دیوسائی
دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ۔۔۔ نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن
پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اپنی
خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور
وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع
دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے
ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی
یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس
بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع
کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا
رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس
کے اوپر سے نہیں گذرتے۔یہی برف جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی
کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لئے صد پارہ جھیل پر
ایک بند زیر تعمیر ہے۔
بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان میں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین
ہے ، کیوں کہ ایک روایت کے مطابق دیوسایہ نامی ایک دیو کا یہ مسکن ہے اسی
نسبت سے اسے دیوسائی کہتے ہیں ۔ جبکہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد
میں موجود پھولوں کی وجہ سے
بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک راستہ اسکردو سے ہے اور دوسرا استور سے۔
اسکردو سے دیوسائی 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے
میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔
اسکردو جانے کے لئے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں
اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل
بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لئے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے
ہیںیہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلو میٹر طویل شاہراہ قراقرم
پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام
پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے
مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دےتی۔ دوسرے رستے سے
دیوسائی پہنچنے کے لئے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ
میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور
روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلو میٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔یہ سفر تقریباً
۲۲ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر
ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لئے اسی شہر سے گذرتے
تھے۔یہاں رہائش کے لئے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں
بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے
ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ
ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔یہ دریا مختلف مقامات پر
اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف
چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں
ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی
مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے ۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں
ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں
کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے
بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع
ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دےنی پڑتی ہے جو کہ
دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ دیوسائی کو1993میں
نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ
یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ کا تحفظ کیا جا سکے۔اس وقت
دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ
گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوبصورت اور پاکستان کے سب سے بڑے
ہمہ خور جانور ( گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کردیا۔ یہ
ریچھ سال کے چھہ مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے
اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں
پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ(خرگوش
کی ایک نسل) تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی
چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن
قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی
اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ
مختلف بیماریوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔سرسبز ڈھلوان اور اور
ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت
خوبصورت نظر آتے ہیں۔دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے
رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں
کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی
جیپ ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ دیوسائی چاروں
طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی
پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز
چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی
بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے
باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لئے پرندے اپنا گھونسلہ زمین پر ہی بناتے ہیں
۔ کچھ ہی دیر میں دیوسائی کا بلند ترین مقام چھچھور پاس (38744فٹ)آتا ہے
چھچھور پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھانس کا ایک وسیع میدان نظر
آئے گا جس کے بیچوں بیچ ا یک خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گذر رہا ہے اور
میدان کے آخر میں سرسبز ڈھلوان اور ڈھلوان کے بعد برف پوش چوٹیاں۔ اس
خوبصورت منظر اور میدان کی وسعت شہری سیاح منہ کھولے حیرت سے دیکھتا ہے یہ
