عمران ٗ طاہر القادری اور نواز شریف کے لیے بہترین مشورہ

اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ عمران اور قادری کی بے جا ضد اور منافقانہ طرز سیاست نے عدلیہ ٗ انتظامیہ اور پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے ۔مولانا فضل الرحمان کے بقول یہ ساری آگ میڈیا نے براہ راست کوریج کرکے لگائی ہے اگر میڈیا عمران اور قادری کی تقریروں ٗ جھوٹے اورجذباتی خطابات کو لمحہ بہ لمحہ ٹی وی سکرین پر آن ائیر نہ کرتا تو حالات اس نہج پر کبھی نہ پہنچتے ۔نہ جانے میڈیا کو کنٹرول کرنے والا ادارہ کہاں سو رہا ہے ۔میری دانست کے مطابق الیکٹرونکس میڈیا کو صرف وزیر اعظم کی پریس کانفرنس اور تقریر کی براہ راست کوریج کی اجازت ہونی چاہیئے باقی تمام حادثات ٗ سانحات اور احتجاجی ریلیوں کی براہ راست کوریج کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ لیکن یہاں تو ہر ٹی وی چینل صبح سے شام تک عمران اور قادری کی بکواس ایسے نشر کررہا ہے جیسے یہ قائداعظم کی تقریریں ہیں اس پر مذاکرے کروا کر حالات کو مزید کشید ہ کیا جارہا ہے ۔اگر عمران کے مطالبات کا جائزہ لیا جائے تو وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے سوا تمام مطالبات درست ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن جب تک آزاد نہیں ہوگا ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ کمپوٹرائز نہیں ہوگااس وقت تک الیکشن بے معنی ہیں ۔حکومت یہ مطالبہ مان چکی ہے ۔عمران کے مطالبے پر حکومت نے عدالتی کمیشن قائم کردیا ہے اگر عدالتی کمیشن نے الیکشن کو دھاندلی قرار دے دیتا ہے تو نواز شریف سمیت تمام حکومت کو اقتدار چھوڑ کر نئے الیکشن کروانے ہوں گے بلکہ دھاندلی میں ملوث افراد کو سزا بھی ملنی چاہیئے ۔حکومت اس پر بھی راضی ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت 1800 ارب ٹیکس بااثر افراد ادا نہ کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ احتساب کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 12 سے 20 ارب روپے تک رشوت وصول کی جاتی ہے بھتہ کی رقم اس کے علاوہ ہے ۔اس وقت تک پاکستان کے مالی مسائل حل نہیں ہوسکتے تھے جب بے رحم احتساب اور پبلک ڈیلنگ والے سرکاری محکموں میں رشوت کے رجحان کو سختی سے روکا نہیں جاتا۔ عمران صحیح کہتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی پانچ سالہ کرپشن کے مقدمات کو سرد خانے میں ڈال کر ایک ایسے شخص کو چیرمین احتساب کمیشن بنا دیا ہے جو اس عہدے کااہل ہی نہیں تھا اور وہ اپنے تقرر سے آج تک کرپشن کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کی بجائے وقت گزارنے میں ہی عافیت تصور کررہاہے ۔آڈیٹر جنرل نے یہ کہہ کر سارا پول کھول دیا ہے کہ ماضی کے وزیر خورشیدشاہ آجکل اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ ہیں وہ کیسے پیپلز پارٹی کے کرپشن کی شفاف انکوائری ہونے دیں گے ۔ دباؤ کی صورت میں حکومت شاید یہ مطالبہ بھی مان چکی ہے ۔اس کے باوجود عمران کی ایک مطالبے پر سوئی اٹکی ہوئی کہ نواز شریف پہلے استعفی دے ۔ اس حوالے سپریم کورٹ کے ججز کی رولنگ نہایت مناسب ہیں ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ احتجاج کا حق سب کو ضرور ہے لیکن کیا مجمع اکٹھا کرکے ایک منتخب وزیر اعظم سے زبردستی استعفی لیا جاسکتا ہے ؟ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مظاہرین کے مطالبے پر حکومت ختم ہوگئی اور اگر یہ روایت پڑ گئی تو کل کوئی اور جماعت دو لاکھ افراد کامجمع لے کر اس وقت کی حکومت کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے گی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چھپے لفظوں میں کہا ہے کہ ملک میں چار مارشل لاء لگ چکے ہیں اب پانچویں بار ایسا کرنے سے روکنا ہے ۔میں سمجھتا ہوں عدالت عالیہ کے معزز ترین جج صاحبان کے ان رولنگ کے بعد عمران اور قادری کو بات سمجھ آجانی چاہیئے لیکن یہ ضدی بچوں کی طرح شاہراہ دستور اور پارلیمنٹ کے ارد گرد کچھ اس طرح قبضہ جما کر بیٹھ گئے ہیں کہ جج صاحبان کو کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے بچ بچا کر روزانہ سپریم کورٹ آنا پڑتا ہے ۔