روہنگیا ، ہے جرم ضعیفی کی سزا

مہذب دنیا کے پیشوا,نام نہاد لیڈر,مصلح اورانسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کشمیر,فلسطین کے تنازعات ہی نہیں نپٹا سکی تھیں کہ امریکہ بہادر نے عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔لبنان,لیبیا,یمن اور شام کو اندرونی خلفشار کا شکار کردیا۔ایران اور پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھنا اور وہ بھی دن کی روشنی میں, اس عالمی طاقت کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔لیکن ان دنوں جو مسئلہ سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے وہ ہے روہنگیا کے بے یار و مددگار اور لاچار مسلمان,جن کا اس وقت کوئی بھی پرسان حال نہیں۔عرب دنیا کے غلام بادشاہوں کی تو چھوڑیں باقی بھی بے شرمی اور بے حیائی کی گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔آفرین ہے مالدیپ کے کہ جس نے کچھ حوصلہ دکھایا اور میانمار سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے۔پاکستان نے بھی مذمت کر کے فرض ادا کر دیا۔ترکی کے حکام سے جرآت کی توقع ابھی بھی موجود ہے۔بہرحال تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے میانمار کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد بند کر دیں، اور خبردار کیا کہ اس سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔گوتیرش نے کہا کہ میانمار کی بیوطن روہنگیا اقلیت کو کسی نہ قسم کی قانونی حیثیت دینے کے لیے منصوبہ بندی ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ میانمار کی حکومت یا تو روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دے یا پھر کم از کم فوری طور پر ایسی قانونی حیثیت دے جس کے تحت وہ معمول کی زندگی گزار سکیں جس میں نقل و حرکت کی آزادی، ملازمتوں تک رسائی، تعلیم اور صحت کی سہولیات شامل ہیں۔یاد رہے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق روہنگیا سب سے زیادہ ستائی ہوئی اقلیت ہے۔جبکہ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار پر ان دسیوں ہزار روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالیں جو حال ہی میں بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔انھوں نے سلامتی کونسل کو ایک خط لکھ کر اسے کہا کہ وہ میانمار کی حکومت پر تحمل اور برداشت کی پالیسی اپنانے کے لیے دباؤ ڈالے۔دوسری طرف سلامتی کونسل کے بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے بعد کوئی رسمی بیان سامنے نہیں آیاانھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ میانمار میں تشدد 'انسانی بحران' کا سبب بن سکتا ہے جس کے امن اور سلامتی پر گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں اور جو میانمار کی سرحد سے باہر بھی پھیل سکتا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں پہنچنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ 24 گھنٹے میں وہاں 35 ہزار سے زیادہ لوگ پہنچے ہیں۔یاد رہے 25 اگست کے بعد سے سوا لاکھ کے قریب روہنگیا میانمار کی ریاست رخائن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔طرفہ تماشہ یہ کہ میانمار حکومت بنگلہ سرحد کے ساتھ بارودی سرنگیں بھی بچھارہی ہیتاکہ مہاجرین کی واپسی ناممکن بنائی جا سکے۔بقول سوچی یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس کی چوکیوں پرحملہ کیااورمتعدد پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔اسکیبعدفوج نے جوابی کارروائی کی جس سے عام شہریوں کی بڑی تعداد اپنے دیہات چھوڑ کر نقلِ مکانی پر مجبور ہو گئی۔روہنگیا میانمار کی بیوطن اقلیت ہیں جنھیں میانمار کی جانب سے استحصال کا سامنا ہے۔رخائن ریاست سے فرار ہونے والوں نے بتایا ہے کہ بدھ کے جتھے انکے دیہات کو آگ لگاتے پھر رہے ہیں اور عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔فوج کا کہنا ہے کہ وہ ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی رہی ہے جو عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔جو کہ سراسر جھوٹ اور غلط ہے۔اب آیئے اپنے ہمسائے بھارت کی جانب تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ میانمار کے دوران آنگ سان سوچی سے ملاقات میں کہا ہے کہ بھارت میانمار کے سکیورٹی تحفظات کو سمجھتا ہے۔مودی نے کہا کہ راکھین میں’انتہا پسندانہ تشدد‘ بند ہونا چاہیے۔اس تنازعے کے فریقین کو میانمار کے قومی اتحاد کا احترام کرنا چاہیے۔مودی کا دورہ میانمار دراصل دونوں ممالک کے مابین اقتصادی تعلقات میں وسعت دینے کی خاطر عمل میں لایا گیا ہے۔ خطے میں چین کی بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں بھارت میانمار کے ساتھ تعلقات میں مزید بہتری لانے کی کوششوں میں ہے۔ حالیہ برسوں کے ان دونوں ممالک کے مابین ہونے والی تجارت کے حجم میں بھی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ ملاقات کے بعد سوچی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے ملک میں حملوں کے تناظر میں نئی دہلی حکومت کی مذمت پر وہ شکر گزار ہیں سوچی کے مطابق اس صورتحال پر قابو پانے کی خاطر دونوں ممالک مل کر کام کریں گے۔ سوچی نے کہا، ’’ہمیں یقین ہے کہ ہم مل کر اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہمارے ملکوں میں دہشت گرد پنپ نہ سکیں۔‘‘ اس موقع پر مودی نے کہا کہ علاقائی سطح پر بھارت اور میانمار کے سکیورٹی تحفظات مشترکہ ہیں۔ہندو قوم پرست سیاستدان مودی نے سوچی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’راکھین میں انتہا پسندانہ تشدد بالخصوص سکیورٹی فورسز پر تشدد اور معصوم شہریوں کو ہونے والے نقصان پر پر ہم آپ کے تحفظات کو سمجھتے ہیں۔‘‘انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام فریقین مل کر ایک ایسا حل تلاش کر لیں گے، جس سے میانمار کی علاقائی خودمختاری اور اتحاد پر سمجھوتہ نہ ہو اور ساتھ ہی امن، انصاف، انسانی عظمت اور جمہوری اقدار کا فروغ ممکن ہو سکے۔یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں تقریبا چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی پر مودی حکومت نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ نئی دہلی حکومت حالیہ برسوں کے دوران بھارت آنے والے ان روہنگیا افراد کو ملک بدر کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ اس پیشرفت پر بھارت میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان شدید تنقید بھی کر چکے ہیں۔اب آخر میں ایک نیا شوشہ پڑھئے۔عالمی ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے میانمار میں ہورہی مسلم نسل کشی کیلئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہاہے وہاں جو کچھ بھی ہورہاہے اس کا تعلق کسی حدتک پاکستان سے بھی ہے۔

Zahid Siddiqui
About the Author: Zahid Siddiqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.