منصور اعجاز کے مجوزہ میمو اور
سپریم کورٹ کے این آر او کے حالیہ فیصلے کے بعد سیاسی معا ملات بہت الجھے
الجھے سے محسوس ہو رہے ہیں ۔ حکو مت سخت دباﺅ میں ہے اور اسے سمجھ نہیں
آرہی کہ وہ اس پچیدہ صورتِ حال سے کس طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکے
گی۔پاکستان میں ایک مفرو ضہ گھڑ لیا گیا ہے کہ پا کستا نی فوج ہی محبِ وطن،
دیانتدار، فعال، طاقتور اور صاحبِ عقل و دانش ہے جبکہ سیاست دانوں کا ٹولہ
کرپٹ۔ چور، دھوکا باز، نا اہل اور سیکورٹی رسک ہے اور ملک کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹ رہا ہے ۔ ملکی سلامتی اور نظریہ پاکستان کا محافظ صرف فوج کا دارہ
ہے رنگ بدلتے سیاست دان نہیں ۔ مقتدر حلقوں کی آشیر واد سے زر خرید صحا
فیوں سے مخصوص سیاست دانوں کی کرپشن کی کہانیاں میڈیا پر چلوائی جاتی ہیں
اور اس بات کا بڑی شدو مد سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ سیاست دان نا اہل
اوربد دیانت ہیں اور وہ پاکستان کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں ۔سیاستدان
چونکہ نظامِ ِ حکومت چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے اس لئے گاہے بہ گاہے فوج
اقتدار پر قابض ہو جا تی ہے تا کہ سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ سے ملک کو بچا
یا جا سکے۔ فوجی جنتا کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ قتدار ان کا ہدف نہیں
ہوتا بلکہ وہ سیاست دانوں کا احتساب کر نے کی خاطر مداخلت کرتی ہے تاکہ ملک
میں جاری کرپشن کو ختم کر کے اسے شفافیت عطا کی جائے۔ فوجی جنتا کی مدا خلت
سے جمہوری نظام پٹری سے اتر جاتا ہے جس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کچھ
حلقے کرپشن کا بازار ایک دفعہ پھر گرم کر دیتے ہیں۔ احتساب کا چونکہ کو ئی
باقاعدہ ادارہ موجود نہیں ہوتا اور سارے اختیارات مارشل لاءایڈ منسٹریٹر کے
پاس ہو تے ہیں لہذا ایک دفعہ پھر کرپشن کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے۔ فوجی
جنتا جس مرض کو ختم کرنے کےلئے بر سرِ اقتدار آ تی ہے اس میں بے تحاشہ
اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں فوجی مداخلت اپنا جواز کھو بیٹھتی ہے اور اقتدار
ایک دفعہ پھر عوامی نمائندوں کو سونپ دیا جاتا ہے لیکن سیاستدانوں کو زیرِ
پا رکھنے کی خواہش مدھم نہیں ہوتی۔
جنرل پرویز مشرف نے گوڈ گورنس کا نعرہ لگا کر 12 اکتوبر 1999 میں ایک شب
خون کے ذریعے میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکو مت کو ختم کر کے اقتدار پر
قبضہ کر لیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے مجوزہ پانچ نکات کو عوام نے بڑا خوش
آمدید کہا تھا اور اس سے بڑی امیدیں وابستہ کر لی تھیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک
کے تین پات۔ اس کے نو سالہ اقتدار کے بعد قوم کی جو درگت بنی ہوئی ہے وہ ہم
سب کے سامنے ہے۔فوجی جنتا نے جب اقتدار پر قابض ہو نا ہو تا ہے تو عجیب و
غریب مفرو ضا ت گھڑ لیتی ہے۔ 12 اکتوبر 1999 میں میاں محمد نواز شریف کی
حکومت کے خاتمے کے لئے میاں محمد نواز شریف پر طیارے کے اغوا کا مقدمہ
بنایا گیا اور اس میں انھیں سزا بھی سنا دی گئی۔ ملک کے وزیرِ اعظم پر
طیارہ اغوا کا کیس ہے نا عجیب و غریب منطق لیکن سچ تو یہی ہے کہ فوجی جنتا
جو کچھ چاہتی ہے عدالتیں اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں۔ اب اگر فوج نے کو
ئی نیا بہانہ تراش کر اقتدار پر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے تو
پھر وہی پرانی تاریخ دوبارہ دہرائی جائے گی اور عوام کو میڈیا کے ذریعے یہ
باور کروا دیا جائے گا کہ ملکی سالمیت کی خا طر ایسا کرنا ناگزیر تھا لہذا
وہ فوجی شب خون کو قبول کر لیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ فوجی مداخلت کے
بعد عوام واقعی فوجی جنتا کے دعووں پر یقین کر کے انھیں قبول کر لیتے ہیں
اور پھر عدالت بھی شرفِ قبولیت بخشنے والوں میں شامل ہو جاتی ہے اور یوں
جمہوریت کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ فوجی بوٹوں کی زور دار چاپیں ہر سو
