’’سپل بانڈئی‘‘٬ سوات کا قدیم گاؤں جو کسی عجوبے سے کم نہیں

سوات کا قدیم گاؤں، جہاں صرف ایک ہی خاندان کےسات ہزارافراد سات سو گھروں میں رہائش پذیر ہیں

ایک ہی برادری کے لوگوں سے آباد گلی یا محلے تو دیکھے ہیں لیکن ایک ہی دادا کی نسل در نسل سے آباد گاؤں کے بارے میں پہلی مرتبہ سننے کو ملا ہے اور وہ بھی پاکستان کی ایک خوب صورت وادی میں، جہاں عجائبات عالم بکھرے ہوئے ہیں، ان میں سے مذکورہ گاؤں بھی ایک عجوبہ ہے۔
 

image


سیاحوں کی جنت کہلانے والا یہ خطہ جہاں ہر سو قدرت کے حسین رنگ، فطرت کے دل آویز مناظر، گندھارا، بودھ مت، ہندو اور یونانی تہذیب کے آثار بکھرے ہوئے ہیں ، وہیں سپل پانڈئی نامی صدیوں پرانا گاؤں بھی موجود ہے جس میں ایک ہی خاندان پر مشتمل ہزاروں نفوس کی آبادی ایک عجوبےکی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہاں رہنے والے لوگ ذات، برادری، قومیت کے ناتے سے نہیں بلکہ خون کے رشتے سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس گاؤں میں صرف ایک مسجد ہے جس میں پورے گاؤں کے مرد حضرات نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کی شادی بیاہ بھی آپس میں ہی ہوتے ہیں،غم خوشی میں بھی یہ ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں۔

سپل بانڈئی کا علاقہ ،سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے وادی مرغزار جانے والی شاہ راہ پر سفر کرتے ہوئے سوات کے صدر مقام سیدو شریف سے صرف آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہرے بھرے میدانوں اور سر سبز پہاڑیوں کے اوپر واقع ہے ۔ اس گاؤں کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے کیوں کہ یہاں ایک ہی خاندان کے لوگ آباد ہیں ۔

پورے گاؤں میں سات سو گھر ہیں جن میں سات ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ یہاں محبت، پیار، اخوت، بھائی چارے اور یکجہتی کے بے مثال مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان لوگوں میں کبھی لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے، اگر کسی وجہ سے کوئی معمولی تنازع ہو بھی جاتا ہے تو خاندان کے بزرگ اس کا فیصلہ کرادیتے ہیں۔
 

image

مذکورہ گاؤں سطح سمندر سے 3600 فٹ کی بلندی پر سیڑھی نما کھیتوں کے درمیان واقع ہے، جو وادی سوات کی دل موہ لینے والی خوب صورتی کاحامل ہے۔ اس کے پرسکون ماحول کی وجہ سے اسے’’سپل بانڈئی ‘‘ کا نام دیا گیا، جو پشتو زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی چین و سکون کی وادی کے ہیں۔ مذکورہ گاؤں کے بارے میں آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے بودھ مت کے پیروکاروں اور ہندودھرم کے ماننے والوں نے آباد کیا تھا،جس کا ثبوت، اس دور میں بنائے گئے بدھا کے مجسموں، اسٹوپا اورعبادت گاہوں کے کھنڈرات کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

یہ علاقہ کیسے وجود میں آیا ، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ، سلطان محمود غزنوی ، جب ہندوستان پر فوج کشی کے دوران وادی سوات کےراستے سے گزرا تو اس کی سپاہ کے بعض فوجیوں کو یہ علاقہ اتنا پسند آیا کہ ہندوستان کی مہمات سے واپسی پر انہوں نے سلطان کی اجازت سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہیں رہائش اختیار کرلی، ان میں زیادہ تر یوسف زئی قبائل کے لوگ شامل تھے۔سوات کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے محققین بھی اس رائے پر متفق ہیں کہ پندرھویں صدی عیسوی میں اس خطے میں افغانستان سے آنے والے یوسف زئی قبائل آباد ہوئے، جن میں سے بیشتر کا تعلق سلطان محمود غزنوی کی افواج سے تھا۔انہوں نے سوات میں اراضی کی تقسیم کا مساوی نظام رائج کیا جس میں ان لوگوں کو بھی حصہ ملا جو سلطان کے لشکر کے پیدل دستے میں شامل تھے۔

