لہو لہان میرا شہر لاہور

مَیں پاکستانی ہوں ، پیدائشی پاکستانی ، پاکستان اپنی عمر کے 70سال پورے کرنے جارہا ہے اور میں بھی اس کے بالکل پیچھے پیچھے ہوں۔ اسے اگست میں اورمیں مارچ میں ساتویں دیہائی کو چھو لونگا۔ پاکستان بنانے والے ، جنہوں نے پاکستان کے قیام میں عملی حصہ لیا شاید بہت کم تعداد میں موجود ہوں گے اب پاکستان کی اکثریت خالص پاکستانی ہے یعنی وہ جس نے پاکستان میں جم لیا اس لیے پاکستان کا ہر شہر ہر شہر سے ہو پاکستانی کو محبت ہے۔اس کا کوئی بھی شہر مشکل میں آئے ، اسے خون میں نہلادیا جائے ، وہاں کے شہری مشکل اور پریشانی میں آجائیں ہر پاکستانی کو اس کا دکھ اور تکلیف ہوتی ہے۔ دہشت گردوں نے میرے شہر لاہور کو ایک بار پھر سے خون میں نہلا دیا، پیر 24جولائی 2017 ، لاہور کی معروف شاہراہ فیروز پور روڈ، ارفع کریم ٹاور کے ارد گرد سول انتظامیہ پولس کے تعاون سے پرانی سبزی منڈی کے قریب تجاوزات کو مسمار کرنے میں مصروف تھی، ایک دہشت گرد جو موٹر سائیکل یا رکشا میں سوار تھا پولیس اہلکاروں کے قریب آکر خود کو بم سے اڑا لیا، ماہرین نے بتا یا ہے کہ یہ خود ساختہ آٹھ سے دس کلو وزنی بارودی مواد پر مبنی بم تھا ۔ دھماکے کے نتیجے میں آس پاس کی دکانیں گھر، فلیٹس تو لرز اٹھے ساتھ ہی قیمتی انسانی جانیں جن میں 9 پولیس اہلکار اور 17شہری کل 26شہید ہوگئے جب کہ 60کے قریب افراد شدید زخمی بتائے جارہے ہیں جن کی حالت نازک ہے۔

دہشت گردی تو پوری دنیا میں جاری ہے لیکن پاکستان میں دہشت گردی کی جولہر کئی سال قبل شروع ہوئی تھی اس نے میرے ملک میں ایسے ڈیرے ڈال لیے ہیں کہ بہ وجود تمام تر کوششوں کے اس ناسور پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی عسکری اداروں کی جانب سے آپریشن ضرب عضب پھر آپریشن ردالفساد اوراب آریشن خیبر 4پر انتہائی قوت اور مہارت سے دہشت گردوں کا پیچھا کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد وقفے وقفے سے دہشت گردی کی کروائیاں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اس کی تازہ مثال پاکستان کے بڑے اور اہم شہر لاہور کو لہو لہان کردینا ہے۔ کراچی میں بھی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا یا جارہا ہے۔ لاہور اور کراچی میں بے گناہوں کی جان لے لینا آخر کیا پیغام ہے ، کیا مقصد ہے؟ بے گناہوں کو مارنے والے کو یہ نہیں معلوم کہ وہ بے گناہوں کو کیوں اور کس وجہ سے موت کے گھات اتار رہا ہے، شہید ہونے والے لاعلم کہ انہیں کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو اس کے بعد سیکیورٹی اداروے زیادہ مستعد دکھائی دیتے ہیں ، اس علاقے کو دور دور تک بند کر دیا جاتا ہے، کسی کو آنے جانے کی اجاذت نہیں ہوتی، یعنی ایک تو واقعہ رانما ہوا دوسرے اس قسم کے اقدام سے علاقے میں خوف و ہراس اور زیادہ پھیل جاتا ہے۔ دوسری جانب شہید ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت اور لواحیقین سے اظہار ہمدردی کے بیانات کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ شریک ہے خوشی میں ، جہاں اپنے پیدائش کی خوشیاں منائی جارہی ہیں، ہر جانب لہلہا تے ، رنگ برنگے پرچم ، جگ مگ کرتے نظارے ، جسم پر حسین اورخوبصورت لباس اور دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ نے ، مرجانے والوں سے اظہار ہمدردی کے بیانات جاری واکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے وہ کافی ہے۔ حکومت کے وزراء جو اپنی اپنی جگہ سیاسی، غیر سیاسی ، ذاتی مصروفیات میں مصروف ہوتے ہیں واقعہ کی اطلاع ٹی وی پر سنی اور اظہار ہمدردی کا بیان جاری کردیا۔ یہ عسکری ادارے ہی ہیں جوعملی طور پر اظہار ہمدردی نہیں کرتے بلکہ وہ عملاً ایسے واقع پر شہیدوں کو احترام کے ساتھ لواحیقین تک پہنچنا، زخمیوں کو اسپتال تک پہنچانے کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے ہیں اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔

