کیا عالمگیریت سے واپسی ممکن ہے؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا عالمگیریت کی طرف بڑھتی نظرآتی ہے۔اور نومبر2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسے نعرے لگائے جو عالمگیریت کے اصولوں کے خلاف تھے۔ان کے ذہن میں امریکی بے روزگاری کو دورکرنے کا ایک ہی طریقہ تھا۔کہ دہائیوں سے ملک سے باہرکام کرنے والی امریکی کمپنیاں واپس اپنے ملک میں آئیں۔ملک کے اندر اشیاء سازی دوبارہ شروع کریں۔تاکہ امریکیوں کو اپنے ملک کے اندر آسانی سے روزگار مل سکے۔لیکن واپس لانے سے پہلے یہ بھی سوچنا ضروری ہے۔کہ وہ امریکہ سے باہرکیوں گئے؟۔یہ تمام کمپنیاں سستی لیبر اور سستے خام مال کے لئے باہر گئے تھے۔امریکی کی ایک حقیقت یہ ہے کہ یہاں اب بھی ورکر کے معاوضے بہت زیادہ ہیں۔گزشتہ35سالوں میں امریکی کمپنیوں نے ایسے ہی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے 70لاکھ روزگار کے مواقع کم اجرت والے علاقوں،جیسے چین اور بھارت منتقل کئے۔بے روزگاری پیداہونے کی ایک وجہ مشینوں اور آٹو میشن بھی تھی۔کبھی یورپ اور جاپان نے اپنا سرمایہ امریکہ منتقل کیاتھا۔اب چین بھی چھوٹی اشیاء سازی کے مواقع اپنے ہاں ختم کرتاجارہا ہے۔اور یہ اشیاء سازی ویتنام،بنگلہ دیش اور انڈونیشیاء اور کئی دوسرے ملکوں میں منتقل کررہا ہے۔چین وہی کچھ کررہا ہے جو40سال پہلے امریکہ نے کیاتھا۔دنیا میں روایت یہی ہے کہ جب کوئی ملک کافی ترقی یافتہ ہوجاتا ہے۔تو وہ ہائی ٹیک اشیاء سازی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔چھوٹی اشیاء کم ترقی یافتہ ملک کے حصہ میں آجاتی ہے۔دنیا ہروقت تبدیلیوں کی زد میں رہتی ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد قومی ریاستوں کو بہت زیادہ اہمیت مل رہی تھی۔عثمانی سلطنت بھی سکٹر کر موجودہ ترکی تک محدود ہوگئی تھی۔اس وقت کی سپر پاور برطانیہ اور فرانس نے عثمانی سلطنت کے حصے کرکے کئی نئے ممالک جیسے عراق اور شام پیدا کئے تھے۔سعودی عرب بھی اسی دورکی پیداوار تھا۔یورپ میں بھی لوگ اپنی قومی ریاستوں کو مضبوط کررہے تھے۔جرمنی میں ہٹلر نے جرمنوں کو ایک نسل کے طورپر بھڑکایا اور اپنے ملک کے لوگوں کو سپر نارمل نسل ثابت کیا دوسری جنگ میں شروع شروع میں یورپ ایک بڑے حصے پر قبضہ بھی کرلیا۔باقی ملکوں میں بھی "قومی ریاستوں ـ"کو بہت اہمیت مل رہی تھی۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں عالمگیریت کی ہوا تیزی سے چلنا شروع ہوئی۔عالمی مالیات کو کنٹرول کرنے کے لئے عالمی بنک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنے اور2دہائیاں بیشتر عالمی تجارت کو کنٹرول کرنے کے لئےW.T.Oجیسے بڑے ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔اس ادارے کی کوشش کئی سالوں سے یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک تجارت کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم کردیں۔برآمدات اور درآمدات آزادی سے بغیر ٹیکسز سرحدیں کراس کرسکیں۔حتیٰ کہ عالمی تجارت کے لئے قومی ریاستوں کی سرحدوں کو تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے افکار پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کی وجہ سے دنیا میں تبدیلیاں آتی ہیں۔سماجی ارتقاء افکار کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔آجکلPost Nation stateکادور ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی سرمایہ کے بارے یہ تصورات پیداہوگئے تھے کہ سرمایہ سرحدوں کو اہمیت نہیں دیتا۔وہ ایسے علاقوں اور ممالک کی طرف پرواز کرجاتا ہے جہاں اس کے لئے حالات موافق ہوں اور سرمایہ اپنے کو تیزی سے بڑھا سکے۔گزشتہ70سالوں میں سرمائے کا ایک ملک سے دوسرے کی طرف رخ اسی وجہ سے ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ذرائع ابلاغ نے بھی بہت تیز سفرکیا۔تب پرنٹ میڈیا اور ریڈیو ہی تھا۔الیکٹرانک میڈیا نے آکر پورے کرۂ ارض کو واقعی ایک گاؤں کی شکل دے دی۔عالمگیریت کا سفر تیزی سے جاری تھا۔اور اب کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔مالیاتی وصولیوں اورادائیگیوں کے طریقے سرے سے بدل گئے ہیں۔اربوں کے سودے اب میڈیا کے ذریعے ہورہے ہیں۔