تاریخِ عالم اس بات کی گواہ ہے کہ مصر پر آمریت نے ہمیشہ
اپنے پنجے گاڑھے رکھے ہیں اور اس میں اسلام یا قبل ازاسلام کی کوئی تخصیص
نہیں ہے۔ آمروں کے پنجہِ استبداد میں تڑپتے رہنا مصر ی عوام کے مزاج کا حصہ
بن چکا ہے ۔ دنیا کے ہر بڑے فاتح نے مصر کو فتح کیا جس میں سکندرِ اعظم،
جولیس سیزر، نپو لین بونا پارٹ، تیمور لنگ اور عمر بن العاص بڑے نمایاں ہیں۔
یہ وہی دھرتی ہے جس پر شاہِ فاروق نے اپنی شہنشائیت قائم کر رکھی تھی،عوام
کو اپنا غلام بنا یا ہوا تھا اور کسی کو اس کے جبر کے سامنے زبان کھولنے کی
اجازت نہیں تھی۔اس کی شہنشا ئیت کا طوق ا گلے سے اترا تو ایک اور آمر اس کا
منتظر تھا۔اس نے عرب نیشنل ازم کے نعرے میں مصری عوام کو یرغمال بنا یا اور
یہ جمہوری آمریت اس کی موت تک قائم رہی۔ مصری عوام کے ساتھ آسمان سے گرا
کھجور میں اٹکا والا معاملہ ہے کیونکہ ایک آمر کی رخصتی کے بعد اس سے بد تر
آمر اپنی حاکمیت کا ڈنکا بجا دیتا ہے۔جمال عبدا لناصر کے بعد انور سادات
اور حسنی مبارک مصری قوم کا مقدر بنے اور مصری عوام کی خوب درگت بناتے
رہے۔فرعونوں کی اولاد ہونے کا دعوی کرنے والی قیادت سے اسی بات کی توقع کی
جا سکتی تھی کہ وہ مصری عوام کو اسی طرح غلام بنا کر رکھے جیسے فرعون نے
بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا اور انھیں کسی بھی قیمت پر رہائی
دینے کیلئے آمادہ نہیں تھا۔فرعون کے پنجہ اتبدادا سے رہائی دلوانے کیلئے
حضرت موسی کا ظہور ہوا تھا لیکن موسی روز روز تو پیدا نہیں ہوتے لہذا آمریت
کی رات طویل ہو جاتی ہے۔ جمال عبدالناصر دوسرے آمروں سے اس لحاظ سے زیادہ
نمایاں تھے کہ وہ شہنشائیت کو بچھاڑ کر اقتدار کی مسند پر بیٹھے تھے اور
عوام کو ان سے بیشمار توقعات تھیں لیکن ان کی شخصیت نے عوام کوا ختیارات
دینے کی بجائے انھیں اپنا غلام بنا لیا جس کے خلاف اخوان المسلمون نے بھر
پور احتجاج کیا۔ان کے اس احتجاج کو جس بے رحمی سے کچلا گیا اس کی مثال ملنا
بھی ممکن نہیں ہے۔سید قطب شہید اور حس البناء اور ان کے رفقائے کار کو جس
بیدردی سے راستے سے ہٹا یا گیا وہ ایک علیحدہ خو نچکاں داستان ہے اور
سفاکیت کی بد ترین مثال ۔اپنے قائدین کی قربانیاں دینے کے باوجود اخوا ن
المسلمون نے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا۔وہ جبر و استبداد میں بھی زندہ
رہی اور آمریتوں کا ظلم و ستم بھی اس کے فکری سفر کو ختم نہ کر سکا۔فکر
جوان اور قوی ہو تو ساحل پر پہنچنے کی خواہش ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور اخوا ن
المسلمون کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا تبھی تو وہ نامساعد حا لات میں
بھی اپنا بقا کو یقینی بناتی رہی ۔ ہر حکومت نے اخوا ن المسلمون کی
سرگرمیوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندیاں لگا دیں
اور یوں ان سے احتجاج کا جمہوری حق سلب کر لیا گیا جس کے بعد ان کے پاس
جمہوری جدوجہد کی ہر راہ مسدود ہو گئی لیکن انھوں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری۔
انھوں نے ہر قسم کے جبر میں بھی خود کو متحد رکھا اور ریاستی جبر کے باوجود
