مشرف امریکہ کے کہنے پر نہیں چل سکا، رچرڈ ہالبروک

چلیے جی کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور پرویز مشرف پر ہمارے ملک میں تمام مخالفین یہی الزام لگاتے رہتے ہیں کہ اس نے امریکہ کے یہ حوالے کر دیا وہ کردیا اور امریکہ کے کہنے پر یہ کردیا اور وہ کردیا اب دیکھیے قبلہ، بڑے حکیم رچرڈ ہالبروک جو پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔

واشنگٹن میں سفارت کاروں اور سیکورٹی ماہرین کے ایک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بہت کم امکانات ہیں۔ رچرڈ ہالبروک کا کہنا تھا کہ اگر سابق صدر بش کے ساتھ کئے گئے وعدے سابق صدر مشرف پورے کرتے تو صورتحال بہتر ہوتی۔ رچرڈ ہالبروک کا کہنا تھا کہ صدر مشرف نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، شدت پسندوں کے مدارس بند کروانے اور قبائلی علاقوں کی صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے اگر کچھ کیا ہوتا تو آج ہمیں اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

لیجیے جناب اب تو بہت سے ان لوگوں کی بڑی سبکی ہوگئی ہوگی ہمارے ملک پاکستان میں کہ جن کی سیاست کا اوڑھنا بچھونا صرف مشرف کے دور حکومت اور اس کی حکمرانی کو برا بھلا کہنا ہے کیونکہ کسی کو برا بھلا کہنے میں کونسے ہاتھی گھوڑے لگتے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ رچرڈ ہالبروک جیسے اونچے درجے کا امریکی اہلکار پاکستان یا افغانستان میں نہیں بلکہ اپنے ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں سفارت کاروں اور سیکورٹی ماہرین کے اجلاس میں یہ بات کہہ رہا تھا اور کوئی ایسا نہیں تھا جو کہتا کہ نہیں جی مشرف نے ہمارے لیے وہ کچھ کیا جو نواز شریف یا بے نظیر یا آج کی پاکستانی حکومت نہیں کرپائی یا کرسکتی۔

اگر یاداشت کو ٹٹولیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان سعودی عرب کے بھی بعد دنیا کا سب سے آخری اسلامی ملک تھا جس نے طالبان کی حکومت کا ساتھ چھوڑا۔

اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ مشرف نے ہی آنکھیں دکھائیں تھیں امریکہ کو جب امریکہ بہادر کہتا تھا ڈو مور ڈو مور تو مشرف نے ببانگ دہل کہا تھا “کہ کیا ڈو مور ڈو مور کہتے ہو ہمیں دو کوئی انفارمیشن ہے ہمارے ملک میں موجود دہشت گردوں کے متعلق تو ہم خود کاروائی کریں گےاور کوئی ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ڈو مور ڈو مور اور ہمیں پتہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔“

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دنیا کی طاقتور ترین حکومت امریکہ نے مشرف کو ہٹانے کے لیے اور اپنی مرضی کا حکمران پاکستان پر مسلط کرنے کے لیے کیسے گٹھ جوڑ اور سازشوں کے تانے بانے بنتے ہوئے پہلے مشرف حکومت کو مجبور کیا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ملک آنے کی اجازت دی جائے اور پھر امریکہ کھلاڑیوں نے پاکستان میں بے نظیر بھٹو کو قاتلانہ حملے میں شہید کروایا اور اس کا الزام مشرف پر لگاتے ہوئے مشرف کی حمایتی جماعت ق لیگ کو شکست دلوائی اور اس طرح زرداری صاحب کو اقتدار نصیب ہوسکا۔

ہمارے سیاست دان اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے مشرف پر الزامات لگاتے ہیں کہ مشرف نے یہ کر دیا وہ کردیا ملک کو بیچ دیا اور اتنا کچھ کر دیا تو ان دوستوں سے سیدھا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا زبردست کام مشرف کر رہا تھا تو امریکہ اس سے خوش کیوں نا ہوا اور مشرف کے آنکھیں دکھانے اور کہنے کہ کیا مجھے ڈو مور ڈو مور کہتے ہو ہمیں پتہ ہے ہمیں اپنے ملک کے لیے کیا کرنا ہے تو اس کی آنکھیں دیکھ کر امریکہ بہادر نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جس طرح بھٹو اور ضیاالحق کو آنکھیں دکھانے کی سزا دیتے ہوئے رخصت کیا اسی طرح مشرف کو بھی رخصت کرنا ہوگا مگر پہلے سے زیادہ مضبوط آرمی کے ہوتے ہوئے یہ خطرناک کام تو نا ہوسکا مگر سیاسی چالیں چلتے ہوئے مشرف کو ضرور طاقت سے محروم کر دیا۔

