کراچی کا بے اختیار میئر۔حالت کیسے بہتر ہوگی

عہدہ خواہ کوئی بھی ہو اگر کچھ کرنے کا اختیار نہ ہو تو بڑے سے بڑا عہدہ بے معنی اور بے کار ہوکر رہ جاتا ہے۔اکثر سرکاری دفاتر میں کسی افسر کو سزا دینا مقصود ہوتی ہے تو اسے او ایس ڈی(OSD)یعنی آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی کا عہدہ دے دیا جاتا ہے جہاں پر وہ حاضری کا تو پابندتا ہے لیکن اس کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا، اس کے پاس اختیارات بھی نہیں ہوتے۔ ایسی صورت حال میں وہ افسر اپنے ادارے پر بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔بعض صورتوں میں سرکاری افسر کو (Suspend)کردیا جاتا ہے۔ یعنی کسی غلطی پر اپنے عہدے سے برخاست کردیا جاتا ہے ۔ جیسے حال ہی میں ایس ایس پی ملیر راؤ انور کو ان کے عہدے سے برخاست کیاگیا تھا۔ ایسی صورمیں وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہے لیکن انہیں تمام تر مالی فوائد حاصل رہے یعنی تنخواہ ملتی رہتی ہے، البتہ اختیارات نہ ہونے کے باعث متعلقہ افسر بیکار اور بے بس ہوکر رہ جاتا ہے۔

کراچی جو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ آبادی کے اعتبار سے، شہریوں کے معیار زندگی اور تعلیم کے اعتبار سے گویا شرح خواندگی کے اعتبار سے یہ شہرمختلف اور خاص خصوصیات لیے ہوئے ہے۔یہاں مختلف قومیں بستی ہیں جس کے باعث اسے منی پاکستان کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ کونسی زبان بولنے والا یہاں کا باسی نہیں، کون سے مذہب کا پیروکار یہاں نہیں رہتا، عقائد کے اعتبار سے ، نظریات کے اعتبار سے یہ شہر اپنی الگ ہی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس شہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ پاکستان کوسب سے زیادہ پیشہ کما کر بھی دیتا ہے ، اس شہر کی ایک خصوصیت اور خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ غریب پرور شہر ہے، یہاں کوئی آجائے یہ شہر اسے اپنی پناہ میں لے لیتا ہے، وہ یہاں بھوکا نہیں مرتا، کراچی شہر سے کوئی ایسی خبر آج تک نہیں سنی گئی کہ کو ئی بھوک کی وجہ سے اپنے جان دھو بیٹھا ہو۔اس وقت اس شہر میں بے شمار فلاحی اداروں کی جانب اور بے شمار ہوٹلوں کی جانب غریبوں اور بے سہارا لوگوں کو تین وقت مفت کھانا کھلانے کا اہتمام ہے۔ ہوٹل یہ خدمت اپنی جانب سے نہیں کرتے بلکے ان ہوٹلوں نے کھانے کی فی کس رقم مختص کی ہوئی ہے لوگ جتنے لوگوں کو کھانا کھلانا چاہتے ہیں رقم ہوٹل میں جمع کرادیتے ہیں، مثلاً گلشن اقبال کے ایک ہوٹل جو جعفری چشمے والے کے سامنے ہے فی کس کھانے کی رقم 25 روپے اور ناشتہ فی کس 40 روپے ہے ۔ رقم دے کر آپ اپنی موجودگی میں غریبوں کو کھانا کھلا سکتے ہیں۔ بے شمار غریب اور بے سہارا ہوٹل کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ ایک اور خصوصیت شہر کراچی کی ایسی بھی ہے جس کا ذکر لازمی ہے وہ یہ کہ اس شہر کی سیاسی تاریخ یہ رہی ہے کہ یہ سیاسی اعتبار سے پورے ملک کے مقابلے میں مخالف سمت چلتا ہے۔اس بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کے لوگ حکومت مخالف ذہن رکھتے ہیں۔ ایم کیوں ایم کی حمایت کوبھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملک کی حکمراں جماعتوں مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ تھا۔ ایم کیو ایم سے پہلے کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں جب پورے ملک میں جئے بھٹو کی صدائیں گونج رہیں تھیں لیکن اس شہر کی ہوا مخالف سمت چل رہی تھی۔ نو ستاروں کی دھوم اور اس تحریک کو کراچی میں سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔ بھٹو صاحب سے پہلے بھی یہاں کی سیاسی فضاء کسی ایک جماعت کے حق میں کبھی نہیں رہی۔ البتہ یہاں کا میئر دو مرتبہ جماعت اسلامی کا منتخب ہوتا رہا ہے۔ اس کے بھی سیاسی عوامل تھے۔ اب عرصہ ہوا اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں مسائل کا انمبار لگ چکا ہے ، اس کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں، کوئی سڑک ایسی نہیں جس کے کنارے کوڑے کرکٹ کے انمبار نہ لگے ہوں۔ ٹریفک کا نظام انتہائی خراب حالت اختیار کرچکا ہے۔ بلدیاتی نظام کی بحالی کے بعد امید ہوچلی تھی کہ اب اس شہر کی حالت کچھ بہتر ہوجائے گی لیکن تمام تر امیدیدیں تاحال دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ کہنے کو یہاں سے قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز بھی منتخب شدہ ہیں۔عدالت اعظمیٰ کے ڈنڈے کے زور پربلدیاتی نظام بھی بحال ہوگیا ہے۔ سال سے ذیادہ ہوگیا، کونسلر ، ڈپٹی چیرٔ مین ، میئر اور ڈپٹی میئر بھی منتخب ہوچکے ۔ انہیں ان کے دفتروں میں بٹھابھی دیا گیا لیکن تمام عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں ۔ اس لیے کہ ان کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں، کوئی اختیار نہیں ، کوئی بجٹ نہیں آخر کریں تو کیا کریں؟ یہ اقتدار بھی بڑی ظالم شہ ہے، اس ظالم نے تو باپ کے ہاتھوں بیٹے کو ، بیٹے کے ہاتھوں باپ کو ، بھائی کے ہاتھوں بھائی کو، شوہر کے ہاتھوں بیوی کو جیل میں ڈلوایا، اذیتیں دیں، حتی کے جان سے مارنے میں بھی تعامل نہ کیا۔ اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے ظلم کے اتنے پہاڑ توڑے کے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین ، سینیٹرز کو اپنے اپنے علاقوں میں چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں، وہ اپنے من پسند لوگوں کو نوکریاں اور دیگر طرح سے نوازتے ہیں، علاقے کے لوگ چھوٹے بڑے کام کے لیے انہی چودھریوں کے پاس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب بھلا بڑا چودھری کب چاہیے گا کہ لوگ اسے گھانس نہ ڈالیں اور اپنے علاقے کے کونسلر، چیئر مین اور میئر سے تمام کام کرالیں۔ اس طرح تو ان کی چودھراہٹ کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ وہ کب اور کیوں چاہیں گے کہ بلدیاتی نظام کامیاب ہو، بلدیاتی نمائندوں کو بجٹ دیا جائے، اختیارات دیے جائیں ، ان کے شہر کا میئر بہ اختیار ہو وہ علاقے میں ترقیاتی کام کرے، صفائی ستھرائی کی نگرانی کرے۔ سڑکیں ، گلیاں اور دیگر ترقیاتی کام ہوں۔

کراچی میں بلدیاتی نظام کو قائم ہوئے سال ہونے کو ہے۔ کراچی کے میئر نے جیل سے میئر کا انتخاب لڑکرایک نئی روایت قائم کی ، میئر کو انتخاب میں حصہ لینے کے لیے جیل سے لایاگیا جہاں اس نے انتخاب لڑا اور جیت کر تاریخ میں ایک نئی روایت قائم کی۔ چار ماہ جیل میں رہا اور اپنے خلاف مقدمات لڑتا رہا ، کوئی تیس مقدمات میں اس کے ضمانت ہوئی جس کے بعد اسے رہائی تو مل گئی ، اس نے اپنا آفس بھی سنبھال لیا ہے، بغیر اختیارات کے ، بغیر بجٹ کے میئر کراچی کھنڈر بن جانے والے شہر کواز سر نو کیسے کھڑا کر سکے گا۔ ا س کے لیے صوبائی حکومت اور بر سر اقتدار سیاسی جماعت کو بڑادل کرنا چاہیے۔ملک میں بلدیاتی نظام کی بحالی اور انتخابات کے بعد مَیں نے ایک کالم تحریر کیا تھا جو 18جنوری2016کوروزنامہ جناح میں ـ’’بلدیاتی نظام کی بحالی‘‘ کے عنوان سے شائع ہواتھا اس میں کہا تھا کہ ’’اب جب کہ عوام کے منتخب نمائندوں نے حلف اٹھا لیا ہے، یونین کونسلز کی باضابطہ تشکیل عمل میں آچکی ہے اور اس کے نمائندے اپنی اپنی یوسیز میں پہنچ چکے ہیں، یوسیز کے منتخب چیرٔ مین اور وائس چیرٔ مینوں نے اپنے اپنے دفاتر سنبھال لیے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو اپنا اپنا کام شروع کردینا چاہیے۔ صوبہ پنجاب میں نون لیگ اور صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بلدیاتی نمائندوں کو وہ تمام اختیارات دینے میں یقینا پس و پیش نہیں کریں گے اس لیے کہ بغیر اختیارات کے یہ نظام بے معنی ہو کر رہ جائے گا، غیر فعال نظام ملک اور عوام پر بوجھ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس نظام کو کامیاب اسی وقت بنا یاجاسکتا ہے جب منتخب نمائندوں کو کام کرنے کا اختیار ہو، انہیں فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ بلدیاتی نظام جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے، اس کے ذریعہ ملک میں جمہوری ادارے مضبوط ہوتے ہیں، عوام کے روز مرہ کے مسائل کا حل بلدیاتی نظام میں ہی ہے۔ مرکزی اورصوبائی حکومتوں کو باہمی مشورے سے ملک میں بلدیاتی نظام کی کامیابی کے لیے دل بڑا کرنا چاہیے، بلدیاتی نمائندے عوام کے منتخب کردہ ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہی ہے۔ اس سطح پر جماعت اور سیاست سے بالا تر ہوکر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ چند شہروں کے علاوہ شہروں میں صفائی ستھرائی، سڑکوں کی خستہ حالی ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ، ٹریفک جام ہوجانے کے معاملات اس قدر گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں کہ ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ، یہ کام بلدیاتی نمائندوں کے کر نے کے ہیں یہ انہیں ہی کرنے چاہیں۔ سندھ حکومت بھی اپنا دل بڑا کرے، اختیارات دے دینے سے سندھ حکومت کی نیک نامی ہی ہوگی، گلی محلوں میں بلدیاتی نظام کامیاب ہوگا تو عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومتوں پر ان کا اعتماد بڑے گا۔ شہروں کی ناگفتہ بہ حالت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو وہ تما م اختیارات دوبارہ لوٹادیے جائیں جو انہیں پہلے حاصل تھے۔ عوام کی فلاح و بہبود اسی مُضمِر ہے‘‘۔اب بھی اسی بات کو دھراتے ہوئے حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام خاص طور پر وزیر اعلیٰ ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن اور شریک چیرٔپرسن سے اپیل ہے کہ مانا کہ الیکشن2018کی تیاری شروع کی جاچکی ہے، ہر سیاسی جماعت نے اب عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے جس طرح میاں صاحب پورے ملک میں دھڑا دھڑ فیتے کاٹ رہے ہیں، امدادی رقوم کا اعلان کر رہے ہیں، تعلیمی اداروں کے قیام کے اعلانات اور ان کے لیے رقوم کااعلان بھی کیا جارہا ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر اپنی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کی ہر ممکن سعیٔ کر ے گی۔ پی پی کے چیرٔ مین نے پنجاب پر اپنی نظریں گاڑ دی ہیں بلکہ انہوں نے پنجاب میں ہی رہنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ سندھ میں خاص طور پر متحدہ کے عتاب میں ہونے کے باعث ایک خلا ہے جسے پر کرنے کی ہر سیاسی جماعت کوشش کرے گی ۔ کراچی میں یہ کوشش اگر کراچی کے میئر کے ذریعہ ہوجائے تو بھی عوام کی نظر میں پیپلز پارٹی کی وقعت بڑھے گی، لوگ اس پارٹی کی جانب متوجہ ہوسکتے ہیں۔ میئر بغیر اختیارات کے ہی آئندہ انتخابات تک چلتا رہا تو عتاب میں ہونے والی پارٹی مظلوم بن کر فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ کراچی کی خستہ حالی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اس معاملے پر سندھ کی حکومت بہت ہی سنجیدگی سے سوچے اور میئر کو اختیارات اور خاص ترقیاتی پیکج کا اعلان کرے۔ اگر کراچی کے عوام کی بھلائی مقصود ہے، ان کے لیے تھوڑا بہت بھی درد اور ہمدردی پائی جاتی ہے تو حکومت سندھ کو اس جانب سوچنا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ کراچی کی گھمبیر صورت حال کے پیش نظر مرکزی حکومت بھی کراچی کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان کرے تو اس سے بھی کراچی کی حالت کافی حد تک بہتر ہوسکتی ہے۔ (22نومبر2016)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287860 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More