حضرت امیر ملت اور حضرت قائداعظم ؒ

قائداعظم کے تمام تر روحانی مدارج کا انحصار حضرت امیرملت کے فیض نظر سے تھا ۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ حضرت قائداعظم نے1944میں سری نگر( کشمیر) میں ملاقات کے بعد شام کو خاموشی کے ساتھ حضرت امیر ملت قدس سرہ کے دست حق پرست پر سعادت بیعت بھی حاصل کر لی تھی اور حضرت سے بھرپور روحانی استفادہ بھی کیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم مکمل طو رپر شریعت کے احکام کے پابند تھے۔ چنانچہ 1946کا ایک واقعہ رئیس الا حرار مولانا حسرت موہانی( ف) 1951ء بیان فرماتے ہیں کہ: ’’ ایک روز نماز فجر پڑھ کر علی الصبح اس نیت سے قائداعظم کی رہائش گاہ پر پہنچے کہ اس وقت قائداعظم تنہا اور فارغ ہوں گے اور ان سے خوب دل جمعی سے بات چیت ہو سکے گی چنانچہ وہ منہ اندھیرے وہاں پہنچے تو خادم نے مولانا کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا اور خود قائداعظم کو اطلاع دینے کے لئے اندر چلا گیا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے مولانا کی نظر ایک اندرونی دروازے پر پڑھی جو ساتھ کے کمرے میں کھلتا تھا اور اس وقت اس پردوہ لٹک رہا تھا ۔ مولانا اپنی جگہ سے اٹھے اور اس دروازے کا پردہ اٹھا کر دوسرے کمرے میں یہ دیکھنے کے لئے کہ وہاں کون ہے اندر جھانکنے لگے۔ اندر بتی جل رہی تھی اور کمرے کے ایک کونے میں کوئی صاحب جائے نماز بچھائے قبلہ رو اپنے معبود کے روبرو سجدہ ریز تھے۔ حالت سجدہ میں پڑا جسم یوں لرز رہا تھا جیسے شدید گریہ طاری ہو۔ مولانا حسرت موہانی کا کہنا ہے کہ وہ صاحب محمد علی جناح تھے جو سجدہ میں خالق کائنات سے فریاد کناں تھے۔ اواخر جون 1945ء میں حضرت امیر ملت نے تحریک پاکستان کی حمایت میں ایک زبر دست بیان جاری فرمایا جس کا عنوان ’’ تحریک پاکستان اور صوفیاء کرام ‘‘ تھا۔ اس بیان کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ’’ محمد علی جناح ہمارا بہترین وکیل ہے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے لہٰذاسب مسلمان قیام پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہوں۔ ‘‘ آپ کے اس بیان کی تائید سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ گوردا سپوری ،حضرت پیر سید محمد فضل شاہ (ف) 1966ء ) امیر حزب اﷲ جلال پور شریف ضلع جہلم ،حضرت میاں محمد علی سجادہ نشین بسی شریف (ف1975)حضرت خواجہ غلام سدید الدین سجادہ نشین تونسہ شریف (ف1960) اور حضرت سید محمد حسین سجادہ نشین سکھو چک ضلع گوردا سپور( ف1978)ء میں جب کانگریسی علماء نے پاکستان کی مخالفت میں سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی، حضرت امیر ملت نے قیام پاکستان کی حمایت میں اطراف و اکناف ملک کے دورے کئے اورقائداعظم کے حق میں فضا ساز گار بنائی ۔آپ کی جامع اور مدلل تقاریر سے متاثر ہو کر لوگ کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے تو بمصداق ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار نے قائد اعظم کی ذات والا صفات پر گھناؤ نے اور رکیک حملے شروع کر دیئے تب آپ نے پنجاب مسلم لیگ کے عام اجلاس منعقدہ لاہور کی صدارت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ دو قومی نظریہ سب سے پہلے سرسید احمد خان رحمتہ اﷲ علیہ نے پیش کیاتھا اور اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے کلام کے ذریعے قوم کو متاثر کیا اب قائداعظم نے اسی دو قومی نظریے کے بار آور ہونے کے لئے مسلمانوں کا علیحدہ وطن قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے مقدمے کی پیروی کے لئے قابل و تجربہ کار وکیل تلاش کرتا ہے بلا تمیز غیرے کہ وہ وکیل ہندو ہے یا مسلمان یا عیسائی۔