رچرڈ ہالبروک کو یہ کیونکر کہنا پڑا کہ “اگر سابق صدر بش کے ساتھ کئے گئے وعدے سابق صدر مشرف پورے کرتے تو صورتحال بہتر ہوتی۔“

اس کا سیدھا اور سچا مطلب یہی نکالا جاسکتا ہے کہ سابق صدر مشرف نے صدر مشرف کے اشاروں پر چلنے سے صاف انکار کیا اس کے علاوہ ہالبروک کا یہ کہنا کہ “شدت پسندوں کے مدارس بند کروانے “ جیسے معاملات میں مشرف نے کچھ نہیں کیا تو اب ان پاکستانیوں کی انکھیں ضرور کھل گئی ہونگیں جو مرحوم ایم ایم اے کی زبان سے مشرف کے مدارس پر حملوں پر یقین رکھتے تھے۔ ارے یہ ہالبروک کیا کہہ گیا کہ شدت پسندوں کے مدارس بند کروانے میں بھی مشرف کچھ نا کرسکا تھا۔

اور تو اور بقول ہالبروک “قبائلی علاقوں کی صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے اگر کچھ کیا ہوتا تو آج ہمیں اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا“۔ یعنی مشرف نے جو پرائی جنگ اپنے سر لی وہ بھی امریکہ کو ایک آنکھ نا بھائی اور امریکہ یہ سمجھتا رہا کہ مشرف کا قبائلی علاقوں میں شروع کیا ہوا آپریشن بھی ہلکا پھلا تھا اسی لیے آج امریکہ موجودہ حکومت اور موجودہ عسکری کمان سے مطمئن ہے کہ ہاں اب ہماری مرضی کا آپریشن ہو رہا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں مشرف کے دور حکومت میں یعنی ١٠ سالہ اقتدار میں صرف ٥ یا ٧ ڈرون حملے ہوئے تھے اور مشرف حکومت کے بعد کی حکومت میں اب تک بلامغالبہ سینکڑوں ڈرون حملے امریکہ بہادر ہماری جیسی غیور قومیتوں پر کر چکا ہے اور ناجانے کتنے مزید ہونے باقی ہیں۔

انشااللہ مشرف ضرور عنقریب اپنے کہے کے مطابق اگلے الیکشن سے پہلے ہی ملک میں واپس آئیں گے اور ملک کی خدمت کریں گے اور پلے بوائے، جھوٹے، مکار اور منافقین کی جماعتوں کا حال دیکھنے جیسا ہوگا۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ اگر ملک میں عمران خان جیسے پلے بوائے کہ جن کے ماضی کی کاروائیوں اور اعترافات سے کون واقف نہیں، کے چاہنے والے بہت سے ہیں تو مشرف جو افواج پاکستان کا اعلٰی ترین سپہ سالار یعنی چیف آف آرمی اسٹاف رہا ہے اس کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں۔ اور کہاں ایک عمران خان جیسا اور کہاں ایک ملک کی عظیم ترین آرمی کا سپائی ایک سپہ سالار ۔

عمران خان چیریٹی کی بنیاد پر اچھا کام یعنی کینسر اسپتال بنا کر اس کے عوض سیٹیں حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ مشرف نے سپہ سالاری اور ملک عزیز پر دس سال حکومت کی ہےاور اسے خوب معلوم ہے کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے جیسے عمران خان کو معلوم ہے کہ ایک یا چند خیراتی اسپتال کیسے چلائے جاتے ہیں۔

عمران خان اور نواز شریف جیسے آج ملک میں ہیں اور سب کو پتہ ہے کہ ملک کا حشر کیا ہے کاش مشرف جلد ملک آجائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مشرف کا پرانا دور واپس آجائے اور لوگ تو چھوڑیے بڑے بڑے فنکار اینکرز بھی یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ موجودہ پاکستان میں حکومت سے بہتر تو مشرف کی حکومت ہی بہتر تھی۔ صبر کرو بھائیوں ابھی مزید دو ڈھائی سال انتظار کرو پھر لگ پتا جائے گا کہ مشرف کی آمرانہ حکومت کی چینی زیادہ اچھی تھی یا موجودہ جمہوری حکومت کی چینی۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.