چلنا ذرا سنبھل کے ۰۰۰

مسلمان بہر حال یہ نہیں چاہتے کہ ریاستی اقتداربی جے پی کے ہاتھوں میں چلا جائے اس لئے وہ بی ایس پی کو ایک اچھے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ اکھلیش کا کانگریس سے اتحاد بہت مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ اترپردیش میں کانگریس کی حالت بالکل اچھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعدادآج بھی کانگریس سے متنفر ہے ، ان کے ذہنوں میں ابھی بھی بابری مسجد سانحہ بالکل تازہ بنا ہوا ہے اور پھر فسادات کے ایک لامتناہی سلسلے کو وہ ابھی تک فراموش نہیں کرسکے ہیں
گذشتہ چھ مہینوں سے سماج وادی پارٹی کےاندر انتشار اور اقتدار کی جنگ جاری ہے اور اس جنگ میں کوئی اور نہیں گھراور خاندان کے ہی لوگ آپس میں برسرپیکار ہیں ۔ایک طرف اگر پارٹی کے بانی ملائم سنگھ اور ان کے بھائی شیوپال ہیں تو دوسری طرف ان کے بیٹے اکھلیش یادو ہیںجو صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ہیں ۔اکھلیش کے ساتھ چچا رام گوپال یادو کے علاوہ ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی ،پارٹی کے ضلعی صدور اورمختلف عہدیداران کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ہے ۔اعدادو شمار کو اگر پیمانہ بنایا جائے تویہ کہا جاسکتا ہے کہ ملائم اور شیوپال پارٹی سے بڑی حد تک الگ تھلگ پڑچکے ہیں ۔آپسی مفاہمت کی کوششیں بھی ناکام ہوچکی ہیں اور دونوں دھڑوں میں سائیکل نشان کے حصول کیلئے جوجدوجہد جاری تھی کہ معاملہ الیکشن کمیشن تک جاپہنچا ،ملائم سنگھ کی غیر ذمہ دارانہ پیروی کے سبب یہ نشانی اکھلیش گروپ کو مل گئی ،اگر یہ پیروی ٹھیک طرح سے کی گئی ہوتی اور جس طرح سے اکھلیش گروپ نے کمیشن کو مطلوبہ کاغذات پیش کئے ملائم گروپ نے بھی فراہم کردیئے ہوتے تو اس بات کا قومی امکان تھا کہ یہ نشانی ہی منجمد کردی جاتی اور دونوں گروپوں کو الگ الگ نشانات کے ساتھ انتخابات میںاترنا پڑتا ۔مطلوبہ کاغذات پیش کرنے کے بجائے ملائم سنگھ بار بار یہی کہتے رہے کہ پارٹی میری ہے اور میں ہی پارٹی کا قومی صدرہو ں الیکشن کمیشن کے نزدیک یہ ثبوت ناکافی ٹھہرے اور اس نےاصل نشانی سائیکل یہ کہہ کر اکھلیش گروپ کے حوالے کردی کہ ان کے پاس پارٹی کی سربراہی کے ساتھ ساتھ اسمبلی و کونسل میں بھی ان کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ موجودہ صورتحال یہ بتارہی ہے کہ منطقی طور پر سماج وادی پارٹی تو اکھلیش کے ہاتھوں میںہے جس کے وہی قومی صدر بھی ہیں ۔معاملہ بڑی حد تک صاف ہوچکا ہے اور اکھلیش کی سربراہی میں پارٹی ایک مستحکم صورت میں پھر سے ابھر آئی ہے ۔ملائم گروپ اپنی کمزوری کے سبب اس پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔لیکن اس چوٹ کھائے گروپ کو نظر انداز کرنا خالی از حکمت ہی ہوگا کیونکہ مردہ ہاتھی بھی اپنی کچھ نہ کچھ قیمت ضروررکھتا ہے ۔یہ گروپ اتنا نقصان تو پہنچا ہی سکتا ہے کہ اکھلیش کے بڑھتےقدم روک لے اور ایوان اقتدار کی سیڑھیاں بی جے پی کیلئے آنکھیں بچھادے ۔ یہ گھڑی اترپردیش کیلئے انتہائی نازک ہے ۔بی جے پی جیسی فاشسٹ نظریات والی پارٹی بڑی تیزی سے منھ کھولے ریاستی اقتدار کو نگلنے کیلئے بڑھ رہی ہے ۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان تنازعات کےپیچھے کسی ایک ہی گروپ کی غلطی ہے ،غلطیاں کسی سے بھی ہوسکتی ہیں اور یہاں بھی ہوئی ہیں ۔ آج سماج وادی کا ایک بڑا حصہ اکھلیش کے پاس ہے ۔فی الحال تو انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ باپ اور چچا سے تو انہوں نے دفاعی جنگ جیت لی ہے ،کیا بی جے پی اور بی ایس پی سے بھی انتخابی جنگ جیت سکتے ہیں ۔سماج وادی کی کامیابی میں مسلم اور یادو ووٹرس ہمیشہ اہم رول ادا کرتے ہیں اور اس انتشار سے فی الحال دونوں میںگو مگو اور خلفشار کی فضا بنتی جارہی ہے ۔ایسی صورت میں یادو ووٹ بھی منتشر ہوسکتا ہے اور مسلم ووٹرس میں بھی شک و شبہات کی آندھی چل پڑی ہے۔وہ محسوس کررہے ہیں کہ آپسی اختلافات کے سبب بی جے پی کہیں فائدہ نہ اٹھالے ایسے میں ان کا ذہن بی ایس پی کی طرف مبذول ہوسکتا ہے ۔بی ایس پی مسلمانوں کیلئے اچھوت نہیں ہے ۔اس نے اگر انہیں فائدہ نہیں پہنچایا ہے تو نقصان بھی نہیں کیا ہے ۔اس لئے مسلمانوں کی نگاہیں بی ایس پی پر بھی ٹھہر سکتی ہیں ۔

