جو بو ﺅ گئے وہی کاٹو گئے

وہ جیالے جھنوں نے اپنی ساری زندگی بھٹو ازم کے لئے وقف کی ہوئی تھی ان کےلئے پی پی پی کی حالیہ شکست ناقابلِ برداشت بنی ہو ئی ہے۔ایک خواب تھا جو چکنا چور ہو گیا ہے ایک امید تھی جس کا بڑی بے دردی سے خون کیا گیا ہے۔چالیس سالوں تک تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کی دنیا اجڑ گئی ہے وہ تہی دامن ہو گئے ہیں اور انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ جنگ جسے انھوں نے چار دہائیاں بڑی بے جگری اور جی داری سے لڑا تھا اس کا ا نجا م ایسا تلخ بھی ہو سکتا ہے؟ان کے سارے نظریات ان کے سارے خیالات، ان کے سارے تصورات ان کے سارے خواب اس بری طرح سے طوفانوں کی نذر ہوئے ہیں کہ ان کے پاس چیخنے چلانے کی قوت بھی باقی نہیں رہی۔ وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کیسا ہاتھ ہو گیا ہے ؟ذولفقار علی بھٹو کی قربانی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اگر نظریاتی شکست ہی مقدر بننی تھی تو پھر اتنی طویل مسافت کیوں طے کی گئی؟نہ نظام بدلا ،نہ منظر بدلا،نہ لوگوں کا مقدر بدلا،نہ غریبوں کا مستقبل سنورا، نہ محروم وں کو ان کا حق ملا اور نہ مجبوروں کے ساتھ انصاف ہو سکا تو پھر زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعروں کی حقیقت کیا ہے؟وہ جنگ جسے عوام کی جنگ کا نام دیا گیا تھا اس جنگ کا ثمر سٹیٹسکو نکلا ہے ؟ جیالوں کی ساری قربانیاں کیا کسی کے ذاتی اقتدار کی خا طر تھیں یا ان کا مقصد معاشرے کے ڈھانچے کو بدلنا تھا؟بادی النظر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ بھٹو کے نام کو اپنے اقتدار کےلئے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جا تا رہا ہے اور ذاتی اقتدار کے مزے لو ٹنے کےلئے جئے بھٹو کے نعرے بلند کئے جا تے رہے ہیں ۔بھٹو کیا چاہتا تھا اس کا پروگرام کیا تھا اس کے مقاصد کیا تھے اس کی آرزوﺅں کیا تھیں، اس کی تمنائیں کیا تھیں اور اس کے دل میں کن طبقات کی محبت موجیں مار رہی تھی اسے پسِ پشت ڈال دیاگیا ۔ بھٹو کی مقبولیت کو ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس نعرے کی اوڑھ میں ذا تی اقتدار، ذاتی مناصب،ذاتی مفادات اور ذاتی جا ہ وجلال کا حصول مقصدِ زیست بنا یا گیا لیکن عوام نے اس سوچ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔

عوامی راج اور عوامی حاکمیت کا وہ تصور جس کےلئے پی پی پی 30 نومبر 1947 کو قائم کی گئی تھی اب خو اب وخیال ہو گیا ہے۔ وہ سارے طبقے جن کی امیدیں پی پی پی کے ساتھ وابستہ تھیں اب بے آسرا ہو گئے ہیں۔ کون انھیں دلاسہ دے گا؟کون ان کی ڈھارس بندھائے گا ؟ کون ان کی شکستہ ا آرزوﺅں کو زبان عطا کریگا ؟ کون انھیں یقین دلائےگا کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے جمہوریت نواز حلقے ان کے ساتھ ہیں اور ان کی جمہوی جدو جہد اور ان کے حقوق کی باز یابی کی جنگ میں ان کے شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہوں گئے اور انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گئے۔