کوہسار بالخصوص سرکل بکوٹ کی معلوم تاریخ سے جمہوری اقدار
اور روایات پر یقین رکھنے والا خطہ ہے،گکھڑوں کو جب اس علاقے کا محمود
غزنوی نے مالک بنایا تو ایرانی اور افغانی نظام حکومت کے زیر اثر یہاں کے
کوٹوں (قلعوں)میں پہلے پہل دیوان بنائے گئے مگر ان کی افادیت کی وجہ سے بعد
میں انہیں دیہات تک وسیع کیا گیا، یہ دیوان آج کی یونین کونسل کی حیثیت
رکھتے تھے، 1800 میں گکھڑوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سکھوں کے کنٹرول میں
آ گیا اور پھر ان کے ظلم و ستم کے ستائے لوگوں نے 1848میں انگریزوں کے
پنجاب اور ہزارہ پر قبضہ کے بعد اس سے نجات پائی، انگریزوں نے اس علاقے میں
جدید جمہوری عمل کا آغاز 1935کے آئین کے بعد ہی کیا، تاریخ تناول کے
مطابق8مئی 1936میں سرحد قانون ساز اسمبلی کے پہلے انتخابات میں سرکل بکوٹ
اور سرکل لورہ بشمول گڑھی حبیب اللہ سے مسلم لیگ کے سردار خان بہادر خان،
آل انڈیا ڈیموکریٹک پارٹی کے راجہ عبدالرحمان آف لورہ، کانگریس کے پیر
محمد کامران آف رجوعیہ، خاکسار تحریک کے عظیم خان کڑرال، ھندو سکھ نیشنلسٹ
پارٹی کے رائے بہادر لالہ ایشرداس آف نواں شہر جبکہ سیری لورہ کے سردار
محمد صادق خان اور ایبٹ آباد سے رائے صاحب پرمانند نے حصہ لیا، ان
انتخابات میں تحصیل ایبٹ آباد کے حلقہ میں کل تین ہزار ووٹ پول ہوئے جبکہ
مسلم لیگ کے خان بہادر خان نے 580ووٹ کی لیڈ سے یہ انتخابات جیت لئے، ان
انتخابات میں ووٹر کیلئے ضروری تھا کہ وہ پرائمری پاس ہو مالیہ دے رہا ہو
اور سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو، انتخابات میں بیروٹ اور بکوٹ کا ایک ہی
پولنگ سٹیشن تھا اور وہ گڑھی حبیب اللہ میں تھا۔سرکل بکوٹ کے دوسرے
انتخابات 1946میں ہوئے جس میں سردار خان بہادر خان (مسلم لیگ) اور عظیم خان
کڑرال (خاکسار تحریک) میں ون ٹو ون مقابلہ ہوا اور لیگی امیدوار سردار خان
بہادر خان نے عظیم خان کو 6ہزار 9سو88ووٹ لیکر شکست دی، تاریخ تناول کے
فاضل مصنف کا کہنا ہے کہ عظیم خان پورے حلقہ سے صرف 559ووٹ لے سکے۔
1952 میں قیام پاکستان کے بعد پہلے انتخابات ہوئے جن میں سرکل بکوٹ اور
سرکل لورہ کے حلقہ سے مسلم لیگ کی طرف سے حضرت پیر عقیق اللہ بکوٹیؒ اور
آزاد امیدوار سردار حسن علی خان میں مقابلہ ہوا جس میں حضرت پیر عقیق اللہ
بکوٹیؒ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، ان انتخابات میں خاص بات یہ
تھی کہ سرکل بکوٹ کے عوام نے حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ پر اپنے بھر پور
اعتماد کا اظہار کیااور انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دیا، اس موقع پر شاعر
کوہسار حضرت مولانا میاں محمد یعقوب علوی بیروٹویؒ نے ایک نظم"فقرو سلطانیت
کا معرکہ" کے عنوان سے لکھی، قارئین کی دلچسپی کیلئے اس کے چند شعر پیش
ہیں۔