اب ہمارا مقدمہ انگریز اور ہندو کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں نے قائداعظم کو اس مقدمے کا وکیل بنا لیا ہے اور پھر ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اور رکیک و سوقیانہ حملے کرنا کیا معنی؟ ما سوائے ذاتی کدورت و حسد کے۔ یہ تو ایک اصول کی بات تھی’’ اب رہی میری عقیدت اگر میں چراغ لے کر ڈھونڈوں تو مجھے ہندوستان میں ایک بھی جناح ایسا ایمان والا مسلمان نظر نہیں آتا جو اسلام کی ایسی خدمت بجا لا رہا ہو‘‘ اس کے بعد حضرت امیر ملت نے قائداعظم اور تحریک پاکستان کی تائید وحمایت کے لئے سرگرمی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ مخالفین کی نیندیں حرام ہوگئیں ۔پیرانہ سالی کے باوجود طوفانی دوروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اوائل ستمبر 1945ء میں رہتک (ہال انڈیا) کا دو روزہ دورہ فرمایا اور حسب سابق شہری و ضلع مسلم لیگ کے سیکرٹری مالیات صاحبزادہ اختر علی صدیقی کو شرف میزبانی بخشا اور قلعہ میں ان کے دیوان خانہ میں قیام فرمایا اور رات کو عظیم الشان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ: مسلمانو! دو جھنڈے ہیں ایک سلام کا اور دوسرا کفر کا ۔بتاؤ تم اسلام کے جھنڈے کے نیچے جاؤ گے یا کفر کے۔ مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ تم کس جھنڈے کے نیچے رہو گے ؟ حاضرین نے بلند آواز میں کہا کہ ہم مسلم لیگ کے جھنڈے لے کر نیچے رہیں گے۔لاہور کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہندوستان و پنجاب کے اکابر علماء و اہلسنت و جماعت تشریف لائے ۔اجلاس کی صدارت حضرت امیر ملت نے فرمائی ۔ اس موقع پر صوبائی سنی کانفرنس کاقیام عمل میں لایا گیا او رفیصلہ کیا گیا کہ کانگریس احرار ،خاکسار اور یونینسٹ وغیرہ نہرہ کے زر خرید غلام ہیں۔ انہیں مسلمانوں کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے۔ 21ستمبر 1945کوسہ روزہ الامان دہلی میں حضرت امیر ملت کا ایک بیان شائع ہوا جس میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دیں۔ اپیل کے آخر میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ خدا مسٹر جناح کی عمر دراز کرے جو ہندوستان کے مسلمانوں کے واحد لیڈر اور واقع قائداعظم ہیں۔ 28دسمبر1945ء کو روز نامہ خلافت بمبئی میں جمعیت علمائے اسلام کلکتہ کی طرف سے مسلم لیگ کی تائید و حمایت میں علماء و مشائخ کایک مشترکہ بیان چھپا جس میں حضرت امیر ملت قدس سرہ کا اسم گرامی س رفہرست تھا ار دیگر حضرات میں مولانا حسرت موہانی( ف)1951ء خواجہ حسن نظامی دہلوی( ف) 1955ء مولانا محمد بخش مسلم (ف) 1947ء اور مولانا ظفر علی خاں( ف) 1956ء وغیرہ شامل تھے۔ اوآخر ستمبر 1945ء میں حضرت امیر ملت نے ایک بیان جاری فرمایا ۔فقیر کو تمام مسلمانوں نے متفقہ امیر ملت منتخب کیا ۔ اس بنا پر فقیر جمیع مسلمانان ہند سے اپیل کرتا ہے کہ جس طرح فقیر نے شملہ کانفرنس کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانان ہند کی واحد سیاسی جماعت ہے اب چونکہ جدید انتخابات ہونے والے ہیں اس موقع پر جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے مسلمانا ن ہند سے اپیل کی ہے کہ ہر مسلمان کومسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے اور اپنی حیثیت سے زیادہ چندہ دینا چاہیے۔