لاہور کا یہ واقعہ اور دیگر دہشتگردی کے واقعات اس بات کا عدیہ دے رہے ہیں کہ پاکستانی حکومت نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر جو منصوبہ ’’قومی ایکشن پلان‘‘ کا بنا یاتھا، وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا، اس پر عمل درآمد میں کہی نہ کہی کچھ کمی رہ گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ضرور آئی، دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا گیا، بے شمار دہشت گرد وں کو موت کے گھات اتار دیا گیا، بے شمار کو گرفتار کر لیا گیا ، آپریشن ضرب عضب نے کراچی میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، فاٹا اور دیگر علاقوں میں بھی دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا ، موجودہ آرمی چیف کی قیادت میں آپریشن رد الفساد اور اب آپریشن خیبر4پر عمل ہورہا ہے ۔ اس کے باوجود دہشت گرد موقع پا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف جو جو آپریشن ہورہے ہیں ، قومی ایکشن پلان میں جو کمزوریاں اور خامیاں محسوس ہورہی ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش ضروری ہے۔ان تمام اقدامات کے باوجود شہر لاہور موجودہ سال میں تیسری بار دہشت گردوں کے ہاتھوں لہا لہان ہوا ہے۔طرف تماشہ یہ کہ کاروائیاں کرنے والوں کو ہم دھماکے کے بعد اپنی گلیوں ، سڑکوں ، علاقوں اور موٹر سائیکل سواروں کی جامہ تلاشی لے کر تلاش کرتے ہیں جب دہشت گردی کے اصل ذمہ دار سینہ ٹھوک کر میڈیا پر اعلان کرتے ہیں کہ یہ کام ہم نے کیا ہے، گویا گناہ کیا اور گناہ کے بعد شرمندگی نہیں بلکہ فخر کا اظہار، اللہ معاف کرے ان بد بختوں کا انجام اور اللہ کے ہاں کس قدر سخت پکڑ ہوگی اللہ جانے۔

لاہور کو لہولہان کرنے والوں نے بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ کام ہم نے کیا ہے ۔ روزنامہ جنگ کی اطلاع کے مطابق پاکستان تحریک طالبان جس کا سربراہ فضل اللہ ہے اور جوافغانستان میں مقیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔دہشت گردوں کو کمزور سمجھنا، بے وقوف سمجھنا حماقت ہے، یہ دہشت گردی کاروائیاں انتہائی مہارت اور چالاکی سے انجام دیتے ہیں، پہلی بات تو یہ کہ جس نے دہشت گردی کرنی ہے اس نے پہلے اپنی جان کو ختم کرنا ہے پھر دوسروں کی باری آتی ہے اس کم بخت کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جو کام کرنے جارہا ہے اس کے نتیجے میں کون کان مارا جائے گا، کس کس کا کیا نقصان ہوگا، ہوسکتا ہو اسے یہ بھی یقین دلادیا جاتا ہو کہ اسے کچھ نہیں ہوگا ، وہ زندہ سلامت رہے گا اور دوسروں کی جان لے کر واپس آجائے گا۔دہشت گرد کو جائے وقوع تک پہنچانے، وقت اور سمت کا تعین کرنے میں جو دیگر دہشت گرد معاون ہوتے ہوں گے وہ کوئی واقعہ کے ارد گرد موٹر سائیکل پر دوڑیں گے، یا اس واقع کے گرد چکر لگائیں گے۔ ہم انہیں وہیں کہیں تلاش کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرض کے اصل وجوہات کا پتہ لگایا جائے، مرض کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاتک پہنچی ہوئی ہیں، اس مرض کا علاج کیا جائے ظاہر ہونے والا زخم کی مرحم پٹی کرنا مرض کااصل علاج نہیں۔

