یوسف خشک

پروفیسر شعبہ اردو
کروڑی مل کالج دہلی یونیورسٹی

کسی ملک کی تاریخ میں تہذیب سے ہی اس کی شناخت ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیاتھی ،کس حد تک اس میں اخذ وقبول کی صلاحیت تھی اور کس حد تک دوسرے تہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی سکت یا قوت تھی۔ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے مختلف تہذیبی دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے اورہزاروں برس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اگر آج ہندوستان زندہ ہے تو اس کا سبب اسکے مختلف علاقوں کے تہذیبی دھارے تھے جوایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود مشترکہ عناصر بھی رکھتے تھے۔ان تمام تہذیبوں کے مختلف رنگ تھے مگر سب مل کر ایک رنگ تھا جسے ہندوستانی تہذیب کہاجاتاہے ۔بالکل اسی طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگرسب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔سنگم پر گنگا اور جمناکے پانی کا رنگ مختلف ہوتاہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتاہے ۔

کسی بھی دیش کے اتہاس ،ساہتیہ یا سنسکرتی کو نزدیک سے جاننے اور سمجھنے کا سب سے اچھا ذریعہ اس دیش کی بھاشا ہوتی ہے بھارت دیش کی مہانتا اور رنگار رنگی کا اندازہ یہاں کی زبانوں سے ہوتاہے ۔ہمارے سنوِدھان میں دیش کے سبھی ورگوں اور سبھی لوگوں کی آرزوؤں اور امنگوں کی عکاسی کی گئی ہے۔اس سے ہم آہنگی کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ بھارت کی ایکتا اور اکھنڈ تا کو مضبوطی پر دان کر نے والی ہے۔اجنتا،الورا،تاج محل اورلال قلعہ ہماری ساجھی وراثت ہیں اور ہندوستان کے سبھی باشندے اس سا جھی وراثت کے امین ہیں،چاہے وہ کسی بھی زبان یا مذہب کے ماننے والے ہوں۔عبادت کا طریقہ بدل جانے سے کوئی اپنی تہذیب سیکٹ نہیں جا تا ۔ہماری ساجھی وراثت کی مثال ایک ایسے خوبصورت اور پہلے لباس سے دی جا سکتی ہے جو بھاشاؤں کے رنگ برنگے تانے بانے سے بہت ہی باریکی کے ساتھ تیار کیاگیاہے۔بھاشاروپی یہ مہین اور خوبصورت دھاگے اپنی الگ الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ان میں ہرایک کی اپنی خوبیاں ہیں لیکن ان کی خوبصورتی ،ان کا سماجی مولّیہ اوران کی تکمیل ایک دوسرے کے وجود پر نربھر کرتی ہے،اوران سب کی مشترک پہچان نہ صرف ان کے اپنے وجود کو معنی دیتی ہے،بلکہ اکھنڈ بھارت کی اسمتا کو قائم رکھنے میں ہم رول ادا کر تی ہے۔

ہر دور کاادب اپنے عہدکی تہذیب اور زندگی کا عکاسی ہوتاہے اوراپنے دورکی عصری حیثیت کو پیش کرتاہے جس کا اظہار کم وبیش زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتاہے۔اس حقیقت کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں جو ادب برائے ادب کے قائل اوراس کا رشتہ ذہن اور زندگی سے زیادہ کتاب اور لغت سے جوڑنا چاہتے ہیں بقول ڈاکٹر محمد حسن ’’انفرادی ذہن بھی بالآخر سماجی زندگی کا آئینہ دار ہوتاہے اور وہ ادیب بھی جو اپنی نفسیاتی الجھنوں کی عکاسی کرتے ہیں دراصل زندگی ہی کے عکاسی ٹھہرتے ہیں ۔‘‘ادب انسانی جمالیات او راس کے فنی شعور وصلاحیت کا مکمل مظہر و عکاس ہوتاہے ۔انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ فنی شہہ پارے کے مطالعہ کے ذریعہ خود کو سنواریں اوراس کو قدرومنزلت کی نگاہوں سے دیکھیں اور جذبہ کو تکمیل تک پہنچانے اوران خواہشات کو پوراکرنے میں ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہے ۔اس سلسلے میں سب سے موثر اورنمایاں مقام سمینار وں کاہے جو شعرا،ادباء،مصنفین،ماہرین زبان وادب اور متعدد قسم کے دانشوروں کو منظر عام پر لانے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں ،فنکاروں کو ذرائع نشر واشاعت اور قاری کوان کے نگار شات میسر نہ ہوتے تو دنیا علم وادب سے بھی واقف نہ ہوتی۔