سنائی دینے لگتی ہیں اور پھر جمہوریت کا خواب ایک دفعہ پھر وہم و گمان و
خیال کی سرحدوں میں گم ہو جاتا ہے۔ایک مخصوص گروہ کی چاندی ہو جاتی ہے اور
وہ اپنی تجوریوں کے منہ بھرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔
تحریکِ انصاف کے چیرمین عمران خان آج کل کرپشن کے خاتمے اور اثا ثوں کو
ڈکلیر کرنے کےلئے بڑے زورو شور سے مہم چلا رہے ہیں ۔ یہ ایک مثبت سوچ ہے جس
کو خوش آمدید کہا جانا چائیے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی
ساری تقا ریر میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور میاں برادران کو ہی اپنے
نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ فوجی جنتا جس نے اس ملک پر 34 سال سے زیادہ حکومت کی
ہے ان کے اثا ثہ جات کا ذکر انھوں نے کبھی نہیں کیا ۔ان کا کون کرے گا؟
سیاست دانوں کا احتساب تو ہر فوجی حکومت کرتی رہتی ہے اور پھر سیاست دان
بھی ایک دوسرے کا احتساب کرتے رہتے ہیں لیکن فوجی جنتا کے احتساب کرنے کا
نعرہ کون بلند کرے گا اور ان کے اثاثہ جات کی بات کون کرے گا؟ ۔ کیا فوجی
جنتا کوئی مقدس گائے ہے جسے سب کچھ کرنے کی کھلی چھٹی ہے اور کوئی اسے
چھونے کی جسارت نہیں کر سکتا؟ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری پر سارے مقدمات
ایک سیاستدان میاں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں قائم کئے گئے تھے
لہذا سیاست دانوں کا احتساب سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتخا بات کی شکل
میں عوام بھی کرتے رہتے ہیں اور یوں سیاسی عمل تطہیر اور شفافیت کے عمل سے
گزر کر اپنی اصلاح بھی کرتا رہتا ہے لیکن فوجی جنتا ، عدلیہ اور بیور و
کریسی کا احتساب کون کرے گا؟ بنیادی طور پر تو یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ
داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں لیکن سیاسی جماعتوں نے فوجی شب خونوں کی شکل میں
اتنے زخم اٹھا ئے ہیں کہ اب ان میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ ان تمام
اداروں کا احتساب کرنے کی جسارت کر سکیں۔ سچ یہ ہے کہ بار بار کی فوجی
مداخلت سے ادارے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ ان میں اتنی قوت باقی نہیں ر ہی
کہ وہ طاقت ور اداروں کا احتساب کر سکیں۔ شب خون کا خوف قلب و نگاہ میں
سمایا ہوا ہو تو پھر احتساب کی چنگاری کہاں سے پھوٹ سکتی ہے ؟
منصور اعجاز کے مجوزہ میمو پر ایک دفعہ پھر ایسی فضا تخلیق کی گئی ہے کہ
حکومت کی رخصتی ہونے والی ہے اور ایک نیا سیٹ اپ اس حکومت کی جگہ لینے
کےلئے تیاربیٹھا ہوا ہے اور اس صورتِ حال پر ایک دفعہ پھر پیر آف پگارا کی
پیشن گوئیاں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔ابھی میمو کا مسئلہ پھن پھیلا
ئے کھڑا تھا کہ سپریم کورٹ نے این آر او کے حالیہ فیصلے سے حکومت کے
ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ حکومت کے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں ، اس
کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ جائے ما ندن نہ
پائے رفتن والی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں
سوئس حکام کو لیٹر لکھ دیا جاتا ہے تو پھرصدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا
استثناءہوا میں تحلیل ہو جائے گا ۔ ملکی اور غیر ملکی عدالتوں میں اس کے
خلاف سارے مقدمات کھل جائیں گئے اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو قصرِ
صدارت سے بزور باہر نکال دیا جائے گا ۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا
استثنا ءہی ان کو ابھی تک بچائے ہو ئے ہے وگرنہ کافی عرصہ قبل ہی ان کا کام
تمام کر دیا جاتا۔ ان کے مخالفین کی سر توڑ کوشش ہے کہ حکومت سوئس حکام کو
پرانے مقدمات کھولنے کےلئے لیٹر لکھے تا کہ وہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری
کو نا اہل کروانے کےلئے سپریم کورت میں ایک درخواست دائر کریں اور صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری اپنی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ سپریم کورٹ تو اس
