درد دل

یزید کا کوئی بھی نام رکھ لو وہ یزید ہی رہتا ھے اور حسین کو کسی بھی نام سے پکار لو وہ حسین ہی رہتا ھے، پھول پھول ہی رہتا ھے تم اسکا کوئی بھی نام رکھ لو اور نجاست نجاست ہی رہتی ھے تم اسے کچھ بھی پکار لو انسان کی سوچ بدل جاتی ھے معیار حق نہیں بدلتے۔ انسان کے نام بدل جاتے ہیں اصلیت نہیں بدلتی، آج وہ شخص اپنے چھوٹے سے کمرے میں کتنا اداس تھا اسکی آنکھوں میں کتنے آنسو تھے، کسی کی محبت میں گرنے والے آنسو، کسی کے دکھ میں پروئے ھوئے آنسو، آنسو جو انسان کے دکھ کا بلا ٹوک اظہار ھیں، آنسو جو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں کسی شکست و ریخت کا نتیجہ ھوتے ھیں اور کبھی کبھی آنسو کتنے انمول ہوتے ھیں کہ اللہ کے فرشتے انہیں ہاتھوں میں اٹھا لیتے ھیں، عرش پہ سجا لیتے ھیں۔ شاہ جی پرملال لہجے میں بولے آج محرم کی پہلی تاریخ ھے اور تمہیں پتہ ھے کہ میری موت میں نو دن باقی ھیں وہ اپنی موت کی خبر اس طرح سنا رہے تھے جیسے وہ بڑا خوشی کا دن ہوگا۔ میں نے کہا ۔۔۔شاہ جی موت کا علم تو صرف اللہ کے پاس ھے آپ کو کیسے معلوم ہے وہ بولے دعا کا حق تو میرے پاس ھے ناإ اور میں نے چالیس سال ایک ہی دعا کی ھے کہ یا اللہ مجھے حب حسین کے صدقے میں دسویں محرم کو موت دینا اور کل رات خواب میں بی بی نے دعا قبول ھونے کی بشارت دے دی۔ میں شاہ جی کے پاس ہر محرم میں آیا کرتا تھا ایک تو مجھے تصوف کے کچھ الجھے ہوئے سوالات کے جوابات درکار ہوتے تھے اور دوسرے شاہ جی محرم میں چالیس کلو دودھ کی کھیر بنا کر ختم پڑھتے تھے اس کھیر میں کچھ عجیب ذائقہ اور روحانی فیض تھا۔ وہ خود لکڑیاں لاتے آگ جلاتے اور سارا دن درود پڑھ پڑھ کر چشم گریہ کے ساتھ اپنی ہی دھن میں اسکو پکاتے رہتے اور کبھی کبھی تو کچھ آنسو پکتی ھوئی کھیر میں بھی گر جاتے اور پھر ختم پڑھنے کا انداز اللہ اللہ، محرم سے چالیس دن پہلے روزے رکھنا شروع کر دیتے اور ایک روزے کا افطار اسی کھیر سے کرتے میں کہیں بھی ہوتا وہ کھیر کا تبرک کھانے ضرور پہنچتا تھا۔ لیکن اس دفعہ انہوں نے مجھے پہلی محرم کو خود بلایا تھا۔ مجھے کھیر کا سارا سامان لکھ کر دیا اور ہر مقدار اچھی طرح سمجھائی۔ کہنے لگے آج کچھ دیر ھم فقیروں کے پاس بیٹھ جاؤ ہمیں معلوم ھے کہ تم کس تشکیک کا شکار ھو کیوں ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے ھو، ہمارے آنسوؤں پہ ہنستے ہو اور ہمارے معاملات پہ ابہام رکھتے ھو دیکھو دنیا میں راستے سارے اللہ تک جاتے ھیں راستے کے چناؤ میں اپنا اپنا ظرف، اللہ کی توفیق اور اپنی اپنی پسند اور نا پسند ہوتی ھے بس ہمیں حسین بھا گیا اور پھر اسی کی محبت میں ساری زندگی بسر کردی اور اب تو اس جسم میں اتنا خون نہیں ہے جتنی محبت شبیر و آل شبیر ہے۔ میں نے کہا شاہ جی إ آخر محبت اتنی اندھی کیوں ہوتی ھے کہنے لگے اگر محبت اندھی نہ ھو تو پھر منافقت ھوتی ھے اور منافق کی نماز میں اور عاشق کی نماز میں بڑا فرق ھوتا ھے، منافق کی زبان پڑھتی ھے اور دل سوتا ھے اور عا شق کا دل پڑھتا ھے اور زبان سوتی ہے۔ اتنے میں ظہر کا وقت ھو گیا کہنے لگے جاؤ تم مسجد میں پڑھ آؤ میں تو اسی کمرے میں پڑھوں گا۔ میں نے کہا شاہ جی إ ایسے نہیں یا تو آج آپ بھی مسجد میں پڑھیں گے یا پھر میں بھی اسی کمرے میں آپ کے پیچھے پڑھوں گا۔ کہنے لگے بہتر ہوگا کہ تم مسجد میں پڑھ آؤ۔ جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو کہنے لگے تو پھر میرے پیچھے نماز پڑھنے کی دو شرطیں ھیں۔ تم نیت باندھنے کے بعد سلام پھیرنے تک آنکھیں نہیں کھولو گے اور دوسرا تم اپنی جیب سے سارے پیسے نکال کر صدقے میں دے دو، میری جیب میں اس دن کافی پیسے تھے سارے مہینے کا خرچہ تھا جو میں بنک سے لیکر سیدھا انہی کی طرف گیا تھا۔ میں نے کہا شاہ جی إ پیسے کے معاملے میں کچھ چھوٹ دے دیں، کہنے لگے مت بولو منافق کی زبان عشق میں کوئی چھوٹ نہیں ھوتی تول پورا رکھنا پڑتا ھے۔ مرتا کیا نہ کرتا آخر سارے پیسے نکال کر علیحدہ رکھ دیے۔ بچپن سے ایک بات سیکھی تھی کہ بات کرو تو پوری کرو نقصان نہ دیکھو۔ شاہ جی بولے کتنے پیسے ہیں۔ میں نے کہا چھوڑیں شاہ جی آئیں نماز پڑھیں، کہنے لگے جب تک یہ پیسے صدقہ نہیں ھو جاتے نماز نہیں ھوتی جاؤ دروازے پہ کوئی آ رہا ھے پیسے دے دینا اور وجہ نہ پوچھنا، اب میں کچھ پریشان ہوا اور میرے ذھن میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے لیکن شاہ صاحب کا رعب اور ہیبت مجھ پر کچھ ایسی طاری ہوئی کہ کچھ نہ پوچھ سکا اور دروازے کی طرف چلا گیا۔ جب میں دروازے پر پہنچا تو کچھ توقف کے بعد ایک فقیر کاسہ اٹھائے آیا اور اس نے کاسہ آگے بڑھا دیا اور میں نے پیسے اس میں ڈال دیے۔ فقیر نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا جاؤ شاہ صاحب سے کہہ دو بندہ ٹھیک ھے۔ جب میں واپس آیا تو شاہ صاحب جائے نماز پر کھڑے ہو چکے تھے میں نے پیچھے کھڑے ہو کر تکبیر پڑھی اور نیت باندھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر اسکے بعد جو میں نے دیکھا وہ ناقابل یقین تھا بادلوں اور نورانی روشنی میں گھرا ہوا کعبہ میرے سامنے تھا اور لاکھوں نورانی سائے اسکا طواف کر رہے تھے اور اس سارے منظر میں قرآن کی خوش لحن تلاوت گونج رہی تھی، تلاوت کا ایک ایک لفظ بجلی کی طرح دل میں تڑپ اور سوز و گریہ پیدا کر رہا تھا میرا پورا وجود کانپنے لگا اور سانسیں اکھڑ گئیں جب شاہ صاحب نے اللہ اکبر کہہ کر رکوع و سجود کیا تو میری حالت نہ گفتہ بہ ھو گئی اور پھر دوسری رکعت میں مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے آنکھیں کھول دی مگر یہ کیا کہ شاہ صاحب سرے سے وہاں موجود ہی نہ تھے اور صرف انکی تلاوت کی آواز آ رہی تھی میں نے جلدی سے گھبرا کر پھر آنکھیں بند کر لیں پھر اسکے بعد مجھے کچھ علم نہیں کہ میں کیا پڑھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا سنتا رہا اور کیا دیکھتا رہا، جب سلام پھیر کر آنکھیں کھولی تو شاہ صاحب موجود تھے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ جب میں نے جاکر دیکھا تو وہی فقیر تھا اس نے پیسے لوٹا دیے اور کہا کہ شاہ صاحب سے کہنا کہ بندہ طلب صادق کی منزل سے آگے نہیں جا سکا اس لئیے صدقہ واجب نہیں۔ جب میں واپس آیا تو شاہ صاحب بولے پیسے واپس رکھ لو ہم تو چاہتے تھے کہ تمہارا صدقہ قبول ھو مگر تم حضوری کی چار رکعتیں بھی نہیں پڑھ سکے پہلی ہی رکعت میں گر پڑے ابھی بہت محنت کی ضرورت ھے۔ مگر شاہ جی إ جو میں نے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔شاہ صاحب بولے تمہارا وھم تھا ۔۔۔۔۔۔مگر شاہ جی وہ تو ۔۔۔۔۔۔شاہ صاحب بات کاٹتے ھوئے بولے۔ دیکھو بات یقین کی ھے یقین کر لو تو ہر خیال حقیقت ھے ورنہ خدا بھی کہیں نہیں ھے۔ یقین کامل بات بناتا ھے وھم، خیال اور تشکیک کی منزل سے نکال کر حقیقت ازلی سے ملاتا ھے، ایک ہندو بت پر یقین کامل رکھتا ھے اور اسکا یقین اسے اسی بت سے سب کچھ دلواتا ھے، یقین کر لو پانی بھی فرش ھے اور نہ مانو فرش بھی چلنے کے قابل نہیں۔