ای۔مارکیٹنگ اب دنیا کا چلن ہے۔انٹرنیٹ نے آکر تعلیم میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کردی ہیں۔کرۂ ارض کے مختلف علاقوں میں اب ہر شعبہ زندگی میں یکسانیت آتی جارہی ہے۔دہائیوں سے اب کاروباری کمپنیاں قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہوگئی ہیں۔کرۂ ارض کی اشیاء سازی اور تجارت اب چند ہزار کمپنیوں کے قبضے میں آگئی ہے۔سرحدیں اب غیر اہم ہوگئی ہیں۔جہاں عالمگیریت سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔وہاں مسائل بھی بڑھتے ہیں۔بے روزگاری بھی بڑھی۔بے روزگاری کے یہ مسائل صرف عالمگیریت کی وجہ سے نہیں بلکہ مشینوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور آٹو میشن ہے۔جب اتنا کچھ ہوگیا تو اب ڈونلڈ ٹرمپ نے آکر ـ" پہلے امریکہ"اور"ساختہ امریکہ"کانعرہ لگایا ہے۔ٹرمپ تیزی چلتے ہوئے پہیے کی رفتارکو الٹانا چاہتے ہیں۔امریکی کمپنیوں سے انکی ملاقاتیں جاری ہیں۔اور انہیں سرمایہ کاری واپس لانے کے بارے کہاجارہا ہے۔لیکن100۔کمپنیوں نے ٹرمپ کے خلاف اتحاد بنا لیا ہے۔وہ ٹرمپ کی Immigratioinپالیسی اور دوسری بہت سی پالیسیوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوگی۔جب سرمائے دار طاقتور ہوجاتے ہیں تو وہ ریاست کی پالیسیوں کو بھی اپنے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔سرمایہ منہ زور ہوجائے تو اسے روکا نہیں جاسکتا۔تمام ترقی یافتہ ممالک میں بڑی کمپنیاں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں۔ریاست کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔آخر امریکی کی وہ ہزاروں کمپنیاں جو اپنا سرمایہ چین،بھارت اوردنیا کے دیگر ممالک میں منتقل کرچکی ہیں۔انہیں تو صرف اپنے مفادات ہی عزیز ہونگے۔انہیں جس ملک میں بھی حالات سرمایہ کاری کے لئے موافق نظر آئیں گے وہ اپنی فیکٹری وہیں لگالیں گے۔برطانیہ ۔فرانس ،امریکہ ،جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کے سرمایہ داروں کا یہی چلن ہے۔عالمگیریت کو اب یہی چند ہزارmulti-nationals کنٹرول کررہی ہیں۔اب عالمی سرمایہ دار من مرضی کررہے ہیں۔اور انکا یہ رویہ جاری رہے گا۔عالمگیریت سے واپسی کا امکان اب کم ہے۔1980ء سے عالمی تجارت بھی تیزی سے بڑھنی شروع ہے۔امریکہ کے خریدار اب چین اور دوسرے کئی ممالک کی سستی اشیاء کے عادی ہوچکے ہیں۔اب اگرڈونلڈ ٹرمپ چین اور میکسیکو سے آنے والی اشیاء پر ٹیکس لگاتا ہے۔توجواباً یہ ممالک بھی امریکی اشیاء پر ٹیکس لگائیں گے۔یوں ایک تجارتی جنگ شروع ہوجائیگی۔ایسی تجارتی جنگیں آخر کار اسلحی جنگوں میں بدل کر دنیا میں تباہی کا سبب بنتی ہیں۔پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے پیچھے بھی تجارتی اور مالی مفادات ہی تھے۔سرمائے کی آزادی اور سفر کافائدہ اب پاکستان جیسے ملک کو بھی ہورہا ہے۔چینی کمپنیاں ایک بڑی سرمایہ کاری لیکر پاکستان آچکی ہیں۔سی پیک منصوبے کے تحت46۔ارب ڈالر انرجی اور انفراسٹرکچر پر خرچ کئے جارہے ہیں۔اب یہ رقم بڑھ کر 54۔ارب ڈالر ہوچکی ہے۔پاکستان جہاں کوئی بھی ملک پروجیکٹ سرمایہ کاری کے لئے تیار نہ تھا۔چینی" رحمت کا فرشتہ"بن کر نازل ہوئے اور پورے ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمی دیکھی جارہی ہے۔اس میں چین اور پاکستان دونوں کا فائدہ ہے۔عالمی ماہرین کو ملکر یہ سوچنا چاہئے کہ کسی ملک کا وہ سرمایہ جو دوسرے ممالک میں لگایا جارہا ہے کیا اسکی اپنے ملک میں اشد ضرورت تھی یا نہیں؟۔اپنے ملک میں بے روزگاری کے حالات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔جیسے پاکستان جیسے ملک سے ملکی سرمایہ داروں کا پیسہ باہر نکالنا کسی بھی لہاظ سے درست نہ ہے۔یہاں تو سرمایہ کی پہلے ہی بہت کمی ہے۔اگر مسائل کی وجہ سے سرمایہ باہر لے جایا بھی گیا ہے تو اسے اب حالات نارمل ہوجانے کے بعد واپس لایا جائے۔ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ دبئی کی ترقی میں1/3حصہ پاکستانی سرمایہ کا ہے۔عالمگیریت سے واپسی تو اب ناممکن کام ہے۔اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنا ضروری ہے۔
 
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.