کشمیری خواتین کے بال کاٹنے کی شر انگیز مہم

مقبوضہ کشمیر میں ان دنوں بھارتی فورسز کی جانب سے مقامی خواتین کے خلاف انتہائی شرانگیز مہم جاری ہے جس میں فوجی ’’نامعلوم افراد‘‘ کا روپ دھار کر اچانک گلیوں، محلوں یا گھروں میں موجود خواتین پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے سر کے بالوں کی چٹیا کاٹ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ چند ماہ پہلے بھارت کی مشرقی ریاستوں میں اس طرح کی خبریں سننے کو ملی تھیں کہ وہاں خواتین کی چٹیا کاٹی جا رہی ہے۔ چند واقعات کے بعد خبریں آئیں کہ اب یہ مہم مقبوضہ جموں میں شروع ہو گئی ہے۔ اب بھارت میں تو اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں ایک حشر کا سا سماں ہے۔

اس پر سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتاب نے اپنے گزشتہ ہفتے کے ایک اداریے میں لکھا کہ کشمیری خواتین کے بال کاٹنے کے واقعات میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس پر عوامی حلقوں میں زبردست تشویش پائی جاتی ہے اور لوگ اب اپنی بہو، بیٹیوں کو گھروں میں ہی رکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں، کیونکہ اب خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ خاص طور پر طالبات اب سکولوں اور کالجوں میں جانے کے بجائے گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ کسی بھی جگہ اب وہ محفوظ نہیں، جو طالبات سکولوں یا کالجوں سے پہلے یا بعد میں پرائیویٹ ٹیوشن کیلئے جاتی ہیں اب ان کے ساتھ ان کا بھائی یا والد ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بہووں کو گھروں سے باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزانہ کس طرح ایک باپ یا بھائی بیٹی، بہن یا کوئی شوہر اپنی بیوی کے رکھوالے کی حیثیت سے اس کے ساتھ ساتھ گھروں سے باہر آئیں گے۔ اس سے ان کا روز گار متاثر ہو گا۔ ان کو بھی تو کام پر جانا ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ صورتحال اس قدر گھمبیر رخ اختیار کر رہی ہے کہ لال بازار میں ایک کافی عمر رسیدہ خاتون کے بال کاٹے گئے جس پر پورا علاقہ سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ اس معاملے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ گزشتہ ایک مہینے سے اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن حکومت لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ خواتین کیخلاف اس قدر بھیانک جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن پولیس ابھی تک ایک بھی مجرم کو گرفتار نہیں کر سکی حالانکہ لوگوں نے بہت سے مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کر دیا لیکن پولیس یہ کہہ کر ان کو چھوڑ رہی ہے کہ وہ بال کاٹنے کے واقعات میں کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خواتین کے بال کاٹنے کا سلسلہ شروع کر کے لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ ان کے دلوں میں خوف بٹھایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو، حکومت کو فوراً سے بیشتر ملوث افراد کو گرفتار کر کے اس سازش کو بے نقاب کرنا چاہئے جس نے پوری وادی میں دہشت پھیلا دی ہے۔