مرے یقیں میں یقیں نہیں ہے وگرنہ ممکن ہی یہ نہیں ھے
کہ اس کنارے سے اس کنارے مجھے نہ جائے خود آب لے کر

اس شعر پہ گھر جاکر کچھ سوچنا شائد کوئی کنارہ مل جائے۔

یہ میری زندگی کا بہت انوکھا اور ناقابل فہم واقعہ تھا اور ضروری تھا کہ میں اس کا مکمل احاطہ کروں اور اس کے ایک ایک جز پر از سرے نو نظر ڈالوں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچوں مگر شائد عشق میں نتیجے ہوتے ہی نہیں یہ تو سعی مسلسل کا نام ھے ایک واقعے کے بعد دوسرا، کڑی در کڑی زندگی گزرتی جاتی ھے اور ہر منزل آخری منزل ہونے کے باوجود بھی ایک اور منزل کا پتہ دے کر جاتی ھے۔ جب میں کچھ دنوں بعد شاہ صاحب کے پاس دوبارہ حاضر ھوا تو وہ قالین پر بیٹھے زار قطار رو رہے تھے کہنے لگے لو آج حسین پر پانی بھی بند ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ارے ظالمو یہ کیا کیا ۔۔۔۔۔۔۔دیکھو تو کون ہے کس کا نواسہ ھے اور کس کے جگر کا ٹکڑا ھے یہ کہہ کر شاہ جی کچھ اس زور سے روئے کہ دیواریں کانپنے لگیں اور شاہ جی روتے روتے بےہوش ہو گئے، آنکھیں پھر گئیں اور سانس اکھڑ گئی۔ میں کچھ گھبرا سا گیا اور جلدی میں جو مجھ سے بن پڑا کیا اس سے پہلے کہ میں ڈاکٹر کی کوئی سبیل کرتا شاہ جی إ ہوش میں آ گئے۔۔۔۔۔کہنے لگے بس یہ دل کبھی کبھی ساتھ چھوڑ دیتا ھے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپریشن کرواؤ لیکن انہیں کیا پتہ کہ آپریشن سے زندگی نہیں بڑھتی اور ہمارا وقت اب قریب ھے۔ دیکھو تم نے سارا سامان خرید لیا نیاز کا ۔۔۔۔۔میں نے کہا جی ہاں إ کہنے لگے دیکھوں دسویں کی صبح پہنچ جانا اور ہاں پیسے کتنے ھیں؟ میں نے کہا شاہ جی إ رہنے دیں ہمارا بھی کوئی حق ھے، کہنے لگے تمہارا بھی وقت آ جائے گا ابھی نہیں ۔۔۔۔۔۔

دسویں محرم کو جب میں نیاز کا سامان لیکر پہنچا تو شاہ صاحب لکڑیاں چولہے کے نیچے جلائے کھڑے تھے لیکن آج انکا بائیاں ہاتھ کام نہیں کر رہا تھا اور انگلیاں مڑ مڑ جاتی تھیں میں نے پوچھا تو بولے کچھ نہیں یونہی درد کر رہا ھے اور پھر وہ حسب معمول نیاز کے کاموں میں جت گئے اور پھر ایک دفعہ تو وہ چکرا کر گر ہی گئے جب میں انہیں سنبھالنے کے لئے آگے بڑھا تو بولے میری فکر چھوڑو نیاز کو دیکھو کہیں جل نہ جائے۔ عجیب قوت ارادی اور خود اعتمادی تھی شاہ صاحب میں۔ کہنے لگے تم نے اقبال کا وہ شعر سنا ھے۔ میں نے کہا کون سا شاہ جی إ بولے

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوھر بادشاہوں کے خزینوں میں

میں نے کہا جی شاہ جی إ سنا ھے کہنے لگے فقیر سے یہاں مراد بھکاری نہیں ھے بلکہ وہ فقر ھے جس پر حضور کو ناز تھا اور درد دل سے مراد رب تعالیٰ کا عشق ھے جو دل میں ایسا درد اور سوز پیدا کرتا ھے کہ انسان سرور و مستی اور جذب کی نہایت اعلیٰ و ارفع منزل پر پہنچ جاتا ھے، جہاں عبد اور معبود کے درمیان کوئی پردہ باقی نہیں رہ جاتا اور دیکھو آج کے بعد یہ نیاز تم نے پکانی ھے کر لو گے تو سنور جاؤ گے نہ کرو گے تو نیست و نابود ہو جاؤ گے۔ کرو گے نا ؟ میں نے کہا جی شاہ جی ضرور کروں گا پھر انہوں نے مجھے کچھ وظائف عطا کئے جو نیاز سے متعلق تھے اسکے بعد انکی زندگی کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے۔

لبیک یا حسین لبیک
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 21988 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More