حسن علی خان اُدھر ہیں اورعقیق اللہ ادھر
ہے اُدھر سیاست پرستی، دین کا فیضان ادھر
اُس طرف انسانیت مجروح و پامال و ذلیل
احترام و عزت انسانیت یکساں ادھر
اُس طرف جذبات سفلی پر مدار زندگی
زندگی تا بندگی از جرئات ایماں ادھر
ہے مسلط اُس طرف ذہنوں پہ شوق لیڈری
خدمت اسلام و مسلم کا جنوں پنہاں ادھر
اُس طرف ہیں بندگان زر قطار اندر قطار
اتباع و مرکزیت، قوم پاکستاں ادھر
خادمان ملت اسلامیہ را نیست غم
حضرت بکوٹیؒ و خواجہ فاراںﷺ ادھر
معرکہ آراء ہوئی سُلطانیت پھر فقر سے
اے خدا نظر عنایات و کرم احساں ادھر
سردار حسن علی خان بکوٹ سکول کے پہلے طالب علم بھی تھے اور انہوں نے 1946کے
انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔
مئی 1963میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے انتخابات کا اعلان کیا ، جس میں سردار
عنائت الرحمان نے بھاری اکثریت سے اپنے سیاسی حریفوں کو بچھاڑا اور مغربی
پاکستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر ہوئے، ان کے عہد میں سرکل بکوٹ اور
سرکل لورہ کو حقیقی معنوں میں ترقی ملی، اپر دیول کوہالہ روڈ کی تعمیر و
تکمیل، بیروٹ، بکوٹ،ایوبیہ، لورہ اور دیگر علاقوں میں تعلیم، صحت، مواصلات
اور باغبانی میں سنگ میل عبور کئے گئے، سوار گلی بوئی روڈ کی پہلی
فیزیبیلیٹی رپورٹ بھی اسی عہد میں تیار کی گئی تا ہم اس پر عمل در آمد نہ
ہو سکا، 1970کے انتخابات میں سردار عنائت الرحمان عباسی سرکل بکوٹ اور سرکل
لورہ سے کامیاب ہوئے ، اسی دوران بیروٹ کے راجہ حیدر زمان سمیت مولانا
عبدالہادی علوی ، گلزار خان اور بہت سارے دیگر افراد نے پیپلز پارٹی کی
سرکل بکوٹ میں مقبولیت میں اضافہ کیا، 1977کے انتخابات میں سرکل لورہ اور
سرکل بکوٹ کو علیحدہ کر کے دو الگ حلقے نائے گئے،اس حلقہ سے اقبال خان جدون
ایم این اے منتخب ہوئے جبکہ صوبائی نشست پر سردار گلزار خان کامیاب ہوئے
مگر پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجے میں 5جولائی 1977کو جنرل ضیاء
الحق نے بھٹو حکومت کی بساط کو لپیٹ کر قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں و
توڑ دیا اور پھر سانحہ بہاولپور کے نتیجے میں زمین اور آسمان کے درمیان
خود تحلیل ہونے تک مزے سے حکومت بھی کی اور طالبان جسا عذاب پاکستان کو
ورثے میں دیدیا۔
1985میں صدر جنرل ضیاء الحق نے غیر سیاسی الیکشن کی داغ بیل ڈالی، اس
الیکشن نے سرکل بکوٹ کی کایا ہی پلٹ دی، پرانا سیاسی سٹائل، ڈرائنگ روم کی
سیاست، رقعہ پر ووٹ کی طلب، سیاسی ٹھیکیداری نظام، ایبٹ آبادی امیدواروں
کی سرکل بکوٹ پر حکمرانی اور سرکل بکوٹ کے ہوتروں تک پانی کی فراہمی سمیت
بہت کچھ بدل گیا، ایک امید کی کرن نمودار ہوئی، سرکل بکوٹ بھر کے عوام نے
ایک فیصلہ کیا اور یونین کونسل پلک ملکوٹ کے ایک متوسط گھرانے کے ناکام