فقیر بحیثیت امیر ملت قائد اعظم کی اس اپیل کی پر زور تائید کرتا ہے اور اس موقع پر ہر طرح سے مسلم لیگ کی امداد کریں اور میرے متوسلین انشاء اﷲ تعالی مسلم لیگ کی امداد کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد آپ نے اور زیادہ انہماک اور جوش و خروش سے مسلم لیگ اور قائداعظم کی حمایت میں سرگرمی دکھائی ۔آپ نے تمام علمائے دین اور مشائخ عظام کو خاص طور پر توجہ دلائی کہ اب گوشہ نشینی چھوڑ کر میدان عمل میں آئیں اور اپنا فرض ادا کریں ۔چنانچہ اطراف و اکناف سے آپ کو خطوط اور تاروں کے ذریعے تعاون عمل کے پیغامات موصول ہوئے۔ حضرت پیر صاحب مانکی شریف (پیرا مین الحسنات ف1940 ) خود بہ نفس نفیس علی پور شریف حاضر ہوئے اور غیر مشروط طو رپر اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے عرض کیا ۔’’ حاضر ہوگیا ہوں، اب جو حکم ہوگا تعمیل کروں گا ۔ آپ نے فرمایا اب دین و ملت کی خدمت کی ضرورت ہے۔ یہ کام جو جناح صاحب کر رہے ہیں ،ہم سب کا ہے، آپ بھی ان کی اعانت فرمائیں۔ حضرت امیر ملت قدس سرہ کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت پیر صاحب مانکی شریف نے 14اکتوبر 1945ء کو مانکی شریف تحصیل نو شہرہ ضلع پشاور میں برصغیر کے نامور علماء مشائخ کی کانفرنس رات کو حضرت پیر معصوم بادشاہ فاروقی نقشبندی مجددی سجادہ نشین چورہ شریف ضلع اٹک( ف)( 1957ء ) کی زری صدارت منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں حضرت امیر ملت کو خصوصی طو رپر مدعو کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مرادآبادی (ف)1948ء فخر ملت مولانا عبد الحامد بدایوانی( ف) 1970ء پیر صاحب تونسہ شریف خواجہ غلام سدید الدین( ف1960) پیر محمد عبد اللطیف زکوڑی شریف( ف1978) اور حاجی فضل حق پیر صاحب کار بوغہ شریف جیسے پانچ صد جید علماء و مشائخ نے قدوم میمنت لزوم فرمایا۔ حضرت امیر ملت نے اپنے روح پر خطاب میں قائداعظم اور مسلم لیگ کی زبر دست حمایت فرمائی۔ تمام حاضرین نے تحریک پاکستان کی تائید وحمایت میں تن من دھن کی بازی لگانے کا عہد کیا۔ 28اکتوبر 1945ء کو انجمن تبلیغ الا حناف امر تسر کے زیر اہتمام جامع مسجد میاں جان محمد مرحوم میں حضرت امیر ملت قدس سرہ کی زیر سرپرستی و زیر صدارت عرس حضرت امام اعظم رحمتہ اﷲ علیہ کی سالانہ تقریب بڑے تزک و احتشام سے منعقد ہوئی۔ متحدہ ہندوستان کے جلیل القدر علماء مشائخ نے اس سہ روزہ جلسے میں شرکت کی۔ 28اکتوبر کے اجلاس میں حضرت امیر ملت بہ نفس نفیس رونق افروز ہوئے اور پیرانہ سالی کے باوجود مسلسل دوگھنٹے پاکستان اور مسلم لیگ کی متعلق پر جوش الفاظ میں تقریر فرمائی۔ حاضرین کا جوش و خروش دیدینی تھا۔ امر تسر جو احرار کاگڑھ شمار ہوتا تھا اب گلی گلی، کوچے کوچے میں ’’ مسلم لیگ زندہ باد ‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔یاد رہے کہ اس سہ روزہ تقریب میں حضرت صاحبزادہ سید انور حسین علی پوری (ف1972) صدر الا فاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی( ف 1968) حضرت قبلہ سید محمد محدث کچھو چھوی (ف) 1961،خطیب بے مثل سید محمود شاہ گجراتی (ف)1987ء شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی (ف) 1970مولانا محمد شریف کوٹلوی (ف) 1951نے بھی حضرت امیر ملت کے قدموں میں بیٹھ کر مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی پر زور حمایت میں تقریریں کیں۔ عرس مبارک کی تقریب اختتام کو پہنچی تو حضرت امیر ملت نے ضلع امر تسر کا دورہ فرمایا اور تحریکِ پاکستان کو کامیاب بنانے کے لئے مدلل اور پر مغز تقریریں کیں۔ آپ کے ساتھ صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی (ف) حضرت محدث کچھو چھوی (ف)1941اور سید چھوٹے شاہ مدراسی (ف)بھی تھے۔یہ نورانی قافلہ جدھر سے بھی گزرتا فضا میں خوشبو بکھرتی جاتی۔ لوگ نعرہ ’’تکبیر و رسالت ‘‘کے بعد امیر ملت زندہ باد اور قائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگاتے۔