یوسف خشک جیسے عظیم فنکار پر قلم اٹھانا یا ان کی شخصیت پر خد وخال پر روشنی ڈالنا یا ان کی رنگا رنگت طبیعت ،فطری قابلیت اورجوہر کو احاطۂ تحریر میں لانا بس کی دشوار ہے ہی نہیں بلکہ دریا کو کو زے میں بندکرنا یا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے ۔

یوں تو دنیا میں بے شمار لوگ پیداہوتے ہیں اور گزرجاتے ہیں پر ا نہیں لوگوں کوعزت اور شہرت نصیب ہوتی ہے جو اپنے لیے نہیں بلکہ اوروں کے لیے جیتے ہیں جو دوسروں کے غم اور خوشی کو اپنا غم اورسمجھتے ہیں جو اپنی فطری اور تخلیقی صلاحیتوں سے ادب اور سماج میں انقلاب برپا کردیتے ہیں ۔جو اپنی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں سے ادب اور سماج میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔ یوسف خشک کا نام نامی ایسے ہی لوگوں کے فہرست میں آتا ہے ۔انہوں نے اپنے عظیم تخلیقات ، تصنیفات، نگار شات اور مختلف عظیم ادبی وثقافتی پروگرام مثلاً کانفرنس،سمینار،ورکشاپ،سمپوزیم اور دیگر کارناموں سے خود کو شبانہ وروز متحرک اور فعال رکھتے ہیں ہی اور ساتھ ہی ساتھ ان سارے ادبی کارہائے نمایاں کے ذریعہ اردو ادب کو دنیا کے دوسرے ادب پاروں کی صف میں لاکھڑا کردیا ہے اور آج ہندو پاک برصغیر ریاست سندھ بالعموم اورمیں یہ موصوف کا ہی فیض ہے کہ اردو زبان وادب دنیا کی پہلی مشہور زبانوں سے نظرملا سکتی ہے ۔
………………میں سندھ کے اس مایہ ناز سپوت کا جنم ہوا فطرت نے انہیں ایک حساس دل عطا کیا ہے ۔ان کا تعلق کسی مکتب فکر یا طرز فکر سے نہیں ہے بلکہ وہ بذات خود صاحب طرز ہیں ان کی تخلیقات میں اسلوبی فکرکی گہرائی ،روش،جوہر،مواد اور احساسات وہ جذبات کی ایسی نزاکت ،لطافت اور ندرت پائی جاتی ہے کہ وہ جس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ان کی تخلیقات کی جڑیں ان کی وطن کی اس سرزمین کی گہرائیوں میں پیوست ہیں وہ اسی زمین کی پیداوار ہیں ۔انہوں نے اس دھرتی اوریہاں کی قدیم تخلیقات کے سرچشموں سے سب سے زیادہ جامع فیض کیا ہے ۔ملک کی عظیم قدروں سے ،قدامت پرستی کے دامن سے ہٹ کر فیض اٹھا یا ہے ۔گلے شاہ کے خوشگوار حسین وفطری نقش ونگار اور سندھی شاعری کی پرجذبات موسیقی کے جوہروں سے دامن کو بھر لیا ہے ۔پروفیسر یوسف خشک کی شخصیت کے کئی جہات ہیں پران کا ہر جہت نرالہ ،دلکش اور سجیلا ہے۔