مسلمان بہر حال یہ نہیں چاہتے کہ ریاستی اقتداربی جے پی کے ہاتھوں میں چلا جائے اس لئے وہ بی ایس پی کو ایک اچھے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ اکھلیش کا کانگریس سے اتحاد بہت مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ اترپردیش میں کانگریس کی حالت بالکل اچھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعدادآج بھی کانگریس سے متنفر ہے ، ان کے ذہنوں میں ابھی بھی بابری مسجد سانحہ بالکل تازہ بنا ہوا ہے اور پھر فسادات کے ایک لامتناہی سلسلے کو وہ ابھی تک فراموش نہیں کرسکے ہیں ۔ تازہ خبروں کے مطابق ملائم اور اکھلیش میں صلح ہوگئی ہے ،اوریہ صلح مضبوط بھی ہو اورصاف ستھری بھی،جہاں تک باپ بیٹے کے درمیان نزاع کا معاملہ ہےوہ تو فطری طور پر بھی ختم کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس جنگ میں جو لوگ ملائم خیمے میں رہ گئے تھےان سے صلح اس قدر آسان نہ ہوگی اور بظاہروہ صلح بھی کرلیں گےتب بھی ان کے دلوں میں بال برابرہی سہی کہیں نہ کہیں کوئی پھانس ضرور رہ جائے گی ۔ مثال کے طور پر شیوپال کو ہی لے لیجئے ،ا س جنگ کے دوران ان پر بھی متعددزخم لگے ہیں جواتنی آسانی سے مندمل ہونے والے نہیں اور ایسی صورت میں جبکہ ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگ سکا ہے وہ زخم کبھی کبھی ہرا ہوسکتا ہے ۔

ایسے میںا کھلیش کو انتہائی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے ان کے زخموں کا علاج ڈھونڈھنا ہوگا ،ساتھ ہی مہاگٹھ بندھن کی طرف جو پیش رفت ہوئی ہے، ان کے حق میں تبھی بہترہوسکتی ہے جب کچھ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو بھی اس گٹھ جوڑ میں شامل کرلیا جائے ۔اور مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کو روکا جائے ۔ اکھلیش کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ بیک وقت کئی محاذ اپنے خلاف کھلا نہ رکھیں ، بی جے پی کی ہزیمت کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنے خلاف کھلے ہوئے اس اندرونی محاذ کو اپنی بصیرت اور حکمت عملی سے بند کردیں تاکہ بی جے پی کے بڑھتے قدموں کو بہ آسانی روکا جاسکے ۔آج ان کےسامنے کرنے کاسب سے بڑا کام یہی ہے ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.