اگرچہ حضرت امیر ملت ضعیف العمر تھے مگر جب جلسہ سے خطاب فرماتے تو آپ کی آواز مبارک دور دور تک سا معین کے قلب و جگر میں پیوست ہوتی جاتی اور حاضرین پر رقت طاری ہو جاتی۔ اس دورہ کے بعد کانگریس یا دوسری نیم کانگریسی جماعتوں کا جلسہ کامیاب نہ ہو سکا۔ انہی جگہوں پر جہاں کانگریسی لیڈروں کے گلے میں ہار ڈالے جاتے تھے وہاں پتھر پڑتے دیکھا گیا اور مشرقی پنجاب کی فضا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ کے پر کیف اور وجد آور نعروں سے گوجنے لگی۔30اکتوبر 1965کو روز نامہ وحدت دہلی کے صفحہ نمبر 3کالم نمبر 3پر مسلم لیگ کی حمایت میں حضرت امیر ملت قدس سرہ کا ایک تہلکہ خیز بیان شائع ہوا جس نے فضا میں ارتعاش پید کر دیا اور کانگریسی علماء کی نیندیں حرام ہو گئیں ۔حضرت نے فرمایا کہ’’ہندوستان بھر میں صرف مسلم لیگ ہی ایسی جماعت ہے جو بالکل صحیح طور پر مسلمانان
ہند کے حقوق کی حفاظت کر رہی ہے اس لئے مسلم لیگ کی ہر ممکن امداد کرکے اس کو کامیاب بنانا ہر مسلمان کافرض اولین ہے اور جولوگ مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دشمنان اسلام ہیں۔ اس لئے اہل اسلام کے لئے لازم ہے کہ وہ مخالفین مسلم لیگ کے نہ تو جنازوں میں شریک ہوں اور نہ ان کے مردوں کو اپنے قبرستان میں دفن کریں ۔ اس بیان کے بعد گجراتی زبان کے روز نامہ وطن بمبئی نے اپنی اشاعت 2نومبرف 1945صفحہ 5پر شائع کیا۔ یوں حضرت امیر ملت کے یہ زریں ارشادات ہندوستان کے کونے کونے میں گونج اٹھے اور ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گئے۔2نومبرف 1945کو جامع مسجد میاں جان محمد مرحوم امر تسر میں ایک عظیم الشان سنی کانفرنس زیر صدارت حضرت امیر ملت منعقد ہوئی جس سے صد الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین ف 1948نے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کی۔ ان کے علاوہ حضرت صاحبزادہ سید انور حسین علی پوری ف1972 اور صاحبزادہ سید محمود شاہ گجراتی ف1987 نے بھی تحریک پاکستان کی حمایت میں تقریریں کیں۔ حضرت امیر ملت نے اپنے صدارتی خطبہ میں مسلسل دو گھنٹے تک مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں پرجوش خطاب فرمایا۔ 26نومبر 1945کوپیر صاحب مانکی شریف ف 1960نے مانکی شریف ضلع پشاور میں قائداعظم کی ایک شاندار دعوت کی اور ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد بھی فرمایا ۔حضرت امیر ملت کو جلسہ کی صدارت کے لئے دعوت دی لیکن نا سازی طبع کے باعث تشریف نہ لے جا سکے اور اپنی جگہ اپنے فرزند اکبر سراج الملت پیر سید حافظ محمد حسین شاہ صاحب ف1944کو قائداعظم کے لئے سونے کا ایک تمغہ تین ہزار روپے کی تھیلی اور کئی دوسرے تخائف دے کر بھیجا ۔پیر صاحب مانکی شریف نے حضرات سراج الملت کی بڑی عزت افزائی فرمائی اور جلسہ کی صدارت انہیں کے سپرد کی۔ جب قائداعظم جلسہ میں آئے تو حضرت سراج الملت آگے بڑھے اور سونے کا تمغہ (جس پر کلمہ طیبہ کندہ تھا ) قائداعظم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ حضرت امیر ملت نے آپ کی کامیابی کے لئے طلائی تمغہ بھیجا ہے۔