اپنے نظریات پر کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار کر دیا۔طوفانوں میں شمع جلا نا
بڑے جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے لیکن اخوا ن المسلمون نے کئی عشروں تک یہ
شمع جلا کر ثابت کیا ہے کہ انھیں اپنے نظریات اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں
اور نظریات کی صداقت کی خا طر وہ موت کو بھی گلے سے لگا سکتے ہیں۔۔
تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار نے مصری حکومت کے ایوانوں میں بھی لرزہ
طاری کر دیااور اخوا ن المسلمون کو اس عوامی لہر کا فائدہ اٹھا نے کا موقع
مل گیا۔لوگ پہلے ہی حکومت سے نالا ں اور تنگ تھے اور وہ کرپٹ اور جابر
حکمرانوں سے نجات چاہتے تھے لیکن انھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دیر ہی تھی
کیونکہ آمر یت نے ہر سو اپنے پنجے گاڑھے ہوئے تھے۔ اخوا ن المسلمون کی
جراتوں نے مصری عوام میں تبدیلی کی ایک نئی روح پھونکی اور انھیں حسنی مبار
ک کی سفاکیت کے سامنے ڈٹ جانے کا عزم عطا کیا ۔تحریر چوک دنیا میں جمہوری
آزادیوں کی نئی علامت بن کر سامنے آیا ۔لاکھوں لوگوں کے اجتماع نے ایک
مہینے میں حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کا محل یوں زمین بوس کر دیا کہ
دنیا ششدر رہ گئی ۔کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حسنی مبارک جیسا آمر یوں
بے بس ہو جائیگا، اسے عوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گئے۔حسنی مبارک
کو مستعفی ہو کر نئے انتخا بات کے لئے راستہ ہموار کرنا پڑا۔ آمریت کے زیرِ
عتاب رہنے اور عوامی ھاکمیت کی جنگ لڑنے کی وجہ سے اخوا ن المسلمون ایک بڑی
قوت بن کر ابھری۔عوام کی اغلب اکثریت نے ان کی نئی جمہوری سوچ یک کا ساتھ
دیا اور انتخابات میں انھیں مکمل کامیابی سے ہمکنار کیا۔ایک زمانے کی معتوب
جماعت کا یوں اچانک فتح یاب ہو جانا عالمی طاقتوں کو گوارا نہیں تھا لیکن
اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا لہذا ان نتائج کو قبول کر لیا گیا
۔رہی سہی کسر صدارتی انتخابات نے پوری کر دی جس میں اخوا ن المسلمون کے
نامزد امیدوار محمد مرسی واضح اکثریت سے مصر کے صدر منتخب ہو گئے اور یوں
سالہا سال کا جبر اپنے انجام کو پہنچا ۔محمد مرسی کی فتح مغربی طاقتوں کو
کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھی کیونکہ اس فتح سے اسلامی انقلاب کی بو آرہی
تھی۔اسلامی انقلاب کا نام تو مغربی طاقتوں کے لئے سب سے ڈر اؤنا نام ہے اور
وہ اس نام کو کسی بھی صور ت میں سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ا فغانستان اور
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد مغربی دنیا کا اسلامی انقلاب کے نام سے خوف
زدہ ہونا سمجھ میں آتا ہے لہذا وہ اس طرح کاخطرہ کسی بھی دوسرے ملک میں مول
لینے کی سکت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ محمد مرسی کی حکومت کے خلاف سازشوں
کا جال بھنا جانا شروع ہو گیا تاکہ اس انقلاب کو یہی پر روک دیا جائے۔۔
