بادشا ہوں، جر نیلوں، سرداروں،
اور راجہ مہا را جوں کی اس دنیا میں وہ تمام ہستیاں قابلِ ستا ئش ہیں جنھوں
نے جمہو ریت کا بے مثل تحفہ دے کر حقِ حکمرانی کو نئی سمت عطا کی،عو ا م کی
طاقت کو نئی زبان عطا کی اور اسے اپنی طاقت کا احساس دلایا۔یہ سچ ہے کہ
افلا طون روسو اور کلارک جیسے عظیم لوگ جمہو ریت کی مو جودہ صو رت گر ی کے
بنیا دی اور بڑے اہم نام ہیں لیکن جمہو ریت کے اس سفر میں بے شمار لو گوں
نے اپنی زندگیوں کا خراج دیا اور جمہو ریت کے اس پو دے کی آبیاری اپنے لہو
سے کی۔ بادشا ہوں سے ا ختیار حا صل کرنا کتنا کٹھن کام ہے اس کا اندازہ صرف
وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے تاریخِ انسانی میں شہنشا ہوں کے جورو ستم کی
لرزہ خیز داستا نوں کا مطا لعہ کیا ہے۔ پاکستان میں بھی جمہو ریت کے اس سفر
میں لا تعداد لوگ جبر و استبداد کا شکار ہو ئے ، پابندِ سلاسل ہو ئے ، آزما
ئشوں سے گزارے گئے اور دارو رسن پر لٹکا ئے گے تب کہیں یہ لو ٹی لنگڑی جمہو
ریت دیکھنے کو نصیب ہو ئی ہے جسے گا ہے بگا ہے فوجی وردی میں ملبوس جرنیل
شب خو ن سے اپنی مٹھی میں بند کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں ا بھی تک حقیقی
جمہو ریت کا بے داغ سورج طلوع نہیں ہو سکا کیو نکہ فوج، بیو و کریسی اور
اسٹیبلشمنٹ اپنے اختیا رات منتخب پا لیمنٹ کو حوا لے کر نے پر آمادہ نہیں
ہیں۔اس کے لئے ابھی مزید جدو جہد کی ضرورت ہے ۔ ہر پا رٹی لیڈر شب کی یہ
ذمہ دری ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت اس انداز سے کر ے کہ وہ شب خون کو
برداشت کرنے سے انکار کر دیں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب کارکنوں کو پارٹیوں
کے اندر ان کا جائزمقام ملے۔ ان کی اہمیت اور احترام کو تسلیم کئے بغیر اور
انھیں حکومتی امور میں شریک کئے بغیر اس اعلی و ارفع مقصد کو حاصل نہیں کیا
جا سکتا۔
مجھ کو معلوم ہے تا حدِ نظر کو ئی نہیں۔۔خا ک اڑتی ہے مگر گرمِ سفر کو ئی
نہیں
عمر بھر خون سے سیراب کیا جس کو۔۔ہا ئے اس پیڑ کی شا خوں میں ثمر کو ئی
نہیں (سید سبط علی صبا)
پاکستان میں پہ در پہ مارشل لاﺅں کے با و جودعوام کی جمہو ریت سے محبت اور
رومانس میں کمی نہیں آئی۔ عوام نے ہر بار مارشل لا کو تسلیم کرنے سے انکار
کیا اور اپنی بے مثل جمہو ری جدو جہد سے آمروں کو سر نگوں ہو نے پر مجبور
کیا۔ جنرل ضیا الحق کی بے رحم آمریت کو فرا موش کرنا کسی بھی صا حبِ شعور
پاکستانی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ بے شمار اذیتوں، کوڑوں اور پھا نسیوں کی سز
ﺅں کے با وجود پی پی پی کے کار کنوں نے انسا نی حقوق اور جمہو ریت کی اس
جنگ کو جا ری و ساری رکھا تا آنکہ آمریت کو شکستِ فاش ہو ئی اور جمہو ریت
کا دامن فتح کے پھو لوں سے لد گیا لیکن یہ منتخب حکومت ابھی چند قدم نہیں
چلی تھی کہ اسے پھر آمرانہ روش کا شکا ر ہو نا ۔ صدر غلام اسحاق خان نے اس
وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی ا شیر واد سے اس حکو مت کو تحلیل کر
دیا ۔ چھوٹے چھوٹے وقفوں سے جمہو ری حکو متوں کو غیر آئینی اندازمیں برخاست