مذکورہ گاؤں میں آب پاشی کا نظام بھی اُسی دور کی یادگار ہے۔ ان کی آمد کے بعد یہاں سے ہندو، بدھسٹ اور دیگر اقوام نقل مکانی کرگئیں، لیکن ان کے دور کے آثار ابھی بھی باقی ہیں۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ سوات کے جن علاقوں کے نام کے آخر میں ’’گرام‘‘ کا لاحقہ لگا ہو تو انہیں بودھ مت کے پیروکاروں نے آباد کیا ہے ، جیسے اوڈی گرام، بلوگرام، پنجی گرام ، بشی گرام اور اورنجی گرام کے گاؤں ہیں جب کہ جن علاقوں کو ہندوؤں نےبسایا تھا، ان کے نام کے آخر میں ’’پور‘‘ کا لفظ موجود ہوتا ہے، جیسے اسلام پور، فتح پور اور شاہ پور ہیں۔ لیکن جن علاقوں کی آباد کاری پختونوں کے ہاتھوں سے ہوئی ہو ، ان کے نام کے آخر میں ’’بانڈئی‘‘ آتا ہے جیسے برہ بانڈئی، توتانوبانڈئی، سپل بانڈئی اور کوزہ بانڈئی ہیں۔

سلطان محمودغزنوی کی سپاہ کے جو لوگ سوات کے علاقوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے، ان میں ایک شخص شیخ سعدی بھی تھےجو ترکی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ زمین کے بٹوارے میں انہیں سپل بانڈئی کا علاقہ ملا۔ان کے ایک پوتے اخوند درویزہ کو درس و تدریس سے دلچسپی تھی ، ان کا شمار بعد میں علاقےایک بڑے مذہبی عالم کے طور پر ہونے لگا۔ مقامی لوگوں کے نزدیک وہ آج بھی ایک روحانی پیشوا اور ایک ولی کا درجہ رکھتےہیں ۔ انتقال کے بعد ان کی تدفین پشاور میں کی گئی اور ان کا مزار خیبر پختون خواہ کے لوگوں کے لیے ایک روحانی مرکز کا درجہ رکھتا ہے۔اخوند درویزہ کےدنیا سے رخصت ہونے کے بعدان کے پوتوں نے گاؤں کی زمین کو آپس میں بانٹ لیا۔ ان کے ایک پوتے میاں دولت بابا کے تین بیٹوں، برٹل میاں گان، کوز خوند میاں گان اور بنٹر میاں گان نے سپل بانڈئی گاؤں آباد کیا، ان کی نسل میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ لوگ آپس میں ہی شادی بیاہ کرنے لگے، اور آج ان کی آبادی سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو سپل بانڈئی کے سات سو گھروں میں مقیم ہے ۔
 

image

اس گاؤں کے چاوں اطراف بلند و بالا پہاڑ اور برفانی چوٹیاں ہیں،پہاڑوں پر اگا سبزہ اور سیڑھیوں کی صورت میں لگے ہوئے درخت اور ان کے درمیان میں لکڑی اور پتھروں کے خوب صورت مکانات انتہائی دل کش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں کے بزرگوں کے مطابق، گاؤں کے اطراف نصف صدی قبل تک ایک قلعے کی فصیل بنی ہوئی تھی۔ مذکورہ قلعہ اور اس کی فصیل امتداد زمانہ کا شکار ہوکر معدوم ہوچکی ہے۔

سپل بانڈئی گاؤں میں درس و تدریس کی شرح ملک کے دیگر نواحی قصبات کی بہ نسبت زیادہ یعنی تقریباً 80فیصد ہے۔ گاؤں کا ہر شخص بنیادی تعلیم سے بہرہ ور ہے۔ یہاں لڑکوں کے لیے کئی مڈل اسکول قائم ہیں جب کہ لڑکیوں کے لیے بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ایک این جی او کے اشتراک سے یہاں ایک انگریزی میڈیم اسکول بھی بنایا گیا ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر افراد سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہیں، جب کہ بعض لوگ بیرونی ممالک میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خواتین بھی محنت، مشقت میں اپنے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں، وہ روایتی چرخہ کات کر بھیڑ، بکریوں کے بالوں سے اون بناتی ہیں اور اس کے بعد دھاگہ تیار کیا جاتا ہے جسے ملحقہ قصبے، اسلام پور میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اسلام پور میں کھڈیوں پر کام کرنے والےماہر کاریگر اس دھاگے سے خوب صورت گرم چادریں، کمبل، قالین، شالیں، سواتی ٹوپی اور انتہائی نفیس واسکٹیں تیار کرتے ہیں۔ مذکورہ خواتین گھر کی چکیوں پر مکئی اور گندم پیس کر آٹا بناتی ہیں جس سے پکائی ہوئی روٹی انتہائی خوش ذائقہ ہوتی ہے۔