وہ بیک وقت شاعر ،مصور،مفکر،مورخ،صحافی،ڈرامہ نگار،افسانہ نگار،ناول نگار،موسیقی کار،مکتوب نگار، انشا پرداز ہیں لیکن سب سے زیادہ ایک خوش فکر شاعر کی حیثیت سے ہمیں متاثرکرتے ہیں ۔ان کا مطالعہ بہت گہرا اور وسیع ہے ۔انہوں نے پوری تہذیب یافتہ دنیا کا سفر کیا ۔مگرانہیں ہراس چیز سے دلچسپی رہی جس میں انسانی قدروں ہوں اور جس میں قدریں اور جس کی مستقل قدروقیمت ہو ۔کہیں کہیں انہوں نے اپنے جذبۂ عشق سے متعلق باتیں کی ہیں لیکن اپنے جذبۂ عشق کے لیے وہ ہمیشہ کے لیے اسیر نہیں ہوئے ۔ اس صدی میں مذہب اور تہذیبی خیالات میں از سر نو دقیا نوسی خیالات شدت سے ابھرنے لگے ہیں دراصل زندگی کے ہر شعبہ میں انتشار کا دور دورا ہے ۔ذہنی قرب ،ناآسودگی اور بے حسی سے ایک بڑانقصان یہ ہورہا ہے کہ شعور اودب کی ترقی میں جمود وتعطل کا ساشائبہ نمودار ہونے لگا ہے ۔لیکن ایسے میں چند اردو کے شعراو ادباء کے ساتھ ساتھ یوسف خشک بھی اس خوفناک طوفان کے خلاف کمر باندھے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں اور طوفان کے رخ کو موڑ دینے کی آخری کوشش کررہے ہیں ۔مگر ایک حساس شاعر کا دل ملک کے حالات سے بے خبر کیسے رہ سکتا ہے ۔وطن کی قسمت اور اہل وطن کا مستقبل ان کے درپر دستک دے رہا ہے ۔ملک کی شرمناک پستی اور خواب غفلت میں پڑے سیاستداں،افسران اورعام لوگوں سے شاعر بیزاری کا مظاہرہ اور احتجاج کر رہا ہے ۔مگر اس کا دل تڑپتا ہے وہ ملک کو اس سنہرے خوابوں کی تعبیر بخشنا چاہتا ہے جو اس نے دیگر ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک میں دیکھے ہیں اوراس کے لیے موصوف عزم وحوصلہ کا درس دیتے ہیں ۔ انسان بغیر کسی مقصد حیات کے جی رہا ہے ۔اس میں خلوص واعتماد کی کمی ہے ۔اپنی تہذیب کا مذاق اڑاتے ہیں اور دوسروں کی تہذیب کی مداحی کرتے ہیں ۔اس کی نقل کرتا ہے ۔امارت پرستی کی طرف مائل ہے ۔مغربی تہذیب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اورجو ہمارے لیے مضر اور نقصاندہ ہے ۔پروفیسر یوسف خشک کو ادب میں مختلف ایوارڈ اوعزاز اور پرائزز مل چکے ہیں جو نہ صرف ان کے ملک کے لیے بلکہ بین الاقوامی سطح پر خاص اہمیت رکھتا ہے ۔انہوں نے اپنے ملک کے ایک عظیم فنکار کی حیثیت سے نام روشن کیا ہے ۔سر دست وہ شعبہ اردو شاہ عبدالطیف یونیورسٹی سندھ میں اردو زبان وادب کی خدمت،درس وتدریس کے ذریعہ انجام دے رہے ہیں اوردن بدن اپنے پیچھے اپنی یادو ں کے انمٹ نقوش چھوڑتے جاتے ہیں ۔ان کی تخلیقات روشن ستاروں کی طرح آسمان ادب پر جگمگاتی رہتی ہے ۔

شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور ،سندھ ،پاکستان بین الاقوامی سطح پر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اس کی اہم جو بات ہیں یونیورسٹی میں و علمی وتحقیقی ماحول اور درس وتدریس کے علاوہ ایک خاص سبب یونیورسٹی سے شائع ہونے والے اردو کے رسالہ’’الماس‘‘کی بین الاقوامی سطح پر مقبولیت اور افادیت ہے۔
رسالے اپنے سفر کے تیرہ برس طے کرچکا ہے اور کامیابی کے ساتھ نہ صرف شائع ہورہا ہے بلکہ قارئین کے سامنے نئے مواد مفاہم کے دروازے وا کرتا ہوا اردو شعروداب کی ترقی کا ضامن بنا ہے۔ان سب عوامل میں جس کی مثالیں حضرت انسانی کی کار فرمائی شامل ہے ۔وہ اس رسالے کے مدیر ڈاکٹر یوسف خشک جوکہ بذات خود ایک اچھے محقق ادیب اور شاعر ہیں ۔ان کی صحافت کا اندازہ اس رسالے کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے ۔جہاں اتنے کم عرصے میں رسالے نے اپنے اندر بہت سے تبدیلیاں کرتے ہوئے ترقی کی راہ طے کی ہے ۔

اس رسالے کا سب سے بڑا مادی پہلو یہ ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ یوروپ ،افریقہ اور امریکہ میں بھی دلچسپی سے پڑھاجا رہا ہے ۔مدیر کا بیان ہے کہ ہر سال رسالے کے قارئین میں بے حد اضافہ ہورہاہے جسکے لیے یونیورسٹی کاتعاون اور مجلس مشاورت کے قومی اور بین الاقوامی ارکان کو محنت اور شفقت شامل حال رہی ہے۔ الماس کے دستیاب شمارہ فہم کو بھی اگر صرف سامنے رکھیں تو اس کے سلسلے میں چند بنیادی امور پر گفتگو کی جاسکتی ہے اول تو یہ کہ رسالہ اپنے قارئین اور محققین کے ساتھ دنیائے ادب وزبان میں دلچسپی رکھنے والے تمام حضرات کویہ پڑھ کر یقینا خوشی ہوگی کہ رسالہ آن لائن شائع ہونے لگاہے۔ جوکہ پاکستان کی یونیورسیٹیوں سے شائع ہونے والے اردورسالوں میں پہلا Onlineجرنل ہے ۔ جس کو مندرجہ ذیل برقی پتہ پر دیکھا جاسکتا ہے ۔

www.Salu.edu.pk research publication journal almasالماس کے مضامین کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ دوسرے جریدوں کے مقابلے عام لوگوں سے ہٹ کر اس کے مضامین تحقیقی ہوتے ہیں جوکہ قاری کو نہ صرف مواد فراہم کرنے میں بلکہ ان کی ذہن سازی کے ساتھ بہتر سے بہتر کی تلاش کے نکلنے کی پیروی بھی کرنے میں مضمون نگار کو ہدایت ہوتی ہے کہ وہ اردو مواد کے ساتھ انگریزی کا خلاصہ بھی ساتھ بھیجیں جسے جریدہ مضمون کے آغاز میں شائع کرتا ہے تاکہ غیراردو داں طبقہ بھی رسالے میں شامل مضامین میں کیا کچھ ہے ۔خلاصہ کے مطالعے سے بآسانی جان سکتا ہے ۔ جس سے جریدہ کی قدر اور ارفادیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔

عصری تقاضے کے مطابق اردو ادب کو عالمی پیمانے پر پیش کیا جا رہا ہے ۔رسالے کے مدیر ڈاکٹر یوسف خشک کی کوشش ہوتی ہے کہ اردو ادب کی تمام اصناف شاعری ونثری ومضامین تحقیقی ایک رسالے میں یکجا کئے جائیں گے تاکہ ہر صنف سے دلچسپی رکھنے والے اور تحقیق وجستجو کرنے والے قارئین کی تسکین پوری ہوسکے۔تمام مضامین میں جو چیز قاری کو اپنی طرف کھینچتے ہیں وہ اس کا جریدے تقاضوں اور امکانات کے ساتھ ادب کے مختلف گوشوں سے وابستگی ہے۔نیا ادب کیا مطالبہ کررہا ہے اور ہمارے قلمکار کس حد تک اس پر کھرے اترنے جس کسی بھی مضمون کے مطالعے سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

’’الماس‘‘کے بین الاقوامی کردار کی وکالت میں یوں بھی صرف اس کے Sntineدستیابی کو بنیاد پر نہیں کردی ہے بلکہ اسکے مضمون نگار حضرات کی بڑی تعداد پاکستان سے باہر بین الاقوامی شہرت یافتہ ممالک کی ہوتی ہے جس سے کہ قاری اورقلمکار خواہ وہ کسی بھی خطے اور کسی بھی ملک کا ہو جریدہ سے اپنے آپ کو براہ راست جڑا ہوا پاتا ہے ۔ڈاکٹر محمد یوسف خشک کی کوشش اس وجہ سے بھی باعث تحسین ہے کیونکہ اردو کے رسالے میں چند مضامین ایسے شائع ہوئے ہیں جو کہ اردو سے متعلق ہوتے ہیں لیکن ان کی زبان انگریزی ہوتی ہے ۔اب یہ رسالہ نہ صرف بین الاقوامی رہ جاتا ہے بلکہ بین اللسانی بھی ہوتا ہے اسکے علاوہ لسانی طرز وفکر اور لغت سے متعلق کے مضمون بھی شامل کرتے ہیں تاکہ اردو کے ارتقاء اور دوسری زبانوں سے اسے تعلق اور رابطے کی پرکھ کی جا سکے ۔