حسنی مبارک ابھی مرا نہیں زندہ تھا اور سازشوں کا گھڑ تھا لہذا دولت کے بل
بوتے پر اس نے محمد مرسی کے چند اقدامات کے خلاف اپنے حواریوں کو اکٹھا کیا
اور امریکی اشارے پر عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ مرسی حکومت کا
خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔اس میں اسے کامیابی نصیب نہ ہو سکی تو اس نے اپنی
وفا دار فوج کی مدد سے محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کا راگ الا پا اور یوں
ایک فوجی مداخلت کے نتیجے میں محمد مرسی کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر ایک
عبوری حکومت قائم کر دی گئی جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وزارتِ عظمی
پر فائز کر دیا گیا تاکہ عدلیہ کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا جا سکے لیکن
عوام نے اس تماشے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس سے پورے ملک میں احتجاج
اور ہنگاموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔اگر انتخا بات
کے بعد یہی ڈرامہ رچانا تھا تو پھر انتخابات کا ڈول کس لئے ڈالا تھا ؟کیا
کسی ملک میں ایسے بھی ہوتا ہے کہ انتخابات جیتنے والی کسی جماعت کو یوں
اقتدار کے ایوانوں سے فوجی طاقت سے بے دخل کر دیا جائے؟ اگر یہی کچھ کرنا
تھا تو پھر انتخابات چہ معنی دارد ؟انتخابات کا مقصد ایک مقررہ مدت تک
جیتنے والی جماعت کو اقتدار کی مسند پر بٹھا نا ہوتا ہے اور جیتنے والی
جماعت کو اس بات کا آئینی اور قانونی حق ھاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت
پوری کرے لیکن مصر میں اس آئینی تقاضے کو پسِ پشت ڈال دیا گیا کیونکہ یہ
مغربی طاقتوں کے حق میں نہیں تھا۔مغربی طاقتوں کو اخوا ن المسلمون سے سخت
تحفظات تھے اور ان تحظات کا تقاضہ تھا کہ ساری جمہوری بساط ہی لپیٹ دی
جائے۔اگر میں یہ کہوں کہ پوری اسلامی دنیا فوجی جنتا کی بے پناہ قوت سے خوف
کا شکار ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔فوجی جنتا جب چاہتی ہے اقتدار پر قبضہ کر
لیتی ہے۔پاکستان میں بھی اس فوجی شب خون سے خوف کی فضا طاری ہے کیونکہ
انھیں ڈر ہے کہ مصری ڈرامے کو ایک دفہ پھر پاکستان میں نہ دہرا دیا جائے ۔ہماری
تاریخ مصر ی تاریخ سے مختلف نہیں ہے۔ لہذا خوف زدہ ہونا بنتا ہے ۔پاکستان
میں وقفوں وقفوں سے مارشل لا لگتے رہے ہیں اور جمہوری حکومتوں کی بساط
لپیٹی جاتی رہی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری
ملک امریکہ نے ان شب خونوں کو شرفِ پذہرائی عطا کیا کیونکہ اسکے اپنے
مفادات ان شب خونوں سے منسلک تھے۔سارے جر نیل امریکہ کے ساتھ ساز باز کر کے
آتے ہیں اور امریکی مفادات کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں ۔اپنے نمک خواروں کی
اقتدار تک رسائی کیلئے امریکہ نے جمہوری اور غیر جمہوری کی تحصیص بھی ختم
کر رکھی ہے جس سے دنیا میں عوامی حقوق پر شب خو نوں کی تاریخ رقم ہوتی رہتی
ہے جواس بات کا اعلان ہے کہ یہ دنیا اصولوں کی دنیا نہیں رہی بلکہ مفادات
کی دنیا کا روپ دھار چکی ہے۔(جاری ہے) ۔ |