لفظ ''سوفسطائی'' شروع میں ''دانشمند،
استاد'' کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ سو فسطائی ان لوگوں کو کہا جاتا
تھا جو معمولی سے مشاہرے کے عوض بحث کے فن کی تعلیم دیتے تھے اور دانش
وبلاغت کے استاد ہوتے تھے۔ اولین باتنخواہ معلموں کی حیثیت سے سوفسطائیوں
کا فریضہ ہوتا تھا ''تفکر، تکلم اور تعمل''سکھانا۔ لیکن سوفسطائیوں کے لئے
خاص چیز ہوتی تھی کسی بھی طریقے سے، طرح طرح کی چالوں بلکہ فریب سے بھی
اپنے مخاطب کو بات میں اور بحث میں نیچا دکھا دینا۔ اس کے لئے وہ سارے
ذرائع کو اچھا سمجھتے تھے۔ سوفسطائیوں کے مخالفین ان کی چالاکیوں اور فریب
سازیوں کو تفصیل کے ساتھ گناتے ہیں۔ سوفسطائی اپنی تقریر کو بہت طول دے
سکتا ہے اسی لئے کہ بہت سی باتوں کی طرف دھیان دینا مشکل ہوتا ہے، بہت تیزی
سے بات کر سکتا ہے یا بحث کو جاری رکھنے کے لئے وقت کی کمی کا عذر پیش کرتا
ہے۔ سوفسطائی اپنے مخالف کو غصہ دلا سکتا ہے اس لئے کہ غصے میں آدمی دلیلوں
کی منطقی درستی کی طرف کم ہی توجہ کرتا ہے.... سوفسطائی کی بحث کا ایک ہی
مقررہ مقصد ہوتا ہے__اسے جیتنا ہے۔ اور وہ ہر قیمت پر اپنے کو صحیح ثابت
کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے سوفسطائی اکثر حقیقی رشتوں اور تعلق کو جھوٹی چیزوں
سے بدل دیتا ہے، شعبدہ گربن جاتا ہے اور ''سوفسطائیت'' کی مدد سے کسی بھی
رائے کی مدافعت یا تردید کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔ ایک قدیم یونانی فلسفی
میلیتس کے یو بلیدیس نے سوفسطائیت کی بہت سی مثالیں لکھی ہیں جن میں سے چند
یہ ہیں۔ جو تم نے کھویا نہیں وہ تمھارے پاس ہے۔ تم نے سینگ کھوئے نہیں،
چنانچہ تم سینگوں والے ہو۔ یا آدمی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، دونوں صورتوں
میں وہ تلاش نہیں کر سکتا__یا تو وہ جانتا ہے اور اسے تلاش کرنے کی کوئی
ضرورت ہیں۔ اور جو نہیں جانتا اسے تلاش کرنے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ وہ
جانتا ہی نہیں کہ تلاش کیا کرنا ہے۔ سوفسطائیوں کے ہاں زندگی کے بارے میں
ایک خاص رویہ ملتا ہے اور وہ ہے فریب کی پرستش۔ اسی لئے جو شخص انہیں دھوکا
دے دے اسے وہ دھوکا نہ دینے والے سے زیادہ دیانتدار سمجھتے ہیں۔ انسان کے
برتاؤ کے بارے میں رائے قائم کرنے کی بنیاد کے طور پر واحد کسوٹی کی جگہ
افادیت کا اصول لے لیتا ہے۔ چنانچہ ہر برتاؤ کا محرک تین مقصود کو ہونا
چاہئے__
تشفی، فائدہ اور عزت۔ اور اسی سے سوفسطائیوں کی انصاف کی سمجھ بھی معین
ہوئی۔ انصاف اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ طاقتور کے لئے فائدہ مند ہو۔
اسی لئے سو فسطائیت حقیقت کو مسخ کرتی ہے، اشرافیہ کے نمائندے اور بورژوا
سوفطائیت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے اور سیاست میں اس کا اہم کردار
تھا میکاولی کی مشہور زمانہ تصنیف ''داپرنس'' کے بعد سیاست نئے دور میں
داخل ہوئی تو سوفسطائیت کے معنی تبدیل ہو گئے، میکاولی نے سیاستدانوں کو
عوام کو الجھانے کے نئے گر سکھائے اور اس کے سکھائے ہوئے راستے پر آج دنیا
بھر کے سیاست دان خاص طور پر پاکستانی سیاستدان چل رہے ہیں اس کی مثال ہمیں
حالات حاضرہ پر ایک نظر ڈال کر اچھی طرح سے مل سکتی ہے۔ آج بھی پاکستانی
سیاستدان عوام کو الجھا رہے ہیں اور عوامی مسائل کی جانب سے چشم پوشی کر
رہے ہیں جس کے باعث پورا ملک دہشتگردی اور بم دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ اس
وقت ملکی فضاؤں میں ایک طرف تو جنوبی وزیرستان میں ہونیوالے فوجی آپریشن کے