نئے لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کے اعتراف میں اس رسالے میں چند مضامین ضرور شائع کئے جاتے ہیں دوسرے یہ کہ اگر کسی دیگر رسالے کا کوئی اہم خصوصی نمبر شائع ہوا ہے تو اس کی تفصیل ’الماس‘‘میں شائع کی جاتی ہے تاکہ اردو کے ودیگر رسالوں میں کیا کچھ اہم چیزیں شائع ہورہی ہیں ۔قاری کو پتہ چلتا رہے جس سے مدیر کی اردو دوستی کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔اردو کتب کا دیو اس رسالے کا اہم گوشہ ہے جس سے ایک اہم ادبی اور تحقیقی رسلہ کیونکر پیچھے رہ سکتا ہے ۔
اس رسالے کی ایک اہم توجہ طلب بات یہ ہے کہ اقتباسات سے متعلق مضامین اور مواد پر خصوصی توجہ دی جانی جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدیر نہ صرف یہ اردو شعروادب کی خدمت کررہے ہیں بلکہ قارئین کے درمیان اقبال کے فکر وفلسفے کی اپنے رسالے ’’الماس‘‘کے ذریعہ اشاعت بھی کررہے ہیں ۔مجموعی طور پر رسالے اپنے مضامین میں مدلل بحثوں کی طرف توجہ اور تحقیقی مزاج کی وجہ سے اردوکے دوسرے تمام اہم رسالوں میں اہمیت کا حامل ہے ۔اور کیونکہ کوئی بھی عمل اس کے کرنے والوں سے یہی ہوتی ہے ۔ڈاکٹر محمد یوسف خشک اپنی ہم جہت شخصیت اور مصروفیت کے باوجود جس طرح اس رسالے کی اشاعت میں اپنا خون جگر صرف کرتے ہیں اردو دنیا اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی ۔

ڈاکٹر محمد یوسف خشک اردو کے مرد مجاہدہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے قیام کے علاوہ علمی وادبی نگارشات کو منظر عام پر لانے کیلیے مستقبل تگ ودو کرتے رہے ہیں ۔یونیورسٹی کے انتظامی امور ڈاکٹر یوسف خشک کے مشورہ کی وجہ سے ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔خطہ سندھ جس کو آزادی کے 65سال کے بعد بھی دوسرے ریاستوں کے مقابلے امتیازی سلوک کا سامنا کرناپڑا ہے۔ایسے میں یوسف خشک نے سندھ کے ادب کو دریافت اوراس کی ادبی اورسماجی حیثیت کو پرکھنی کی کوشش کی ہے ۔اس کے ساتھ اس کی نظر ملکی اور بیرون ملکی امور پر ہے ۔