،، یہ سن کر قائداعظم بہت خوش ہوئے، کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور سینہ تان کر کہالگائیں۔ پھر تو میں کامیاب ہوں۔ اس پر مسلم لیگی کارکن ملک شاد محمد نے آگے بڑھ کر حضرت سراج الملت کے دست مبارک سے تمغہ لیا اور قائد اعظم کی شیروانی کی بائیں طرف سینے پر ٹانک دیا۔ قائد اعظم نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گئے ۔نومبر 1944ء کے آخر میں مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت میں امیر ملت کا ایک او ربیان شائع ہوا جس میں حضرت نے فرمایا کہ ’’دس کروڑ مسلمانان ہند نے فقیر کو امیر ملت تسلیم کرلیا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے امیر ملت کی راہنمائی پر عمل کرنانص قطعی سے واجب ہے ۔امیر ملت کا فرنبردار ،خدا اور رسول ؐ کا فرمانبردار امیر ملت کا نافرمان خدا اور رسول ؐکا نافرمان ہے۔ محمد علی جناح کی اس اپیل کی فقیر بحیثیت امیر ملت پر زور تائید کرتا ہے کہ ہر مسلمان مسلم لیگ کے امیدوارکو ووٹ دے اور حیثیت سے زیادہ اس کو چندہ دے ۔اوائل دسمبر 1945میں پنجاب کے نامور صوفیائے کرام نے مسلم لیگ کی حمایت میں ایک اعلان جاری فرمایا جس میں مریدین کے علاوہ تمام مسلمانوں کی اکثریت کو ہدایت کی گئی کہ مسلم لیگ کی حمایت کریں ۔حضرت امیر ملت نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ جو مسلم لیگ میں شامل نہ ہو وہ مر جائے تو ان کے مرید ایسے شخص کا جنازہ بھی نہ پڑھیں ۔ 1945-46کے انتخابات کے سلسلے میں حضرت امیر ملت نے ایک تاریخی بیان جاری فرمایا جس سے کانگریس اور دیگر مسلم دشمن جماعتوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ بیان ملاحظہ فرمائیے اور حضرت اقدس کے مجاہدانہ کردار اور قلندرانہ یلغار کی داد دیجئے۔ اﷲ تعالی کا فضل و احسان ہے کہ ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں نے فقیر کو ایم ملت تسلیم کرلیا ہے۔ اب جملہ مسلمانان ہند کو اپنے امیر ملت کی رہنمائی پر عمل کرنا واجب ہے۔ یہ امر فقیر اپنی ہی طرف سے پیش نہیں کرتا ہے بلکہ نص قطعی سے ثابت کرتا ہے کہ جس نے اپنے امیر ملت کی اطاعت کی اس نے حضر ت محمدؐ کی فرنبرداری کی اور جس نے حضور انور سے فرمانبرداری کی اس نے اﷲ تعالی کی فرمانبرداری کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے حضرت محمدؐ سے نافرمانی کی اور اس نے خدا کی نافرمانی کی۔ پس اس بنا پر فقیر جمیع مسلمانان ہند سے اپیل کرتا ہے کہ جس طرح فقیر نے شملہ کانفرنس کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ مسلم لیگ ہی مسلمانان ہند کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ اب چونکہ جدید انتخابات ہونے والے ہیں اس موقع پر جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے مسلمانان ہند سے اپیل کی ہے کہ ہر ایک مسلمان کومسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہے فقیر بھی بحیثیت امیر ملت ،قائداعظم محمد علی جناح کی اس اپیل کی پر زور تائید کرتا ہے اور جمیع مسلمانان ہند سے عموما اور اپنے یاران طریقت سے خصوصا جو لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں ہیں مکرر پر زور اپیل کرتا ہے کہ اس موقع پر ہر طرح سے مسلم لیگ کی امداد و اعانت کریں اور میرے متوسلین انشاء اﷲ تعالی مسلم لیگ کی حمایت کرتے رہیں گے،، 11دسمبر 1945کو روز نامہ وحدت ،،دہلی میں حضرت امیر ملت قدس سرہ نے اپنے فتوے کااعادہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا میں فتوی دے چکا ہوں کہ جو مسلمان ،مسلم لیگ کو ووٹ نہ دے اس کا جنازہ نہ پڑھو او ر مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہ کرو ۔