قوم کا ہیرو - ڈاکٹر عبدالقدیر خان

6 فروری 2009 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے اپنے فیصلے میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے انہیں ایک آزاد شہری قرار دے دیا۔ عدالت نے انہیں وی آئی پی سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان نے 1952 میں پاکستان کی طرف ہجرت کی۔انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے علاوہ ہالینڈ اور بلجیئم کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ 1974 میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکوں کے ذریعے ساری دنیا کو حیران کردیا۔ بھارت کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد پاکستان کا دفاع کمزور ہوگیا تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار بنائے۔ یوں پاکستان کی تاریخ کا وہ عظیم منصوبہ شروع ہوا جس نے پاکستان کو دنیا کے چند ملکوں کی صف میں لاکھڑا کرنا تھا اور ہندوستان کے غرور کو خاک میں ملا دینا تھا۔ اس منصوبے میں بہت سے لوگوں نے بے مثال قربانیاں دیں۔ ان تمام سائنسدانوں اور پراجیکٹ پر کام کرنے والوں کے سرخیل ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ انہوں نے دن رات ایک کر کے قوم کو ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔28 مئی 1998 وہ یادگار دن تھا جب پاکستان نے چاغی کے مقام پر دھماکے کرکے ساری دنیا کو بالعموم اور بھارت کو بالخصوص بتلادیا تھا کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرے۔

قوم کے دفاع کو مضبوط بنانے والے اس عظیم محسن کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب مغرب کی غلامی کرنے والے حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے حکم پر انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کی اسمگلنگ میں ملوث قراردیا۔ مغربی اشاروں پر قوم کے محسن کو مجرم بنادیا گیا۔ پھر 4 فروری 2004 کو قوم نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سرکاری ٹیلی ویژن پر وہ کچھ کہہ رہے ہیں جس کا یقین شاید کسی پاکستانی نے، کبھی بھی نہیں کیا۔ قومی معاملات اور سیاست سے واقف لوگ جانتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا یہ بیان اس وقت کے فوجی جرنیل اور صدر پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد سامنے آنے کا کیا مطلب ہے؟ (ایسی ہی ملاقات پرویز مشرف اور جسٹس افتخار احمد چوہدری کے درمیان مارچ 2007 میں بھی ہوئی تھی)۔ اس بیان کے بعد انہیں ان کے گھر میں نظربند کر کے ان پر پابندیاں لگادی گئیں۔ ساری قوم مغربی قوتوں کے الزامات اور حکمرانوں کے اقدامات کے باوجود انہیں ملک کا ہیرو مانتی رہی اور ان کے وقار اور عزت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کی رہائی اور آزادی کے حق میں مظاہرے ہوتے رہے۔ ایک قومی اخبار نے تو ان کی نظربندی کے دنوں کو گننے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس اخبار میں ہرروز ایک اشتہار شائع ہوتا تھا جس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ محسن قوم کی نظربندی کو کتنے دن گزر چکے ہیں۔

محسن قوم کی وسیع القلبی کا اندازہ اس جواب سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے اپنے گھر کے باہر موجود صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئےدیا۔ ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ پرویز مشرف کے خلاف کسی قانونی کاروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اور پرویز مشرف کو تو اس کے کیے کی سزا مل چکی ہے۔ وہ آج سڑک پر نکلنے اور عوام میں جانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ اگر آج میں اور پرویز مشرف اکٹھے اسلام آباد کی سڑکوں پر ، آب پارہ یا کہیں نکل جائیں تو مجھے یقین ہے کہ پرویز مشرف کا تن ڈھانپنے کے لیے مجھے اپنی قمیض دینی پڑے گی۔

اس مختصر اور جامع جواب میں چھپی ہوئی حقیقت سے خود پرویز مشرف بھی انکار نہیں کرسکتا۔ جس شخص کو مجرم قراردیا گیا تھا وہ آج بھی قوم کا ہیرو ہے۔ اس کی نظربندی کے خاتمے سے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دوسری جانب وہ شخص ہے جس نے اپنے آقاؤں کے کہنے پر اس عظیم شخص کو معتوب کیا تھا۔ کرسی چھوڑنے سے قبل قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی اس نے خود کو قوم کو مقبول ترین شخص کہنے سے گریز نہیں کیا۔ آج اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس کے آقاؤں کے دیس امریکہ میں بھی لوگ جوتے پکڑے اس کا استقبال کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے تیئں خود کو ہیرو، لیڈر یا مقبول کہنے والے کبھی ہیرو نہیں بنتے۔ ہیرو وہی ہوتے ہیں جو ملک کے لیے قربانی دیں، اس کی خدمت کریں ۔ ہیرو وہی ہوتے ہیں جن کی رہائی کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئیں۔ وہ ہیرو نہیں ہوتے عوام اور خواص جن کے مواخذے کا مطالبہ کریں۔ ہیرو وہ ہوتے جو وطن کے دفاع کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وطن اور اس کے وسائل کو غیرملکی طاقتوں کے حوالے کرنے والے ہیرو نہیں ہوسکتے۔ ہیرو وہ ہیں جنہوں نے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے ملکی افواج کو مضبوط کیا ، تاکہ عوام چین کی نیند سوسکیں۔ اپنے ہی عوام کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کرنے والے قوم کے ہیرو نہیں ہوسکتے۔
Zahid Sharjeel
About the Author: Zahid Sharjeel Read More Articles by Zahid Sharjeel: 5 Articles with 37760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.