آصف علی زرداری کے زیرِ قیادت پی پی پی نے تو ان سے وفا نہیں کی ،ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا بلکہ انھیں بے آسرا چھوڑ دیاہے کیونکہ بھٹو کی پی پی پی پر جاگیر داروں،وڈیروں اور سرمایہ داروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ پی پی پی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کی اکثریت کا تعلق اسی طبقے سے ہے جن کے خلاف پی پی پی تشکیل دی گئی تھی لہذا یہ گمان کرنا کہ پی پی پی محروموں کی جنگ کا علم پھر اٹھا ئےگی کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ عوام کو بے رحم گروہوں کے حو الے کر دیا گیا ہے جن کا واحد مقصد اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور عوام کو بے یارو مددگار چھوڑنا ہے۔ ذ ولفقار علی بھٹو کی قیادت میں پی پی پی نے غریبوں کو عزتِ نفس دی تھی جسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے لہو سے روشن کیا تھا اور یہ ا نہی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ کئی عشروںتک عوام دشمن قوتیں باہم یکجا ہو کر بھی پی پی پی کی محبت کو عوام کے دلوں سے محو نہ کر سکیں ۔بھٹو خاندان کی رخصتی کے بعد پی پی پی عوامی رابطے کی بجائے ڈرائنگ روم کی جماعت بن گئی جس کا عوام سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں تھا ۔یہ ساٹھ کی دہائی کی سیاست تھی جسے ذ ولفقار علی بھٹو نے عوامی سیاست کے بم سے بھک سے اڑا دیا تھا لیکن ستمم ظریفی کی انتہا تو یہی ہے کہ وہ سیاست جسے پی پی پی نے خود دفن کیا تھا اس کو زندہ بھی پی پی پی نے ہی کیاہے۔عوام سے بے اعتنائی اور ان کے مسائل سے چشم پوشی پچھلے پانچ سالہ دورِ حکومت کا وہ تحفہ ہے جس سے پی پی پی عبرتناک شکست سے دوچار ہو ئی ہے ۔۔

آ مریت کے دورِ حکومت میں اگر عوام پر عرصہِ حیات تنگ کیا جا تا ہے تو اس کی سمجھ آتی ہے کہ آمروں کا عوام سے براہِ راست کوئی تعلق واسطہ نہیں ہو تا لیکن اگر جمہوری حکومتیں بھی اسی طرح کی روش کا مظاہرہ کرنے لگ جائیں اور عوام سے دوری کو اپنا شعار بنا لیں تو پھر عوام کا اللہ ہی حا فظ ہوتا ہے۔ عوام اس طرح کے رویوں پر جسطرح کے ردِ عمل کا مظا ہرہ کرتے ہیں اس سے بڑے بڑے سیاست دانوں کی کھٹیا کھڑی ہو جاتی ہے،ان کی قیادت کا سارا بھرم ہوا میں تحلیل ہوجا تا ہے اور انھیں اپنی شکست کی حفت مٹا نے کےلئے کئی جھوٹے بہانے اور جواز گھڑنے پڑتے ہیں حالانکہ سچ یہی ہوتا ہے کہ عوام نے ان کے اندازِ سیاست کو ٹھکرا دیا ہو تا ہے اور ان سے اپنی بے زاری کااظہار کر دیا ہوتا ہے۔ 2013۲ کے انتخابات بھی اسی نوعیت کے تھے جس میں عوام نے پی پی پی کے غیر عوامی اندازِ حکومت کورد کر دیا تھا اور انھیں یہ پیغام دیا تھا کہ عوام کو نظر انداز کرنے کی سزا بڑی بھیانک ہوتی ہے۔سیاستدان اپنے زعمِ سیاست میں ہوا میں اڑتے رہتے ہیں اور اقتدار کے نشے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔وہ عوام کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں اور انھیں خود سے کمتر اور حقیر سمجھ کر فاصلہ بنائے رکھتے ہیں اور اس فاصلے کو سیکور ٹی کا تقاضہ قرار دے لیتے ہیں۔وہ اپنے اس استدلال اور بھونڈی منطق پر عوام کو بیوقوف بنانے کی جو کوشش کرتے ہیں عوام اسے مسترد کر دیتے ہیں ۔