آس امید میں بیٹھی ہوئی ہے کہ کوئی آئے اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی
اہلیت کو چیلنج کرے اور وہ اس پر اپنا فیصلہ صادر کر کے کہانی کو اس کے
منطقی انجام تک پہنچا دے۔ موجودہ حکومت کے خلاف فیصلوں کے انبار میں ایک
اور فیصلہ شائد اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا لیکن کیا پی پی پی کی
حکومت وہ فیصلے کر نے کی سپریم کورٹ کو اجازت دے گی ؟اس بارے میں کچھ بھی
کہنا قبل از وقت ہو گا آئیے تیل اور تیل کی دھار دیکھیں اور منا سب وقت کا
نتظار کریں۔۔
وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کی رائے بھی اس تمام معاملے میں
بڑی اہم ہے کیونکہ اٹھارہ کروڑ عوام کا نمائندہ ہونے کی جہت سے ان کا موقف
کافی ا ہمیت رکھتا ہے۔انھیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ عدالت کے حالیہ
فیصلے کو آئین سے متصادم دیکھتے ہیں یا پھر اسے آئین کی روح کے مطا بق
سمجھتے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ دسمبر 2009 میں جب سوئس حکام کو
خط لکھنے کا معاملہ زیرِ بحث آیا تھا تو پھروزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف
رضا گیلانی نے صدارتی استثناءکی بات کی تھی اور اپنا وزن صدرِ پاکستان آصف
علی زرداری کے پلڑے میں دال دیا تھا۔اپوزیشن کے بہت سے وکلاءنے وزیرِ اعظم
پاکستان سید یوسف رضا گیلانی پر توہینِ عدا لت کی کاروائی کا مطالبہ بھی
کیا تھا لیکن بوجوہ وہ ممکن نہیں ہو سکا تھا اور اسی دوران پی پی پی کی
حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر کے کچھ مہلت حاصل کرلی تھی لیکن شائد اب
کی بار ایسا نہ ہو سکے کیونکہ حالات کافی بدل چکے ہیں اور ایک تازہ دم گھوڑ
ا اقتدار کی گاڑی کھینچنے کے لئے بالکل تیار کھڑا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان
سید یوسف رضا گیلانی کو بھی اپنی آئینی حیثیت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی
روشنی میں ممکنہ نتائج کا علم ہے لیکن اگر انھوں نے ایک دفعہ پھر یہی موقف
اختیار کیا کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو استثناءحاصل ے توبات بہت دور
تلک جائے گی اور جمہوریت کی ہچکولے کھاتی ناﺅ بے رحم بھنور کی نذر ہو جائے
گی ۔کیا وزیرِ اعظم کے اس طر ح کے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کو قبول ہو ں گئے اور
کیا ان کے اس طرح کے اصرار پر ایک اور شب خون ناگزیر نہیں ہو جائے گا؟
پھَس گئی جان شکنجے اندر۔تے جیوں وِیلن وِچ گَنا
رﺅ نوں کو ہون رﺅ محمد۔ تے ہون جے روے تے مناں (میاں محمد)
عدالتوں کا موجودہ مزاج دیکھتے ہوئے تو ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ اب فیصلہ
کن موڑ آپہنچا ہے اور سخت اور دوٹوک فیصلے ہی مسئلے کا حل ہیں۔ حکومت کو اب
کھل کر سامنے آنا ہو گا اور آئین میں دئے گئے استثناءکا مقدمہ پوری قوت سے
لڑناہو گا ۔ سوال صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی ذات کا نہیں ہے بلکہ یہ
سوال اس آئینی شق کا ہے جو صدرِ مملکت کو استثناءدیتی ہے۔ اب اگر کسی کو یہ
شق قابلِ قبول نہیں ہے تو وہ آئین میں ترمیمی بل پیش کر کے پاکستانی آئین
میں ترمیم کر سکتا ہے لیکن جب تک یہ شق موجود ہے صدرِ پاکستان آصف علی
زرداری کو استثناءحاصل ہے ۔ سوئس عدالتوں کو خط لکھنا موت کے وارنٹ پر
دستخط کرنے کے مترادف ہے اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری گیارہ سالوں کی
قیدو بند کی صعوبتیں سہنے کے بعد اتنے تجربہ کار اور دور بین تو ضرور ہو
گئے ہیں کہ وہ ایسے فیصلواں میں چھپے عزائم کو پہچان سکیں ۔ اس ساری صورتِ
حال میں فوجی جنتا کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہو گاکیونکہ فوجی قیادت کی
پشت پنا ہی کسی فریق کی ہار یا جیت کا فیصلہ کردے گی۔ایک اور شب خون شائد
ہمارا مقدر بننے والا ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ مقتدر حلقوں کی انا
نیت اپنے آپے سے باہر ہو چکی ہے اور وہ دور تک دیکھنے اور دوسروں کو برداشت
کرنے کے وصف سے محروم ہو چکی ہے ۔۔۔۔ |