سپریم کورٹ کی جانب سے دو مرتبہ حکم جاری کیا جاچکاہے کہ دھرنا دینے والی دونوں جماعتیں اپنے کارکنوں کو کسی اور جگہ منتقل کرکے شاہراہ دستور کو کھل دیں لیکن اپنے غیر آئینی مطالبات کو آئینی کہنے والے یہ دونوں ضدی افراد سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے صاف انکار کرچکے ہیں عمران تو سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرکے پاکستان سے اپنی وفا داری کو مشکوک بنا چکے ہیں ۔یہ سیدھا سادا بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے لیکن نوازشریف کا صبر انتہاء کو چھو رہا ہے وہ نہ تو عدالت عالیہ کے حکم پر شاہراہ دستور خالی کروانے کی ہمت کررہے ہیں اور نہ ہی سول نافرمانی کے اعلان کے بعد عمران کو مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا جارہا ہے جبکہ ضدی شیخ الاسلام سے جان چھڑانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کوجہاز میں بیٹھا کر کینیڈا ڈی پورٹ کردیاجائے کیونکہ جب تک قادر ی پاکستان میں رہے گا وہ نہ خود سکون سے رہے گااور نہ ہی شریف برادران کو سکون کی نیند سونے دے گا اس جیسے محسن کشن انسان سے اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔حیرت تو یہ ہے کہ وہ بھی اپنے جائز مطالبات کو چھوڑ کر شریف برادران کو پھانسی پر لٹکانے کا بار بار عزم کررہا ہے حالانکہ اگر طاہر القادری اپنے تعلیمی اداروں کی ٹیچرز اور بچیوں کو سڑک پر دھرنا دے کر خوار کرنے کی بجائے اپنے دس نکات پر زوردیں تو شاید مسائل میں الجھی ہوئی قوم کا بھی کچھ بھلا ہوجائے۔کیونکہ اگر حکومت ان کے دس نکات تسلیم کرلیتی ہے تو اس سے پوری قوم کا بھلا ہوسکتا ہے لیکن ان کی ہٹ دھرمی عوام کے لیے فائدے کی بجائے نقصان کاباعث ہی بن رہی ہے ۔اس کے باوجود کہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتیں نواز شریف کے پیچھے کھڑی ہیں لیکن نوازشریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ انہوں نے سوا سال سے مسائل میں الجھی ہوئی قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے غریب عوام کوکوئی فائدہ پہنچا ہو ۔بلکہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں جس قدر مہنگائی ہوئی تھی اتنی ہی مہنگائی اسحاق ڈار نے جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کو عام اشیائے خورد نوش ٗ ادویات ٗ بجلی پانی اورگیس کے بلوں میں شامل کرکے کردی ہے حکومت اگر چاہتی تو سرکاری اداروں ٗ بنکوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا حکم دے کر واپڈا کی بجلی کو صرف عوام کے لیے مخصوص کرکے فوری طور پر لوڈشیڈنگ ختم کرسکتی تھی لیکن نواز شریف کو یہ بھی توفیق نہیں ہوئی ۔پیپلز پارٹی کی حکومت 64 روپے فی لیٹر پٹرول خرید کر عوام کو 110 روپے فی لیٹر فروخت کرکے ذبح کررہی تھی نواز شریف اگر اپنے غریب ووٹروں کو مہنگائی کے عذاب سے نکالنا چاہتے تو پٹرول کی قیمت 64 روپے اور ڈالر کی قیمت ایک بار پھر 55 روپے پر لا کر مہنگائی کو جڑ سے اکھاڑ سکتے تھے لیکن ایکسپورٹروں کے دیوالیہ پن کا بہانہ بنا کر ڈالر کو 100 روپے اور اب اس سے بھی زیادہ کردیاہے۔ایک لمحے کے لیے سوچ لیا جائے کہ نوازشریف کی حکومت عمران اور قادری کے دھرنے ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہ کیا چہرہ لے کر دوبارہ اپنے ووٹروں کے پاس جائیں گے۔موٹروے ٗ گوادر پورٹ ٗ بجلی کے دور رس منصوبے اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن عوام کو فوری ریلیف کی ضرورت ہے جس کی طرف نواز شریف حکومت نے اب تک توجہ نہیں دی۔عمران اور قادری کبھی اتنے لوگ اکٹھے کرنے میں کامیاب نہ ہوتے اگر نواز شریف نے غریب عوام کے لیے کچھ کیا ہوتا ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 667381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.