نواز شریف کے ایک سابقہ متوالے کا شکوہ

حاجی اشرف جب کبھی بھی ملتا ہے اس کے پاس کسی نہ کسی خبر کا کوئی نیا پہلو ہوتا ہے جس پر وہ کبھی خوشی اور کبھی افسوس کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ جوانی میں اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت نصیب فرما دی، اس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے لیکن گزشتہ روز جب ایک افطاری پر اکٹھے ہوئے تو افطاری سے کچھ دیر پہلے ہی وہ بہت افسردہ افسردہ نظر آرہا تھا، پہلے تو میں یہ سمجھا کہ شائد روزہ لگ رہا ہو اور افطاری کے بعد وہی ہشاش بشاش طبعیت دیکھنے کو ملے گی لیکن افطاری کے بعد بھی اس کی حالت ویسی ہی تھی، حتیٰ کہ نماز کی ادائیگی اور کھانا کھانے کے بعد بھی اس کے چہرے پر وہ رونق نہ لوٹ سکی، آج کھانا بھی معمول سے کافی کم تناول کیا حالانکہ وہ ہم سب دوستوں میں بسیار خوری کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ ساری نشانیاں بتا رہی تھیں کہ آج ہمیں چھٹی جلدی نہیں ملے گی۔ افطاری سے فارغ ہو کر جب سب دوست ذرا اطمینان سے بیٹھے تو میں نے پوچھا، جی جناب حاجی صاحب! آج خیر نہیں لگتی۔ حاجی صاحب کہنے لگے، بھائیوں! آپ سب جانتے ہیں کہ میری ہمدردیاں کس سیاسی جماعت اور کس سیاسی لیڈر کے ساتھ ہیں؟ ہم سب جانتے تھے اس لئے سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے ساتھ۔ ہم سب دوست یہ بھی جانتے تھے کہ حاجی صاحب کی مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف سے وابستگی کتنی گہری اور جذباتی ہے۔ لیکن حاجی صاحب نے ایک ایسی بات کی جسے سن کر ہم سب حیران رہ گئے، کہنے لگے ”دوستوں! آج سے میری نواز شریف سے یکطرفہ دوستی بھی ختم اور سیاسی حمایت بھی“ ہم سب نے اس اچانک فیصلہ کی وجہ پوچھی تو حاجی صاحب کہنے لگے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈر کے کسی ایک فعل، کسی ایک کام سے بعض اوقات اتنا فرق پڑتا ہے کہ اس جماعت اور سیاسی قیادت کی تاریخ ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

ذرا سانس لے کر حاجی صاحب جب دوبارہ بولے تو ان کی آواز بھرائی ہوئی اور آنکھوں میں نمی تھی۔ کہنے لگے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان میں جتنی تباہی مچائی ہے اتنی تباہی سابقہ تریسٹھ سالہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی، جب ٹی وی پر بے یار و مددگار بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو دیکھتا ہوں تو سینے میں آگ سی بھر جاتی ہے، کچھ اچھا نہیں لگتا، ہر طرف ویرانی چھائی ہوئی لگتی ہے، ہم نے کہا کہ یہ تو قدرتی آفت ہے پھر آپ نواز شریف پر کیوں غصہ ہو رہے ہو؟ جواباً کہنے لگے اس لئے کہ اگر نواز شریف چاہتا تو پوری شریف فیملی ایک نئی اور بہترین روائت کا آغاز کرسکتی تھی، ہم نے پوچھا کہ وہ کیا تو حاجی صاحب کہنے لگے جس طرح کی مصیبت ہمارے پاکستانی بھائیوں پر آئی ہے جس آزمائش سے ہماری قوم گزر رہی ہے ایسے موقع پر اگر میاں نواز شریف، اپنے اور اپنے خاندان کی طرف سے یہ اعلان کر دیتے کہ میرا رائے ونڈ والا محل سیلاب زدگان کے لئے ایک مہمان خانہ کے طور پر حاضر ہے اور جب تک سیلاب زدگان اپنے گھروں کو چلے نہیں جاتے ہمارے کاروبار کی کم از کم آدھی کمائی سیلاب زدگان بھائیوں کے لئے مختص رہے گی، تو یقین جانیں کہ ان کے کاروبار کو ہرگز کوئی نقصان نہ ہوتا بلکہ وہ اور ترقیاں کرتے، سیلاب زدگان کو بطور مہمان اپنے گھر میں رکھتے، ان کی خدمت کرتے تو کیا اللہ ان پر اپنی رحمتوں کے دروازے نہ کھول دیتا۔ میں نے کہا اس طرح تو ہمارے سارے سیاسی خاندان اور لیڈران کو کرنا چاہئے، آپ صرف میاں صاحب کے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں؟ حاجی صاحب کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو تیرنا شروع ہوگئے اور کہنے لگے، اس لئے کہ نواز شریف میری محبت، میری چاہت ہے۔ میں نواز شریف کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی جملہ قیادت، اے این پی کے رہنما، ایم کیو ایم والوں کو تو پہلے ہی کچھ نہیں سمجھتا اور زرداری سے لیکر گیلانی تک، اسفند یار ولی سے لیکر الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن تک، سب نے ثابت کر دیا کہ انہیں پاکستانی قوم اور اس کے مصائب و پریشانیوں سے کتنا تعلق اور واسطہ ہے اسی لئے میری خواہش تھی کہ میاں نواز شریف ایسا کوئی کام کرجائے کہ میری محبت اور میری چاہت کا بھرم رہ جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ حاجی صاحب دوبارہ بولے کہ موجودہ سیلاب میں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی حکومت اور خصوصاً وہاں کے لیڈروں نے پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ 17 اگست کو سعودی عرب میں پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے باقاعدہ طور پر ایک مہم شروع کی گئی جس میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود نے اپنی ذاتی جیب سے 5.3 ملین امریکی ڈالر کا عطیہ دیا جبکہ کراﺅن پرنس سلطان بن عبدالعزیز السعود نے 2.7 ملین ڈالر، وزیر داخلہ نائف بن عبدالعزیز السعود نے2 ملین سعودی ریال، گورنر تبوک نے ایک ملین سعودی ریال، شہزادہ الولید بن طلال بن عبدالعزیز السعود نے دس ملین سعودی ریال، سعودی تاجر اور سامبا فنانشل گروپ کے صدر عیسیٰ بن محمد العیسیٰ نے 2 ملین سعودی ریال کے عطیات دئے، اب اگر ہم پاکستان کے لیڈران کو دیکھتے ہیں تو صدر زرداری، جو بینظیر کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بلا شبہ اربوں ڈالر کے مالک ہیں کے بارے میں صرف یہ رپورٹس آئی ہیں کہ شائد انہوں نے 5ملین روپے ”بختاور فنڈ“ میں جبکہ صرف ایک ملین روپے کا عطیہ حکومت کے فنڈ میں دیا، جبکہ وہ سیلاب کے ہی دنوں میں کروڑوں روپے بیرونی دوروں پر اڑا چکے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ شریف فیملی نے ایک کروڑ روپے کا عطیہ دیا جو کہ اس کے وسائل کو دیکھتے ہوئے مونگ پھلی کا ایک دانہ ہی محسوس ہوتا ہے۔