کیا گیا، اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا، منتخب قیادتوں پر جھوٹے مقدمات دائر
کئے گئے اور انھیں جلا وطنی پر مجبور کیا گیا تا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار
میں کو ئی مزا حم ہو نے کی جرات نہ کرے۔ 12 اکتو بر 1999 فوجی شب خون کی تا
زہ ترین کاروا ئی تھی جس میں جنرل پرویز مشرف نے جمہو ریت کی بساط ایک دفعہ
پھر لپیٹ کر رکھ دی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو میاں محمد نواز شریف کے ہا تھوں
پہلے ہی جلا وطنی کا کرب سہہ رہی تھیں جب کہ میاں محمد نواز شریف کو جنرل
پرویز مشرف کی فو جی آمریت کے ہاتھوں جلا وطن ہو نا پڑا۔ مقبول عوامی قیادت
کی غیر حا ضری اور آمریت کے حا شیہ برداروں کی ہوسِ اقتدار نے آمریت کی
مضبو طی اور جمہو ریت کی تبا ہی میں بڑا کلیدی کرادر ادا کیا۔ گلیاں ہو
گئیاں سونیاں وچ مرزا یار پھرے کے مصداق جنرل پرویز مشرف سیا ہ و سفید کے
مالک بن کر اس قوم پر من ما نی کرتے رہے۔ نو سال کی مسلسل آمریت کے بعد
محترمہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپس جا نے کا عہد کیا اور موت کی د ھمکیو ں کی
پرواہ کئے بغیر 18 اکتو بر 2007 کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھ کر آمریت
کو للکار کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔نہ موت کا خوف نہ آمر کا ڈر نہ سپر
پاور کی ناراضگی کا کھٹکا ۔ دھرتی ، عوام اور جمہو ریت سے اسکی محبت ہر چیز
پر غالب آگئی۔اور اسی محبت کے بل بو تے پر وہ آگے بڑھتی رہی تا آنکہ 27
دسمبر 2007 کو اسے بڑی بے رحمی سے راستے سے ہٹا دیا گیا۔اسے علم تھا کہ
اسٹیبلشمنٹ کو للکا رنے کی راہ ہ بڑی خطر ناک ہے لیکن اس کے باوجود اس نے
اسی راہ کا انتحاب کیا ۔ اس راہ سے گزرنے والی وہ پہلی شخصیت تو نہیں تھیں
اس راستے سے سر فروشوں کے بڑے کارواں گزرے تھے اور اپنی اپنی جان کا نذرانے
دے کر امر ہو گئے تھے یہ الگ بات کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس کا ر واں کی
سالارِ اعظم تھیں۔
میں کیا سب خلقِ خدا، اس کے ساتھ ہے۔وہ ہے ہوا کے رخ پہ ،ہوا اس کے ساتھ ہے
ایسا نہیں ہے پھر بھی ، لگا ہے کبھی کبھی ۔۔جیسے کہ میرا اپنا خدا، اس کے
ساتھ ہے (اسلام عظمی)
کسی بھی جما عت کی قوت اس کے کارکن ہو تے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں کارکن کسی
بھی جما عت کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پی پی پی چو نکہ ایک
نظریا تی اور ترقی پسند جما عت ہے لہذا اس کے اندر جوش و جذبہ ، جدو جہد
اور قربا نی کا عنصر دوسری سیا سی جما عتو ں کی نسبت زیا دہ ہے۔ اسے اس
جماعت کی خوش قسمتی کہہ لیجئے کہ اس کے بانی چیر مین ذولفقار علی بھٹو کی
شخصیت بڑی طلسماتی تھی جس نے اس پارٹی کی یک جہتی میں بڑا کلیدی کردار ادا
کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جرات نے اس جماعت کی مقبولیت میں بڑا اہم رول
ادا کیا اور اس کی شہا دت نے فروری 2008 کے انتخابات میں جما عت کی فتح میں
اپنے لہو سے رنگ بھرے۔پی پی پی اس وقت وفاق کی سب سے بڑی اور مضبوط جما عت
ہے لہذا اس کی مضبو طی وفاقِ پاکستان کی مضبو طی کے مترادف ہے لہذا اس کا