آبادی کے بیشتر مرد حضرات زراعت اور باغ بانی کے پیشے سے بھی منسلک ہیں۔ اس علاقے کی زمین کافی زرخیز ہے، اس لیے یہاں گندم، مکئی،جوار، آلو، پیاز، ٹماٹر، مٹر، گوبھی، گاجر، شلغم کے علاوہ سیب، آلو بخارا، شفتالو، خوبانی، انجیر اور اخروٹ بھی کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا محبوب پیشہ شہد کی مکھیاں پالنا اور ان کے چھتّوں سے شہد حاصل کرنا ہے۔ اس علاقے کا شہد پاکستان بھر میں مقبول ہے۔

بابا اخوند درویزہ کی اولادیں انتہائی ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ یہاں کے ایک نوجوان ،جہان پرویز نے پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے اشتراک سے بائیو گیس پلانٹ بنایا ،جس میں مویشیوں کے فضلے سے بائیوگیس کی پیداوار کا کام جاری ہے جسے گھر میں کھانا پکانے ، کمروں کو گرم رکھنے اور دیگر امور میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس گیس سیلنڈروں میں بھر کرنہ صرف گھروں میں استعمال کیا جائے گابلکہ اس کے ذریعے گاڑیوں کو بھی سستا ایندھن میسر آجائے گا۔ واضح رہے کہ قدرتی گیس کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پڑوسی ملک بھارت کےہر شہر میں سرکاری سطح پر بائیو گیس کے پلانٹ کام کررہےہیں، جہاں گائے ، بھینسوں کے گوبر سے مذکورہ گیس تیار کرکے متبادل توانائی کے طور پرملکی ضرورت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
 

image

سپل بانڈئی گاؤں میں موجود مسجد کی تعمیر دو حصوں میں ہوئی ہے۔ ایک حصہ ساڑھے تین سو سال قدیم ہے جب کہ دوسرا دور جدید کے تعمیراتی فن کا شاہ کار ہے۔وادی سوات کے مختلف گاؤں اور علاقوں میں ایک ہی محلے میں دو سے تین مساجد ہوتی ہیں جب کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہر قبیلے یا خیل کی اپنی ایک الگ مسجد ہوتی ہے۔ سپل بانڈئی کا یہ واحد گاؤں ہے جہاں صرف ایک عبادت گاہ ہے ۔اس میں آبادی میں اضافے کے تناسب سے وقتاً فوقتاً تعمیر و توسیع ہوتی رہی ہے۔ ابتدا میں جب مذکورہ گاؤں آباد ہوا تو اس کی آبادی چند درجن نفوس پر مشتمل تھی ، جس کی مناسبت سے یہاں ایک کمرے پر مشتمل نماز پڑھنے کی جگہ بنائی گئی تھی۔ بعدازاں جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا رہا، ویسے ویسےمسجد کی توسیع کا کام بھی ہوتا رہا، ایک وقت وہ آیا جب سوات کے لکڑی پر نقش ونگار بنانے والے ماہرین فن نے لکڑی کے تختوں پر نقش و نگاری کے ذریعے فن تعمیر کا فقید المثال شاہ کار تخلیق کیا۔ یہ عبادت گاہ گاؤں کے بالکل درمیان میں واقع ہے جس میں داخل ہونے کے لیے چار دروازے ہیں اور چاروںطرف سے مسجد میں پہنچنے کے لیے یکساں فاصلہ ہوتا ہے۔ شفاف اور میٹھے پانی کا ایک نالا بھی مسجد کے درمیان میں سے گزرتا ہے۔ اس مسجد کی امامت بھی پشت در پشت ایک ہی خاندان کے پاس ہے۔یہ، علاقے کی آبادی کے لیے ایک کمیونٹی مرکز بھی ہے۔ مذہبی محافل، ختم قرآن سمیت دیگر مذہبی پروگراموں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی عمارت کی تعمیر اورمحرابوں کی تزئین و آرائش میںتین مختلف اقسام کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے، جس میں زیادہ مقدار ’’دیار‘‘ کی شامل ہے جب کہ دیگر لکڑیوں میں’’ چیڑھ‘‘ جس کا شمار سوات کی بہترین اور مضبوط لکڑیوں میں ہوتا ہے جب کہ مالم جبہ سے منگوائی گئی ’’بنٹریالکڑی ‘‘ بھی استعمال کی گئی ہےجو سیاہ رنگ کی ہوتی ہے جب کہ دیگر کاموں کے لیے چٹانی پتھروں اور گارے کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مذکورہ مسجد سواتی فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ لکڑی کے ستونوں پر دل کش شہ پارے بنائے گئے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Village Sapal Bandai is located at distance of about 10 Km from Saidu Sharif, headquarter of district Swat where a road is bifurcated at distance of 8 Km from Saidu Sharif on Main Marghazar Road towards the village. The Village is located in the center of Marghazar Valley on the top of a mount about 1100 meters above sea level.