور ہمارے حکمران

رجب طیب اردوغان مسلم امہ کی ایک نئی قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔2008میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردوغان کے زیر قیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ ترکی کایہ احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈایووس عالمی اقتصادی فورم میں رجب طیب اردوغان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیر یز کے ساتھ دو ٹوک اور بر ملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کی جانب سے انہیں وقت نہ دئے جانے پر رجب طیب اردوغان نے فورم کے اجلاس سے بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے ۔ترکی میں ہونے والی بغاوت سے قبل ہی رجب طیب اردوغان عرب اور عالم اسلام کے ہیرو بن چکے تھے ۔ بغاوت کرنے والے رجب طیب اردوغان کے اسلامی نظریات سے خوف زدہ تھے ۔اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا شخص عرب کا ہی نہیں بلکہ اسلام کے اس سپوت کو ’ مسلم قائد منتظر ‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ اور وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا۔برما کے مسلمانوں کو درپیش مسائل ہوں ، یا مہاجرین شام کا مسئلہ ، رجب طیب اردوغان نے کسی بھی معاملے میں لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خلافت عثمانیہ کے بعد رجب طیب اردوغان نے مسلمانوں میں اپنی طاقت کو محسوس کرایا۔ مسلمان ایک ایسے مسلم قائدمنتظر تھے کہ اگر ایک ایسی قیادت مسلم امہ کو میسر آجائے ، جس سے عوام پیار کرتی ہے اور اپنا سب کچھ لٹانے کیلئے تیار ہوسکتی ہے تو یہ احساس رجب طیب اردوغان دلایا۔ا پنی ترک عوام کی جانب سے عالمی استعمار کی جانب سے رچائی گئی بغاوت کی سازش کو کچلنے کیلئے عوام کو جس طرح سڑکوں پر لائے، اس پر تمام دنیا ششدر رہ گئی ۔ پاکستان میں سیاست دانوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی بیانات کے بھنڈار کھول دیئے ۔ لیکن کیا ہمارے سیاست دان اس قابل ہیں کہ وہ کسی مارشل لاء کو روکنے کیلئے عوام کے دلوں میں اس قدر اثر رکھتے ہوں کہ وہ مارشل لا کے خلاف فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں ۔ یقیناََ ہمارے سیاست دانوں میں اتنی قابلیت نہیں ہے۔ہمارے سیاست دانوں کے جلسے ، ڈی جے میوزیکل شوز ، الزام تراشیاں ، امریکہ، برطانیہ کی بوٹ پالش ، لسانیت ، تعصب اور قوم پرستی سے لبریز ہوتے ہیں ۔کیا سوشل میڈیا میں کسی نے رجب طیب اردوغان کی قرآن پاک کی تلاوت اورر محسور کن آواز کو نہیں سنا ، کیا دنیابھر کے مسلمان سمیت پاکستان کے وزیر اعظم یا صدر قرآن پاک کی اس طرح تلاوت کرسکتے ہیں ، ہمارے حکمرانوں سے تو سورۃ اخلاص تک نہیں پڑھی جاتی ، اورآیات بھول جاتیہیں ، بلکہ یہ کہتے ہوئے بھی شرماتے نہیں کہ انھیں غلط لکھ کر دی گئی تھی۔کیا ہمارے حکمرانوں نے مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ کیلئے کوششیں کیں ،انھیں تو اپنے خزانے بھرنے سے فرصت نہیں ، انھیں تو اپنے جرائم چھپانے کے لئے ججوں کے بچوں کو اغوا کرکے دباؤ بڑھانے سے وقت نہیں مل پاتا۔ہمارے حکمران ایک جانب اسلام اور پاکستان کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب اسلام دشمنوں کو اپنے گلے لگاتے ہیں۔ انھیں کرپشن کے اعلی ریکارڈز قائم کرنے سے فراغت نہیں مل رہی ۔انھیں اقربا پروری اور فوج کا مورال گرانے کے لئے متنازعہ بیانات دینے اور خود کو رجب طیب اردوغان سمجھنے کا خبط لاحق ہوچکا ہے۔ جہاں منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پرچڑھنے جا رہا ہو ، وہاں سیاست کے نام پرخوشی کے بھنگڑے ڈالے جاتے ہوں ، تو آج کس منہ سے کہا جا رہا ہے کہ جمہوریت کے خلاف اگر پاکستان میں کسی نے مارشل لا ء لگانے کی کوشش تو پاکستانی عوام بھی سڑکوں پر آکر ٹینکوں کے آگے لیٹ جائے گی ۔گستاخی معاف ، صرف اتنا بتا دیجئے کہ کس پارٹی نے پاکستانی عوام کو دیا ہی کیا ہے ۔ اربوں کھربوں ڈالرز کے قرضے ، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ایک سرکاری ٹیچنگ میڈیکل کالج تک قائم نہیں کرسکے ،اور بات کرتے ہیں کہ رجب طیب اردوغان کے ملک ترکی کے ساتھ کھڑے ہونگے۔جس کو دیکھو ، سیاسی بیانات دیکر ثابت کرنے کیلئے خود کورجب طیب اردوغان ثابت کرنے کے قلابے مارنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جا رہا ہے۔ پاکستان کے سیاست دان فوج کے اقتدار سنبھالنے پر جدوجہد نہیں کرتے ، بلکہ عوام کو نکلنے کا کہہ کر خود باہر ملک نکل جاتے ہیں۔ نا اہل حکمرانوں سے جنھیں عدلیہ نے بھی کہہ دیا کہ حکومت چل کس طرح رہ ہے ، نا اہل ثابت کردیا ہے ، بے روزگاری ، بد امنی ، شدت پسندی روکنے میں ناکامی پر عوام پاک فوج کی جانب دیکھ رہے ہیں ، کہ کسی طرح ان کرپٹ لوگوں سے نجات دلائیں ، جن کے گھروں سے اتنے نوٹوں کے بریف کیس نکلتے ہیں کہ انھیں گنتے گنتے ، الیکڑونک مشینیں ہی خراب ہوجاتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کا اتنا زر مبادلہ پاکستان سے باہر رکھا ہواہے کہ اگر وہ صرف پاکستان لے آئیں تو پاکستان میں معاشی انقلاب آنے میں ایک منٹ نہیں لگے گا۔ جب ملک کے حکمرانوں کی اولادیں ، خود پاکستان میں کاروبار نہیں کرتیں ، اپنا سرمایہ لگانے سے ڈرتی ہیں تو کوئی اور کیوں پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔پاکستان کے حکمران کیا ترکی جیسی صورتحال پر پاکستان واپس آتے؟؟ ۔یقیناََنہیں ،بلکہ پاکستان میں سیاسی بحران اور کرپشن کے خلاف اداروں کی کاروائیوں پر ہی ملک سے فرار ہوجاتے ہیں۔خود ساختہ جلا وطن بن جاتے ہیں ۔رجب طیب اردوغان ملک سے باہر تھے ، ہمارے بعض اینکرز پرسنز ترکی میں ہونے والی بغاوت پر خوشی منا رہے تھے ، رجب طیب اردوغان کو مسلم اور سیکولر ازم کے درمیان معرکے میں رجب طیب اردوغان کی شکست کو اپنی فتح سمجھ رہے تھے ۔ لیکن رجب طیب اردوغان ترکی میں فوراََ واپس آئے ، دوبئی ، لندن ، امریکہ میں جاکر مظلوم نہیں بنے ، بلکہ جرات کے ساتھ عوام سے کہا کہ وہ نکلیں ، لیکن پہلے خود عمل کیا ، عوام کے دلوں میں بیٹھے ہوئے رجب طیب اردوغان کی ایک آواز پر لوگ اس طرح نکلے کہ تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ ، مقامی پولیس فوج کو گرفتار کر رہی ہے۔پاکستان فوج کا سیاست دانوں سے موازنہ کرنا ،زمینی حقائق کے خلاف ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ آمریت مسلط ہوئی ، لیکن جمہوری آمریت نے سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچایا، پاکستان میں جمہوریت آئی ہی نہیں ، بلکہ بلکہ وردی میں تو کبھی بغیر وردی پاکستانی عوام پر آمریت مسلط رہی ہے۔رجب طیب اردوغان کو ترکی میں الجھا دیا گیا ۔ کیونکہ وہ مسلم امہ کی امیدوں کا مرکز بن کر ابھر چکے تھے ۔ امریکہ و اسرائیل نہیں چاہتے تھے کہ ترکی خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کا استعارہ بن کر ان سے ماضی کی طرح خراج وصول کرے۔ترکی مخالف قوتوں نے ترکی میں بد امنی پیدا کرنے کیلئے دھماکے کرانے کا سلسلہ شروع کیا ، پھر کردوں کی جانب سے ترکی کو خانہ جنگی میں الجھانے کی کوشش کی ، لیکن رجب طیب اردوغان نے ہر کوشش کو ناکام بنانے کے فہم و بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔امریکہ ، ترکی سے خوف زدہ تھا اور ہے ۔اس لئے اس نے ترکی کے باغی لیڈر کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے۔ترکی کے حوالے نہیں کیا جارہا ۔ ترکی بغاوت کچلنے میں الجھ گیا ہے، جب تک امریکہ و اسرائیل ایک اور نئی سازش تیار کرکے ترکی کو اپنے ملکی مسائل سے باہر ہی نکلنے نہیں دیں گے ۔ امریکہ و اسرائیل کی اس لحاظ سے فتح ہوئی ہے کہ اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو بھی ان کے ان کے مفادات کامیاب ہوتے ، مصر کی طرح اخوان المسلمین کی قیادت کے ساتھ دوسرے اور تیسرے درجے کے تمام قیادت کو پھانسی پر چڑھا دیتے۔بغاوت ناکامی پر امریکہ و اسرائیل کی فتح ہوئی کہ اب ترکی بغاوت کو کچلنے اور ملک میں خانہ جنگی اور انار کی، کو ختم کرنے میں مصروف ہوگا ۔اسے مسلم امہ کے مسائل کے حل کیلئے دوبارہ اپنی قوت یکجا کرنے کیلئے وقت کی ضرورت ہے اور یہی وقت حاصل کرنا امریکہ و اسرائیل کی فتح ہے۔لیکن یہ ترکی مخالف ممالک کی غلط فہمی ہے۔جس طرح پاکستان کے حکمرانوں و سیاست دانوں۔رجب طیب اردوغان بننے کیلئے انھیں پہلے رجب طیب اردوغان بننا ہوگا۔قول و فعل کے تضاد کو ختم کرنا ہوگا ۔ عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کیلئے پہلے خود کو عوام کا رہنما ثابت کرنا ہوگا۔رجب طیب اردوغان بننا آسان کام نہیں ہے ۔ اﷲ تعالی کی دی ہوئی رسی ( کتاب اﷲ ) کو مضبوطی سے تھام لیں ۔فقط رب کائنات سے ڈریں اور قرآن کریم کو اپنا ضابطہ حیات بنا لیں ۔رجب طیب اردوغان بن جائیں گے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662508 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.