وہ بزعمِ خویش یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ عوام پر ان کی اس بے اعتناعی اور عوام فراموشی کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ پہلے کی طرح ہی انھیں عزیز رکھتے ہیں اور ان کےلئے دل میں محبت رکھتے ہیں اور جب بھی انتخابات کا انعقاد عمل میں آئےگا ان پر ووٹوں اور نوٹوں کی بارش کر دیں گئے ۔وہ عوام کو ان بھیڑ بکریوں کی طرح تصور کرت ہیں جو قطار اندر قطار ایک دوسری کے پیچھے چلتی رہتی ہیں۔ان کی اس غیر عوامی اور غیر سیاسی سوچ کو اس وقت دھچکہ لگتا ہے جب انتخابات میں ان کی جماعت کہیں گم ہو جاتی ہے اور انھیں یقین نہیں آتا کہ کل تک ان کے دروازے پر اذنِ ملاقات کےلئے بھیک مانگنے والے عوام ان کے ساتھ کوئی بڑا ہاتھ کر جا ئیں گئے لیکن حقیقت میں ایسا ہو چکا ہوتا ہے۔ جیسا بوﺅ گے ویسا کا ٹو گئے حقیقت بن چکا ہوتا ہے لیکن اپنا بھرم رکھنے کےلئے پھر بھی عالمی اسٹیبلشمنت اور جنات کو اپنی شکست کا ذمہ دار گردانتے ہیں ۔۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ۴ اپریل 1979 کو جنرل ضیا ا لحق کے ہاتھوں پھانسی پانے والے ذ ولفقار علی بھٹو کا اصلی قتل ۱۱ مئی 2013 کو ہوا ہے اور اس کی ذمہ داری پی پی پی کی موجودہ قیادت پر ہے جس کی وجہ سے پی پی پی کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ پی پی پی کی قیادت کو اس شکست کا کتنا صدمہ ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جیالوں کی دنیا اندھیر ہو گئی ہے۔وفاق کی وہ جماعت جسے چاروں صوبوں کی زبجیر کہا جاتا تھا اب ایک صوبے میں مقید ہو گئی ہے۔اس کی حا لت کے ذمہ داروں کے بیانات میں نہ تو کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی کوئی پچھتاوا ہے ۔وہ صوبہ سندھ کی فتح کو اپنی کار کردگی کا ثمر کہہ کر خود کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں جو کہ بالکل جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔یہی ہیں وہ خوشامدی لوگ ہیں جن کی اس طرح کی سوچ کی وجہ سے پی پی پی کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔ایسے لوگوں کوصرف اور صر ف اپنے ااقتدار سے دلچسپی ہوتی ہے اور اس کے حصول کےلئے قیادت کی خوشامد پہلی سیڑھی ہوتی ہے اور وہ اسی سیڑھی کا بھر پور استعمال کر کے اپنے اقتدار کو پکا کرنے کا فن خوب جانتے ہیں ۔ بائیں بازو کے ایک سچے علمبردار اور ذ ولفقار علی بھٹو سے عقیدت رکھنے والے ایک نامور کالم نگار منو بھائی کے 15 مئی کو لکھے گئے کالم (توقعات اور مایوسیاں) پر اپنے کالم کا اختتام کرو ں گا کیونکہ منو بھائی کے خلوص پر کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔۔(تھوڑی زیادتی تو ضرور ہو گی مگر یہ کہنا بھی کچھ زیادہ غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف جنرل ضیا الحق اور ان کا مشن جاری رکھنے والے رفقائے کار ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی سے بے نظیر بھٹو کی شہادت تک بسیار کوششوں کے باوجود وہ کچھ نہ کر سکے جو اس کی اپنی قیادت نے پانچ سالوں میں کچھ نہ کر تے ہوئے کر دکھایا ہے۔۔) ،،،،،،،،،،،

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 517012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.