متحد اور یکجا رہنا پاکستان کے وفاق کے لئے لاز م و ملزو م کی حیثیت رکھتا
ہے۔پی پی پی اپنی اننگز کھیل چکی ہے لہذا اسے اگلے انتخابات پر اپنی نظریں
مرکوز کرنی ہوں گی ۔ الیکشن ہمیشہ کارکنوں کی قوت پر لڑے جا تے ہیں لہذا
کار کنوں کو متحرک کرنا قیادت کا کڑا امتحان ہوتا ہے ۔ طویل آمر انہ ادوار
کے مسائل ، دھشت گردی ،سیلاب کی تبا ہ کاریوں اور دوسرے بہت سے عوامل نے
حکومت کی توجہ کارکنوں کی جانب نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے کار کنوں اور
قیادت کے درمیان رابطے کمزور ہو ئے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹی
قیادت عوامی رابطوں کوزیا دہ مضبوط بنا ئے تا کہ کارکن زیادہ جوش اور جذبے
سے پارٹی کی جیت میں بہتر کردار ادا کر سکیں۔ کارکنوں کے بھی اپنے مسائل
ہیں ان کی جدو جہد بھی اپنا صلہ مانگتی ہے اور صلہ مانگنا ان کا حق بھی ہے
اور انھیں یہ صلہ ملنا بھی چا ئیے کیونکہ جمہو ریت کی اس جنگ میں انھوں نے
بڑی جدو جہد کی ہوتی ہے ، قربا نیاں دی ہوتی ہیں۔ کار کنوں کوپارٹی میں
ذولفقار علی بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شفقت ، محبت اور احترام ملنا
تو نا ممکن ہے لیکن پھر بھی کارکنوں کی تسلی و تشفی کے لئے انھیں عنا یات
سے نوازا جا سکتا ہے تا کہ اگلے انتخابات میں پارٹی کارکن پارٹی کےلئے
زیادہ دل جمعی سے کام کر سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کارکن ہی ہو تے ہیں جو
اپنی جما عتوں کے لئے نعرے لگا تے، جھنڈے اٹھا تے، جلسے کرتے ، جلوس نکا تے،
آنسو گیس کا مقابلہ کرتے اور پو یس کی غنڈہ گردی کو برداشت کرتے ہیں۔ وہ
اپنی جراتوں سے جما عتوں کو فعال بناتے ہیں لہذا اقتدار میں آنے کے بعد
ساری جما عتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی داد رسی کر کے ان کی
زندگیوں میں خو شیوں کے رنگ بکھیریں تا کہ جمہو ریت کے ثمر ات نچلی سطح تک
منتقل ہو سکیں۔ یہ سچ ہے کہ پی پی پی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن ہر
جماعت کو اپنی کار کردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑ نا ہو تا ہے اور اس اصول کا
ا طلا ق پی پی پی پر بھی ہو تا ہے۔پارٹی کو عوامی مسائل کے حل پر زیا دہ
توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی ۔ مہنگا ئی، بے روزگاری ،دھشت گردی، امن و
امان کا قیام، تیل، گیس، بجلی اور انرجی کا بحران اس کےلئے بڑے چیلنجز تھے
اور ان تمام چیلنجز سے کار کنو ں کے تعاون اور عوام کی مدد سے بہتر انداز
میں نپٹا جا سکتا تھا لیکن بہت سے عوامل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا
جس کا پی پی پی کو آ ئیندہ انتخابات میں جواب دینا ہو گا۔اگر پی پی پی کے
کارکن پنی جماعت کی صفوں میں پورے عزم کے ساتھ کھڑے رہے تو پھر اگلا الیکشن
جیتنے سے اس جما عت کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر کارکن پارٹی کی جانب سے
نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے گھروں سے باہر نہ نکلے تو پھر اقتدار کا یہ
ہما کسی اور کے سر پر بیٹھ سکتا ہے ۔۔ |