میں نے کہا حاجی صاحب! سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ، بیورو کریٹس، فوجی بھائی اور دوسرے سیاستدان بھی تو موجود ہیں، آپ کے بقول صدر صاحب نے تو شریف فیملی سے بھی کم عطیہ دیا، گیلانی صاحب کا کوئی ذکر ہی نہیں، عمران خان کا بھی کوئی پتہ نہیں باقی رہنماﺅں کا بھی یہی حال ہے تو سارا نزلہ میاں نواز شریف پر کیوں؟ حاجی صاحب کہنے لگے کہ شائد آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب ہم نوجوانی میں قدم رکھ رہے تھے اور پاکستان میں ضیاءالحق کے بعد دو جماعتی سلسلہ شروع ہوا تھا تو ہم مسلم لیگیوں کی جانب سے اور اپنے بڑے بزرگوں سے یہ سنتے تھے کہ ”نواز شریف ”پرو پاکستان“ ہے، نواز شریف جتنا بھی برا ہو لیکن پاکستان کے خلاف نہیں، یہاں کے عوام کا درد ہے اس کے سینے میں“ چنانچہ میں بھی یہی سمجھتا تھا اور اسی وجہ سے موجودہ سیاسی رہنماﺅں میں میری محبتوں اور عقیدتوں کا محور نواز شریف ہی تھا لیکن اس سیلاب نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن و ق وغیرہ، ایم کیو ایم،اے این پی و فضل الرحمان وغیرہ سے تو عمران خان، جماعت الدعوہ اور جماعت اسلامی والے اچھے ہیں۔ جماعت الدعوہ تو ویسے ہی غیر سیاسی جماعت ہے، اگر عمران خان اور جماعت اسلامی والے ووٹ بنک میں اضافے کے لئے بھی ایسا کر رہے ہیں تو ان کا حق ہے کہ آئندہ الیکشن میں ان کو کامیاب کرایا جائے۔ میں بھی آئندہ الیکشن میں عمران خان کو سپورٹ کروں گا، میں نے کہا عمران خان نے اپنی جیب سے کیا دیا ہے؟ حاجی صاحب کا جواب تھا کہ ”عمران خان اس مصیبت کی گھڑی میں اپنے بھائیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے، اس نے شوکت خانم ہسپتال بنا کر، اسے ایک شفاف نظام کے تحت کر کے اس قوم پر جو احسان کیا ہے، اگر وہ آئندہ کچھ نہ بھی کرے تو یہی اس کے نامہ اعمال کے لئے کافی ہے“ حاجی صاحب ہم سب کو حیران چھوڑ کر نماز عشاء اور تراویح کے لئے چلے گئے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 208112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.