وکیل مگر پاکستانی سیاست کے کامیاب ترین بادشاہ گر کے حق میں فیصلہ دیا، یہ
شخص سردار مہتاب احمد خان تھا پھر اس کو مسلسل 29X2 برسوں تک قیادت کی
دستاراس کے سرپر پہنائے رکھی مگر جب اس کے کارندے، ذیلی گورنر اور وزرائے
اعلیٰ نے پھر ایک ٹھیکیداری نظام قائم کر کے عوام کو در در کی خاک چھاننے
پر مجبور کیا تو وہی سردار مہتاب کے دیوانے اور پروانے حقیقت آشنا ہو کر
کچھ اور فیٖصلہ کر بیٹھے اور سردار مہتاب کو پہلی بار قومی اسمبلی سے باہر
کر دیا۔
1985کے الیکشن میں سردار مہتاب خان نے سردار گلزار خان، صاحبزادہ اظہر
بکوٹی اور ملک عبدالرئوف سمیت متعدد امیدواروں کے مستقبل پر سیاہی پھیر کر
صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کی، سردار مہتاب خان نے 1988کے الیکشن میں
آذاد امیدوار کی حیثیت سے 15,803، 1990میں آئی جے آئی کے قومی امیدوار
کی حییثیت سے پہلی بارساڑھے 64ہزار اور صوبائی امیدوار کی حییثیت سے
20ہزار، 1993میں پہلی بار مسلم لیگ کے قومی امیدوار کی حییثیت سے 55ہزار
ذائد اور صوبائی امیدوار کی حییثیت سے 20ہزار سے زائد، 1997 میں بھی سردار
مہتاب نے قومی اور صوبائی کے انتخابات میں میدان مار لیا اور بعد میں قومی
کی نشست چھوڑ کر صوبہ سرحد کے سرکل بکوٹ سے پہلے وزیر اعلیٰ بنے مگر یہاں
بھی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا اور سردار مہتاب پس دیوار زندان
چلے گئے، راقم الحروف اپنے کچھ ساتھیوں سمیت جب اٹک قلعہ میں سرکل بکوٹ کے
اس مرد با ضمیر سے ملا تو وہ شکوہ کناں تھا کہ ''پورے سرکل بکوٹ میں اس
کیلئے کیا ایک بھی احتجاج کرنے والا نہ تھا حالانکہ میں نے ان کیلئے کیا
کچھ نہیں کیا؟'' اسی عرصہ میں سردار مہتاب بھی خون دینے اور چوری کھانے
والے اپنے مجنوئوں سے اس وقت با خبر ہوا جب مسز سردار مہتاب کو اپنے مجازی
خدا سے ملنے اٹک قلعہ جانا ہوتا اور اس ناتواں خاتون کو سرکل بکوٹ کے نون
لیگیوں میں سے کوئی بس پر سوار کرنے کیلئے بھی روادار نہ تھا کہ کہیں وہ
سرادر مہتاب کے عشق میں خود اٹک قلعہ نہ پہنچ جائیں، 2002 کے انتخابات میں
قومی اسمبلی کی نشست پر امان اللہ خان جدون جبکہ صوبائی پر سردار مہتاب کے
بہنوئی سردار ممتاز منتخب ہوئے، انہوں نے 14073ووٹ لئے ان کے قریبی حریف
عبدالرحمان عباسی تھے جنہوں نے 9624ووٹ لئے تھے، 2008میں حلقہ کا نمبر 11سے
NA-17ہو گیا اس بار بھی سردار مہتاب نے قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر
کامیابی حاصل کی مگر ضمنی انتخابات میں اپنے دوسرے نمبر کے جواں سال
صاحبزادے سردار شمعون کو اتارا، ووٹروں نے آنکھیں بند کر کے اسے بھی سردار
مہتاب سمجھ کر منتخب کیا مگر شمعون کی حلقہ میں ساری سرگرمیاں اپنے حامیوں
کی ماتم داری اور شادیوں میں نو شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ فوٹو سیشن سے آگے