بھارتی فوجی اب صرف بال ہی نہیں کاٹتے بلکہ قتل تک کرنے کے لئے چھریاں استعمال کر رہے ہیں۔ خواتین کے زیورات لوٹ رہے اور گھروں میں ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ چند دنوں میں دو سو کے قریب واقعات پیش آ چکے ۔ مجرموں کے حوالے سے پہلے کہا گیا کہ متاثرہ کشمیری گھرانے تعاون نہیں کر رہے پھر کہا گیا کہ خواتین تعاون نہیں کر رہیں،پھر حکمران جماعت پی ڈی پی نے تو اخلاقیات کی تمام دھجیاں اڑاتے ہوئے یہ کہہ ڈالا کہ ان واقعات میں حزب مخالف نیشنل کانفرنس ملوث ہے کہ وادی میں برہان وانی کے بعد کی طرز کی دوبارہ تحریک شروع کی جا سکے۔ پی ڈی پی اگرچہ کٹھ پتلی ہے لیکن اس کے کرتا دھرتا تو کشمیری زمین سے ہی تعلق رکھتے ہیں، انہیں کم از کم اس طرح کا بیان دیتے ہوئے تو احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا لیکن سیاسی مخالفت اور بھارت نوازی میں اس حد تک گر گئے کہ نہ کشمیری خواتین کی عزت کا خیال ہے نہ کشمیریت کی حرمت کا۔ مذموم واقعات کے بعد کشمیریوں نے پہرے دینے شروع کئے تو انہوں نے کئی حملہ آور پکڑے، ان میں کئی فوجی اور کئی پولیس اہلکار نکلے۔ جب انہیں پولیس اور انتظامیہ کے حوالے کیا گیا تو انہیں یہ کہہ کر فوری رہا کر دیا گیا کہ یہ سب بے گناہ ہیں اور ان کا بال کاٹنے کی وارداتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کا یہ سلوک دیکھتے ہوئے کشمیریوں نے بال کاٹنے کے لئے گھروں میں گھسنے والوں کو خود ہی سزا دینے کے لئے مارنا شروع کر دیا اور کئی فوجی رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد جب کشمیریوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو کسی ایک بال کاٹنے والے حملہ کو کئی ہفتوں میں نہ پکڑ پانے والی پولیس کے ان گھٹیا اہلکاروں کی درگت بنانے کے الزام میں سو کے لگ بھگ نوجوان گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیئے اور جگہ جگہ اس حوالے سے مزید کشمیریوں کو پکڑنے کے لئے مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ادھر پولیس افسران یہ تک کہہ چکے ہیں کہ یہ واقعات تویہاں ہوتے رہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیسی حیران کن بات ہے کہ پورا مقبوضہ کشمیر خواتین پر ان حملوں کے بعد مسلسل سراپا احتجاج ہے۔ احتجاج کرنے والے گولیوں، لاٹھیوں، زہریلی گیسوں کا سامنا کر رہے ہیں اور مسلسل ہڑتالوں سے کاروبار زندگی معطل اور تباہ حال معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہے تو الٹا بھارتی حکام کشمیریوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑک رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو آزادی کی تحریک کے خلاف کارروائی میں اگر کوئی کشمیری درکار ہو تو تھانے اور جیلیں بھر دی جاتی ہیں لیکن کشمیریوں پر حملہ آور کبھی نہیں پکڑا جاتا۔ یہی حال یہاں کے قاتلوں کا ہے۔ بھارتی فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ وہ یہاں جو چاہیں سلوک کریں، انہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں سب مکمل طور پر بھارت کے ساتھ ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کبھی کبھار ایک آدھ رپورٹ جاری کر دیتی ہے جو ہمیشہ بھارت کے جوتے کی نوک پر ہوتی ہے اور باقی دنیا توویسے ہی لاتعلق ہے۔ان واقعات پرعالمی تو کیا علاقائی سطح پر بھی مکمل خاموشی ہے۔ حیران کن طور پر پاکستان میں بھی اس حوالے سے کوئی ردعمل دیکھنے سننے کو نہیں ملا۔ مسلم دنیا میں کسی خاتون کے خلاف کسی بھی جرم کی جھوٹی خبر بھی چھپ جائے تو سارا عالم مل کر اس ملک کا جینا حرام کر دیتا ہے۔یہاں مختاراں مائی کی مثال ہی کافی ہے جس نے عزت لوٹے جانے کا ڈرامہ رچایا اور سب کچھ پس پشت ڈال کرساری دنیا میں پاکستان کو خوب بدنام کیا گیا اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں اور حالیہ وارداتیں تو سارے جہان کے سامنے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں لیکن سارا عالم اس لئے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے چپ سادھے بیٹھا ہے کہ کشمیری مسلمان ہیں اور انہیں مارنے والے بھارتی فوجی دنیا پر قبضہ اور کنٹرول رکھنے والی طاقتوں کے خاص دوست اور اتحادی ہیں۔ پاکستان اگر صحیح قانونی اور دلائل کے ساتھ اخلاقی بنیاد پر کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ دنیا بھر میں اٹھانا شروع کر دے اور اس حوالے سے عالم اسلام اور اتحادی ممالک کو ساتھ ملائے تو حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کشمیر کے اس سنگین مسئلے کا اصل حل تو جہادفی سبیل اﷲ میں ہی مضمر ہے جس کے لئے قوم اور امت کو بالآخر لوٹنا ہو گا کیونکہ صرف رونے دھونے سے بات نہیں بن سکتی اوریاد رکھئے! ہماری آنکھوں کے سامنے کتنے ہی ایسے واقعات ہیں جہاں مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے تو ان کا مسئلہ حل ہوا۔ بوسنیا اور کوسووا کی آزادی، روس کی شکست و ریخت سے وسط ایشیا کے مسلم ممالک کی آزادی، انڈونیشیا میں ہتھیار اٹھانے سے جزائر ملوکو کی علیحدگی کی مہم کی مکمل ناکامی اور کشمیر کے نوجوانوں کی جانب سے ہتھیار اٹھانے کی وجہ سے ان کے مسئلے کی زندگی بھی ایک بڑی مثال ہے۔ اصل زندگی مزاحمت میں ہے اور امت کو مزاحمت کے لئے بالآخر جہاد کی طرف آنا ہی پڑے گا۔

Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.