دہشت گردی اور اس جیسے بے شمار مسائل کا حل کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں حکومتوں کے اہداف کچھ اور ہوتے ہیں۔یہاں اقتدار میں آنے والے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی اولین کوشش یہ ہوتی ہے کہ وزیروں ، سفیروں، مشیروں، اداروں کے سربراہوں، انتظامیہ کے سربراہوں پر اپنے پہلے اپنے قریب ترین عزیز رشتہ داروں، پھر دور پرے کے تشتہ داروں، پھر دوستوں اور جاننے والوں کچھ کچھ پارٹی کے لوگوں اور اپنے وفادروں کو تلاش کیا جائے اور انہیں ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔ یہ بات صرف نوز شریف صاحب تک محدود نہیں ماضی میں ہر حکمراں یہی کچھ کرتا رہا ہے۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے اہل ، قابل، اپنے اپنے شعبے میں لائق فائق دوسرے الفاظ میں ٹیلنٹ سامنے نہیں آپاتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس شعبہ کو جو کام کرنا ہوتا ہے وہ نہیں کرتا بلکہ اس کی ترجیہات بدل جاتی ہیں۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی کہ ماضی میں سندھ کا وزارت تعلیم کی سربراہی ایک نان میٹرک کو سونپ دی گئی اور وہ بڑے عرصے تک وزیر تعلیم کے منصب پر فائز رہے۔ پاکستان میں جب تک ٹیلنٹ کی حکمرانی نہیں ہوگی، میرٹ پر عمل نہیں کیا جائے گاہم نہ تو ترقی کر پائیں گے اور نہ ہی کسی بھی قسم بشمول دہشت گردی جیسے مسئلہ کو حل کرسکیں گے۔ کیا خیال ہے کہ عسکری قوت اکیلی دہشت گردی کو ختم کرسکتی ہے ، ہر گز نہیں، عام لوگوں کی پکڑ دھکڑ سے دہشت گرد اپنی کاروئیاں روک دیں گے، ہر گز نہیں، عسکری قیادت جتنے بھی دہشت گردوں کو موت کے گھات اتار دے ، دہشت گرد ی ختم ہوجائے گی، ہرگز نہیں، یہ سب کچھ کئی سالوں سے ہمارے سامنے ہے ، دہشت گردوں کو مار ڈالا ، ان کا پیچھا کیا وہ بھاگ تو گئے لیکن اپنے مقاصد پر عمل پیرا رہے۔ عسکری قوت کا جو کام ہے وہ مستعدی سے انجام دے رہے ہیں حکومت کا جو کام ہے اس میں عدم دلچسپی، کمی نظر آرہی ہے اس کی وجوہات بھی سب کے سامنے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کا سیاسی مستقبل جو بھی ہو اسے آخری لمحے تک پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد میں اقدامات لیتے ہوئے دہشت گردی کے پر قابو پانے کے اقدامات کرنے چاہیے، قومی ایکشن پلان صرف تیار کرنے، منظور کرلینے اور اس پر جذوی عمل درآمد تک محدود نہ ہو بلکہ اس کی اصل روح اور ایک ایک شق پر مستعدی سے عمل ہو، عوام الناس کی شمولیت ان اقدامات میں مفید ہوگی اور سب مل کر یعنی حکومت، عسکری قوت اور عوام دہشت گردوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1283436 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More