منظر اس کے لئے قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ یہ ایک بہترین کیمپ سائٹ بھی ہے۔ یہاں
سے سفر اترائی کا ہے ، اترائی کے دوران ہی دور کچھ نیلاہٹ نظر آتی ہے یہ
دیوسائی کی واحد جھیل شیوسرہے، 12677 فٹ بلند یہ جھیل دنیا کی بلند ترین
جھیلوں میں ایک ہے۔اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ یکساں رہتی
ہے اس مین پانی نا کہیں سے داخل ہوتا ہے نا خارج اس لئے مقامی لوگ اسے
اندھی جھیل کہتے ہیں۔ اس جھیل میں ٹراؤٹ اور سنو کارپ مچھلی بڑی تعداد میں
پائی جاتی ہے۔ اس کا ساحل ایک کیمپ سائٹ ہے۔ اسکردو کے باسی چھٹی والے دن
بڑی تعداد میں یہاں پکنک منانے آتے ہیں۔ جھیل کا پانی یخ بستہ اور اس
قدرشفاف ہے کہ اس کے نیچے موجود رنگ برنگے پتھر اور ٹراؤٹ صاف نظر آتے ہیں
اورخوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے
توجلترنگ کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز اور منظر سے سیاح مسحور ہوجاتا ہے
اور اس کا دل اس منظر کو چھوڑ کر آگے جانے سے انکار کردیتا ہے مگر وہ سیاح
ہی نہیں جو کسی ایک مقام پر ٹہر جائے ۔ اسلام آباد سے گلگت جانے والی فلائٹ
سے بھی یہ جھیل نظر آتی ہے ۔مسافروں اور پائلٹ کے مطابق بعض ذاویوں سے یہ
جھیل اپنی شفافیت کی وجہ سے بالکل خالی نظر آتی ہے۔ شیوسر جھیل سے کچھ
فاصلے پر جیپ کالا پانی نامی دریا کو عبور کرتی ہے۔ دریا کے تہہ میں موجود
کالے پتھروں کی وجہ سے یہ دریاکالا پانی کہلاتا ہے۔یہاں جیپ میں موجود لوگ
دعا کرتے ہیں کہ دریا عبور کرتے ہوئے جیپ بند نا ہوجائے ورنہ اس یخ بستہ
پانی میں اتر کر جیپ کو دھکا لگانے کے تصور سے ہی خون رگوں میں منجمد ہونا
شرو ع ہوجاتا ہے۔عموماً کچھ جدوجہد کے بعد ڈرائیور کی مہارت اور اللہ کی
مدد سے جیپ دریا سے نکل جاتی ہے۔ہماری اگلی منزل بڑا پانی ہے جو دیوسائی کا
سب سے بڑا دریا ہے۔یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے۔ یہاں دیوسائی کا واحد پل
بھی ہے۔یہ پل لوہے کے تاروں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر سال برف
باری کے دوران یہ پل ٹوٹ جاتا ہے جسے دوبارہ بنایا جاتا ہے۔پل عبور کرتے ہی
ایک بورڈ نظر آتا ہے
ہمالین وائیلڈلائف پراجیکٹ۔۔ دیوسائی نیشنل پارک۔۔
ممنوعہ علاقہ۔۔ یہاں بھورے ریچھوں پر تحقیق ہورہی ہے
ساتھ ہی ان کے کیمپ لگے ہیں، یہاں وائلڈ لائف کے نمائندوں سے ہماری ملاقات
ہوئی اور دیوسائی میں موجود جنگلی حیاتیات خصوصاً بھورے ریچھوں کے متعلق
کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ ان لوگوں نے سیاحوں کے لئے یہاں ایک ٹوائلٹ بھی
بنایا ہے ساتھ ہی ایک چشمے کا ٹھنڈا پانی بہتا ہے، ان ہی سہولیات کی وجہ سے
سب سے زیادہ کیمپنگ اسی مقام پر ہوتی ہے۔دیوسائی میں کیمپنگ کے حوالے سے یہ
بات یاد رکھیں کہ یہاںکچھ میسر نہیں ہے مکمل تیاری کے ساتھ جائیں۔ ٹن پیک
کھانے اور کچا راشن لے کر جائیں، کھانا پکانے کے لئے لکڑی یا چولہا مع
ایندھن اور رہنے کے لئے مضبوط واٹر پروف خیمے لے کر جائیں۔ رات کو روشنی کے
لئے لالٹین اور ٹارچ مع اضافی بیٹریاں رکھیں۔ یہاں کافی مقدار میں اور کافی
صحت مند مچھر بھی پائے جاتے ہیں اس لئے مچھر کو بھگا نے والی کوئی دوا
استعمال کریں۔ یہاں کا موسم گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، ابھی سخت ترین دھوپ
چہرے جھلسا رہی ہوگی تو اگلے لمحے بارش یا پھر برف باری بھی ہوسکتی ہے۔ جی
ہاں یہاں گرمیوں میں بھی برف باری ہوتی ہے۔رات بہت سرد ہوتی ہے اس لئے گرم
لباس لے کر جائیں ۔رات کو بادل کیمپ میں آجاتے ہیں اور اسے گیلا کرتے ہیں ۔
رات کا منظر نہایت حسین ہوتا ہے کیونکہ آسما ن رات کو تاروں کے وجود میں گم
ہوتا ہے۔ دن بھر یہاں قریبی گاؤں کے بکروال اپنی بکریاں اور یاک چراتے نظر
آتے ہیں ۔صدیوں سے جہلم کے گجر ہر سال جب دیوسائی کے برف پگھلتے ہیں تو
مظفرآباد کیل اور منی مرگ کے راستے یہاں اپنے مویشی لے کر آتے ہیں۔ یہاں
اتنے رنگ کے اور اتنی تعداد میں پھول ہیں کہ آپ سارا دن ان کو دیکھنے میں
گزار سکتے ہیں ۔ اگر آپ کو مچھلی کے شکار کا شوق ہے اور آپ کے پاس ڈور
کانٹے بھی ہیں تو ٹراؤٹ کے شکار کے یہاں کافی مواقع ہیں۔ اگر آپ ریچھوں کو
دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائیلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کریں۔ غرض دو
دن گذارنے کے لئے یہاں کافی مواد موجود ہے۔یہاں سے آگے سفر جاری رکھیں تو
محض آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائٹ آئے گی جو کہ شتونگ نالے کہ
ساتھ ہے ۔ یہاں بھی جیپ دو دریاؤں سے بمشکل گذرتی ہے۔ یہان قیام و طعام کے
لئے مقامی لوگوں نے کیمپ لگا رکھے ہیں، یہاں سے مزید صرف پندرہ منٹ کے بعد
دیوسائی کا آخری کونا یعنی المالک مار پاس آتا ہے یہاں بھی سیاحوں کے قیام
و طعام کے لئے کیمپ موجود ہے اور ساتھ ہی وائلڈ لائف چیک پوسٹ بھی ہے۔اسی
مقام سے ایک ذیلی ٹریک برجی لا ٹاپ تک جاتا ہے۔ برجی لا کی خاص بات یہ ہے
کہ یہاں سے قراقرم سلسلے کی چھ چوٹیاں K-2 ، براڈ پیک، گشیبرم 1 ، گشیبرم
2، گشیبرم4 اور مشہ برم نظر آتی ہیں ۔ ایک مقام پر اتنی بلندچوٹیاں دنیا
میں اور کہیں نہیں پائے جاتیں یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے۔یہاں سے سفر
اترائی کا شروع ہوتا ہے اور مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد جھیل صد پارہ سے
گذرتے ہوئے اسکردو کا شہر آجاتا ہے۔جہاں زندگی کی چہل پہل اور بازاروں کی
رونق دیکھ کر دیوسائی کی بلندیوں سے آیا ہوا سیاح اپنے آپ کو اجنبی اجنبی
سا محسوس کرتا ہے ۔ اس کی نظریں بار بار صد پارہ جھیل سے پرے بلندیوں کی
طرف اٹھتی ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی وہیں تھا دنیا کے بلند ترین
سطح مرتفع میں بھورے ریچھوں کے درمیان،مسحور کردینے والی خوشبوؤں اور دل
موہ لینے والے رنگ برنگے پھولوں کی جھرمٹ میں۔ کیا وہ واقعی وہاں تھا یا یہ
سب محض ایک خواب تھا۔ |