ناجائز قبضہ چھڑانے کی مہم صرف غریب اور مسلم مخالف ہی کیوں....؟

22فروری کو ضلع سانبہ کے سرور علاقہ میں پولیس اور جموں ڈولپمنٹ اتھارٹی نے ناجائز تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران مسلم بستی میں درجنوں کلہوں(کچے مکانات)کوہی ن ہ صرف ملیہ میٹ کیا بلکہ وہاں کے مکینوں جس میں بچوں سے لیکر 90سال تک کے بزرگ شامل تھے، پر پولیس نے اندھادھند لاٹھی چارج کیا۔ ایک طرف جے سی بی مشینوں کے ذریعہ کلہوں (کچے مکانات)کو منہدم کیاگیاتو دوسری اور پولیس جھونپڑیوں کو آگ لگانے، لوگوں کی مارپیٹ اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف نظر آئی۔1947میں تقسیم برصغیر ہند کے وقت جب صوبہ جموں میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوتھا،کی جھلک سروڑ مسلم بستی میں دیکھنے کو ملی، جہاں پولیس نے بچوں، خواتین، عمر رسیدہ افراد اور بچیوں وغیرہ کسی میں فرق نہ کیا اور ان پر اندھادھند ڈنڈے برسائے، ہر کوئی یہاں اپنی جان بچانے کے لئے بھاگتا نظر آیا جبکہ پیچھے ان کے مال وزرکی لوٹ کھسوٹ اور گھر میں موجود تمام قیمتی سازوسامان کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں، سانبہ و صوبہ کے دیگر اضلاع اور علاقہ جات میں ہزاروں کنال سرکاری/ جنگلات / وقف/ کسٹوڈین اراضی پر غیر قانونی قبضہ کیاگیا ہے ، قابضین میں سرکردہ سیاسی رہنما، سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے لوگ، بیورکریٹ، نوکر شاہ ، ملازمین، بڑے بڑے تجاوروں اور سیاسی پشت پناہی والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن ان کے خلاف پولیس اور جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی یادیگر کوئی سرکاری ایجنسیاں ہمت نہیںجٹا پاتیں ۔ افسو س کامقام یہ ہے کہ سرکاری قوانین کا اطلاق ودیگر کارروائیاں غریب، بے سہارا اور سادہ لوح عوام سے کیاجاتا ہے کیونکہ ان پر سرکاری روعب جمانا، ظلم وستم کرنا سرکاری ایجنسیوں کے لئے آسان ہوتا ہے ، جب وہ کارروائی کرلیتے ہیں تو انہیں اتنا ڈر نہیں رہتا۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اثر رسوخ رکھنے والے لوگوں نے بیشترمقامات پرمحض چند برس قابض ہونے کے بعد اپنے غیر قانونی قبضہ کو قانونی شکل دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ اس کے برعکس غریب کنبے جوکہ تین۔ چاردہائیوں کے زائد عرصہ سے ایسی اراضیوں پر قابض ہیں، مگر انہوں نے ایسا کیا نہیں ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ صوبہ جموں کے اندر سرکاری /جنگلات اراضی سے غیر قانونی قبضہ ہٹانے کی مہم ہمیشہ مخصوص طبقہ اور مخصوص علاقوں میں ہی شروع کی گئی جس سے سرکار کی نیت پر شک ہونے یا کرنے کی ٹھوس جوازیت بنتی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ریاست جموں وکشمیر بالخصوص صوبہ جموں کے اندر سرکاری /جنگلات اراضی پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں میں ہندو، مسلم، سکھ مذاہب اور مختلف ذات، نسل وزندگی کے مختلف مکتب ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کی جانی چاہئے اور نہ ہی ان کو بخشا جانا چاہئے لیکن صرف مسلمانوں کے خلاف اورغریب وبے سہارا افراد کے خلاف کارروائی کیاجانا افسوس ناک ہے ۔ آخرقانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ مخصوص طبقہ جات اور مخصوص علاقوں میں یہ کارروائیاں کیونکر کرتے ہیں، کس ضابطہ کے تحت کرتے ہیں، کن کے اشاروں پر کرتے ہیں، کس مشن کے تحت کرتے ہیں اور کس ارادہ سے کرتے ہیں۔ سانبہ کے سرور علاقہ میں مسلم آبادی کے خلاف جس طرح کا ظلم وستم کیاگیا ، انسانیت پربربریت ہے۔ان غریب لوگوں نے اپنے خون پیسنے ، سخت محنت اور بھوک پیاس برداشت کرکے اپنے آشیانے بنائے تھے، جن میں ضروریات زندگی کا سازوسامان دستیاب رکھا تھا جس کو جے ڈی اے ناجائز تجاوزات مخالف مہم کا نام دیکر اُجاڑ دیاگیا۔ ان آشیانوں کے ہرپتھر، اینٹ، مٹی وغیرہ سے ان لوگوں کے جذبات واحساسات جڑے تھے۔اب انہیں دوبارہ سے یہ آشیانے قائم کرنے میں کئی برس لگ جائیں گے۔گورنرانتظامیہ کو چاہئے کہ وہ سرکاری/جنگلات اراضی سے ناجائز قبضہ ہٹانے کی مہم کیلئے پالیسی وضع کریں جوکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو، یکسانیت اور انصاف پرمبنی ہو۔سانبہ، کٹھوعہ اور جموں ضلع کے بعض علاقوں میں1947سے لیکر آج تک کئی بار اسی نوعیت کی نام نہاد ناجائز تجاوزات مخالف مہم کی آڑ میں مسلمانوں کے چمن کو ویران کیاگیاہے، اس عمل پر روک لگائی جانی چاہئے۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 11 Articles with 5800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.