خلاف اور اس کی حمایت میں صدائیں گونج رہی ہیں تو دوسری جانب کیری لوگر بل
اور این آر او کے پارلیمنٹ میں پیش ہونے پر اہل دانش نے تبصروں اور تجزیوں
کا جمعہ بازار لگا رکھا ہے۔ جبکہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں کے رہنما ایک
دوسرے کیخلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ لیکن عوامی مسائل کے تباہ کن طوفان اور
سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کے بڑھتے ہوئے طوفان ہیں جو کہ تھمنے کا
نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور بڑھتے چلے جارہے ہیں، آج بھی ملک میں عوام کے
مسائل پر توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہے، کیری لوگر بل، دہشتگردی اور فوجی
آپریشن تو ووٹ لینے والوں کا مسئلہ ہے ووٹ دینے والوں کا نہیں اس لئے آج
دہشتگردی کیخلاف جنگ اور این آر او کے پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے تک کی بحث
میں عوام کیلئے سوائے انتظار کے کچھ نہیں۔ اور اسی سبب آج غربت، بھوک اور
ننگ آج وطن عزیز کی سڑکوں، چوراہوں اور بازاروں میں غیر انسانی ننگا ناچ
ناچ رہی ہے، دن بدن کرپشن کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے، اسمبلیوں میں بیٹھے
ہوئے چالاک و دولت مند گروہ اپنے لامحدود وسائل سے اشیائے خوردونوش کے
بحران در بحران پیدا کر کے عوام کا خون چوس رہے ہیں اور غریبوں کا کوئی
پرسان حال نہیں ہے، پوری انتظامی و اقتصادی مشینری مراعات یافتہ بالادست
طبقات کے مفادات کی بجا آوری میں شب و روز مصروف عمل ہے، پاکستان کے
استحصالی، طاغوتی حکمران 22ارب روپے کی بلٹ پروف گاڑیوں کے لشکر میں گھومتے
ہیں اور سینکڑوں محافظوں اور کمانڈروں کے حفاظتی لشکر میں گھوم رہے ہیں
جبکہ عوام بسوں اور ویگنوں میں لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہے، ملک کے کروڑوں
عوام بے گھر اور بے زمین ہیں، کروڑوں بچے اسکولوں کی شکل تک دیکھنے کو
ترستے ہیں جبکہ سرداروں، خانوں، چوہدریوں، لغاریوں، ملکوں، میاؤں، زرداریوں،
مخدوموں و دیگر سوفسطائیوں کے لاڈلے بیرون ملک مہنگی ترین اعلیٰ تعلیم حاصل
کرتے ہیں، ملک کے 7کروڑ عوام خط غربت کے نیچے زندگی گھسیٹ رہے ہیں جبکہ
عوامی حاکمیت اور جمہوریت کے چیمپئن وزیراعظم کے کچن پر سالانہ 47کروڑ روپے
خرچ کئے جارہے ہیں، ان سوفسطائیوں نے بد ترین مہنگائی، کساد بازاری،
بیروزگاری، اور بنیادی حقوق کو پامال کر کے قوم کے جذبہ حب الوطنی و اسلام
پسندی و قومی اخوت کی سوچ و فکر پرستی کو ان کے دلوں سے نکال کر ان کے
پیٹوں تک پہنچا دیا ہے، خودی، خود داری، وطن پرستی، ضمیر اور مزاحمت کو
ضرورتوں، کچن اور پیٹ کی قبر میں دفن کر کے انہیں بھیڑ بکریاں بنا کر قوم
سے عوامی ریوڑ میں تبدیل کر دیا ہے اور اسی سبب ہم اس مقام پر آن پہنچے ہیں
جہاں قوم میں مفاہمت اور باہمی تعاون کے رشتے کمزور ہو چکے ہیں اور سیاسی
نظام کے درہم برہم ہوجانے سے پاکستان کی اکائیاں بکھرنے لگیں ہیں، جہاں تک
کیری لوگر بل کے ذریعے ملک کو فروخت کرنے کا تعلق ہے تو میرے مطابق جس دن
قائد ملت لیاقت علی خان امریکہ سے امداد لے کر آئے تھے اسی دن پاکستان کو
گروی رکھ دیا گیا تھا اگر قائد ملت لیاقت علی خان امریکہ کے بجائے روس چلے
جاتے تو کیا آج امریکہ افغانستان میں موجود ہوتا؟ اصل مسئلہ امریکی امداد
یا این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا نہیں اصل مسئلہ نظام کو بدلنے کا
ہے جب تک پاکستان میں جمہوری ابلیسی نظام قائم رہے گا دہشتگردی بھی رہے گی
اور عوام نان شبینہ سے ترستے رہیں گے۔ |