قومی شعور کے موضوع پر انعقاد 2008کے بین الاقوامی سمینارمیں میری شرکت پر موصوف سے میری ملاقات ہوئی ۔ جس میں انہوں نے مجھے شرکت کرنے کے لیے میری ضیافت میں راؤنڈ ٹرپ کے برقی ہوائی ٹکٹ عنایت کیا تھا اور کانفرنس کے دوران شاہ عبدالطیف یونیورسٹی سندھ کے اقامت گاہ میں میرا قیام رہا ۔دوران کانفرنس اعلیٰ درجے کی مہمان نوازی عنایت کی ۔ساتھ ہی ساتھ تین دن کے سمینار میں ادبی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا پورا پورا موقع عنایت فرما یا ۔یہی نہیں کانفرنس میں مدعو تمام مندوبین کو صوبہ سندھ کے تاریخی مقامات مثلاً موہن جودڑو ،خانقاہ سچل سرمست،بے نظیر بھٹو وغیرہ وغیرہ مقامات کی دیدار اور زیارت کروائی ۔اس ضمن میں مختلف جہات پر متعدد بار بر صغیر ہند-پاک کے ادبی، علمی،تاریخی،ثقافتی ، سیاسی ،معاشی وغیرہ موضوعات پر کھل کر بڑے خوبصورت اندازمیں بات چیت ہوئی ۔اس گفتگو کی روشنی میں ان کے خیالات کے حوالے سے کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ان کی سوچ ہے کہ ہندوستان کو پاکستان بنگلہ دیش سمیت ایشیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہئے اورجنوب ایشیائی ہونے کے ناطے ہمیں فخر کرنا چاہئے کہ تا کہ ہندو یا مسلمان یاہندوستانی اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی نئی پیڑھی جغرافیائی حدود کے تعصب، فرقہ واریت کو مٹا دے گی اور ہندوستان اور پاکستان خیالات کی سطح پر ایک ہوجائے گی۔ انہوں نے بٹوارے کے لیے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جگہ ونسٹن چرچل پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگرانگریز چاہتے تو بٹوارہ بچا جاسکتا تھا۔1940میں جو ہوا اسی کا نتیجہ 1947میں سامنے آیا ۔ انہوں نے مزید کہاکہ اگر بٹوارہ نہیں ہوتا تو جان مال کا بڑے پیمانے پر نقصان نہیں ہوتا ۔پروفیسر یوسف خشک بٹوارے کو بین الاقوامی پس منظر میں دیکھتے ہیں جس میں سامراج وادی طور طریقے کو اجاگر کرتے ہوئے بریٹش سامراج کو سیاسی اور منصوبہ بند فائدے واضح ہوجاتے ہیں ۔فرقہ وارانہ مسائل پر انہوں نے کہاکہ یہ مسئلہ بٹوارے کے دنوں کے پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ ان اساطیروں کو ہمں آپسی بھائی چارہ کے ذریعہ ختم کرنا چاہئے ۔جو دورے حاضر میں آپسی نفاق کا سبب بنا ہوا ہے ۔ تین دن کے دوران ان کے ساتھ گفتگو کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ برصغیر ہند-پاک کے ساتھ پوری دنیا میں امن امان قائم ہو۔ سارے ملک میں برادران اور دوستانہ تعلقات ہو ں اور انسانیت کو جنگ کی ہولناکیوں اور قدرتی آفات کی تباہیوں سے بچا یا جائے اور پسماندہ ممالک کی طرح مدد کی جائے ۔تاکہ وہ اپنے عوام کا معیار زندگی بلند کرسکیں۔ قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور مذہب ،زبان ،نسل یا جنس کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیاز نہ کیا جائے ۔ان مقاصد کے پیش نظر انہوں نے مشترکہ طور پر مل جل کر حکمت عملی تیار کرنے کا مشورہ بھی دیا ۔ساتھی ہی انہوں نے کہاکہ ہمارے ملکوں کے دستور میں ہر شہری کو مساوی حقوق دئیے گئے ہیں اوران میں مذہب ،ذات، جنس یا نسل کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں برتی گئی ہے ۔جن ذاتی ،شہری ،سماجی ،معاشی ،سیاسی اور تہذیبی حقوق کی تلقین اقوام متحدہ کے دستور میں کی گئی ہے ۔وہ سب ہمارے دستور میں بھی شامل ہے ۔لہٰذا ہمیں اس کی روشنی میں خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے آپس میں امن وامان کا موسم اور ماحول کو فروغ دینا چاہئے۔

جس سے ان کی سیاسی اور علمی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔سندھی ادیبوں اور شاعری کی دریافت ان کی بڑی کاوش ہے ۔ اس کے علاوہ ملکی اور بیرون ملکی سمیناروں اورکانفرنسوں میں شرکت کرکے اردو کو جدید تقاضوں کے مطابق سمجھنے اور سمجھانے کی وکالت کی ہے ۔ڈاکٹر یوسف خشک کے ادبی فنکار اردو ان کی تحریروں کو پڑھنے سے لگتا ہے کہ ان کی ہمدرد وہاں پاکستان کے ان خطوں سے والہانہ ہیں جن کولباس اور سماجی طور پر پسماندگی کا شکار ہونا پڑا ہے۔جن میں سندھ اور بلوچستان سرفہرست ہیں۔اس کے علاوہ ان کی معیار اور درس وتدریس کی جدید کاری کے بھی کوشاں رہیں اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے اردو شعروادب کی خدمت کرنے والے سچے معدود چند لوگوں میں ڈاکٹر محمدیوسف خشک کا نام عزت واحترام سے لیا جائے گا۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 132571 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More