نہ بڑھ سکیں، نون لیگی ہٹو بچو گروپ بس او کے کی رپورٹ دیتا رہا جبکہ اس
عرصہ میں مخالفین تو ایک طرف خود نون لیگی بھی خود کو سیاسی یتیم تصور کرنے
لگے مگر 2013 کے الیکشن میں انہی محرومیوں، عوامی مسائل سے بے غرضی اور
نادانیوں نے سردار مہتاب کی 27X2 سالہ سیاسی محنت اور مستقبل پر سوالیہ
نشان لگا دیا اور سردار مہتاب اپنے سیاسی کیرئر کے اڑھائی عشروں میں ڈاکٹر
اظہر جدون سے لگ بھگ 27ووٹوں کی لیڈ سے پہلی بار شکست کھائی جبکہ صوبائی
نشست 27806ووٹ لیکر حاصل کی مگر سردار مہتاب خان کیلئے یہ نشست ہیچ تھی،
انہوں نے کے پی کے اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف ہونے کے باوجود صرف
ایک بار شرکت کی، اب وہ اس صوبے کے گورنر ہیں مگر آئینی طور پر اپنے حلقے
کے انتخابات سے لا تعلق بھی، ان کا یہ عہدہ سرکل بکوٹ کے لئے صرف ایک اعزاز
ہے ورنہ اس عہدہ کی افادیت سرکل بکوٹ کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔
اب جبکہ ضمنی انتخابات ہونے میں ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا ہے اور اس اہم صوبائی
نشست پر اصل مقابلہ سردار مہتاب کے فرسٹ کزن فرید خان اور 1977میں بھٹو کو
کوہالہ پل پر لٹکانے کا دعویٰ کرنے والے ائر مارشل (ر) اصغر خان کے نازوں
پلے علی اصغر خان کے درمیان ہے، سٹریٹ پاور کی حامل اور گزشتہ انتخابات میں
ساڑھے پانچ ہزار سے زائد ووٹ لینے والے سعید عباسی کی جماعت اسلامی نے بھی
علی اصغر کی حمایت کر دی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کیا سرکل بکوٹ میں
برادری ازم تحریک انصاف کی مزاحمت نہیں کرے گا؟ کیا تحریک انصاف کا ناراض
سرکل بکوٹ گروپ انتخابی نتائج کو ڈسٹرب نہیں کرے گا؟ اگر فرید خان صوبائی
اسمبلی میں پہنچے تو وفاق کے بعد صوبے میں سرکل بکوٹ اپوزیشن میں ہونے کے
باعث خسارے میں رہے گا اور اگر علی اصغر پشاور پہنچتے ہیں تو اس بات کی کیا
ضمانت ہے کہ اگر ایم این اے ڈاکٹر اظہر جدون اس اہم موقع پر لندن یاترا پر
ہیں اور انہوں نے انتخابی جیت کے بعد عام آدمی کیلئے اپنا موبائل بھی بند
کردیا ہے تو ایم پی اے جو رہتا ہی اسلام آباد اور لندن میں ہے اپنے ووٹروں
کے کام نہ سہی تحریک انصاف کے کارکنوں کی شادیوں میں دلہا دلہن کے ساتھ
فوٹو سیشن اور غمی میں اظہار تعزیت کیلئے سردار شمعون کی طرح دستیاب بھی
ہوں گے یا نہیں…؟ اس موقع پر اہلیان سرکل بکوٹ کو نرگسیت کا شکار نہیں ہونا
چاہئے بلکہ اچھے کی توقع رکھنی چاہئے،باقی اللہ کارساز ہے اور وہ دلوں کے
حالوں کو جانتا ہے، یہ عوامی عہدے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عوامی
نمائندوں کے پاس امانت ہوتے ہیں اگر وہ ان میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو
ذات باری کے پاس اپنا جزا و سزا کا ایک نظام ہے اور وہ بہترین انتقام لینے
والا ہے…ذرا نہیں پورا سوچئے! |