فقیر اپنے فتوے کا دوبارہ اعلان کرتا ہے کہ جو مسلم لیگ کا مخالف ہے خواہ کوئی ہواگر وہ مر جائے تو اس کا جنازہ نہ پڑھا جاوے نہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے ۔1945-46کے انتخابات مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ تھے۔ حضرت امیر ملت اور ان کی اولاد امجاد نے طوفانی دورے کر کے مخالفین تحریکِ پاکستان کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا ۔انہی دنوں آپ کو سیالکوٹ شہر میں تشریف لا کر خطاب فرمانے کی دعوت دی گئی۔ آپ شدید علالت کے باوجو دتشریف لائے ۔نقاہت کے باعث کسی جلسہ میں تقریر نہ کر سکتے تھے۔ آپ نے پکا گڑھا سیالکوٹ کی ایک آبادی میں قیام فرمایا۔ آپ کے مریدین اور ہزاروں شہری روزانہ حاضری دیتے تو چار پائی پر ہی حاضرین کو خطاب فرما دیتے اور تلقین کرتے کہ وقت کے تقاضے کے مطابق مسلم لیگی امیدواروں کی بھر پوراعانت کی جائے۔ آپ کی ہدایت نے ایک نیا ولولہ پید اکیا اور سیالکوٹ کے شہری والہانہ انداز میں انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے سر گرم عمل ہوگئے ۔28دسمبر 1945کچی مسجد چاند ورضلع امراء تی انڈیا میں ایک بڑا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں مندرجہ ذیل ریزولیشن پاس ہوا کہ حضرت امیر ملت صدر آل انڈیا سنی کانفرنس پر مکمل اعتماد کا اظہار کرکے ان کے احکامات پر س رتسلیم خم کرنے کا اعلان کیاجاتا ہے اور حضرت امیرملت کے مسلم لیگ کی تائید و حمایت کے متعلق اعلان پر لبیک کہتے ہوئے مسلمانان ہند کی مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کی پر زور اپیل کی گئی ۔انتخابات میں مسلم لیگ کی مقبولیت سے بوکھلا کر انگریز حکومت نے ایک قانون جاری کیا جس کی رو سے مذہب اور اﷲ کے نام پر ووٹ مانگنا جرم قرار دے دیاگیا اور اس جرم کی سزا تین سال قید اور جرمانہ بھی مقرر کیا گیا ۔اس پر لاہور کے ایک جیالے مسلم لیگی چوہدری عبدالکریم آف قلعہ گوجو سنگھ ف1981نے جمعیت علماء اسلام پنجاب کی کانفرنس 11-10-9جنوری 1946کو اسلامیہ کالج لاہور کی گراؤنڈ میں بلائی جس کی صدارت حضرت امیر ملت نے فرمائی ۔مولانا ابوالحسانات محمد احمد قادری لاہور (ف) 1921مولانا جمال الدین میاں فرنگی محلی کے علاوہ بہت سے دیگر علمائے کرام اور عوام کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس میں گورنر کے نافذ کردہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ چوہدری عبدالکریم روڈ انہی کے نام سے موسوم ہے( مائیک پر آئے اور عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نام پر مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔اگر آپ نے مسلم لیگ کو ووٹ نہ دیا تو حضور اکرم ؐ بھی ناراض ہوں گے اور الﷲ کا غضب بھی نازل ہوگا۔،، حضرت امیر ملت نے صدارتی خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ حکومت اور کانگریس کان کھول کر سن لیں کہ اب مسلمان بیدار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی منزل مقصود متعین کرلی ہے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ان کے مطالبہ پاکستان کو ٹال نہیں سکتی ۔بعض دین فروش نام و نہاد لیڈر مسٹر جناح کو برملا گالیاں دیتے ہیں لیکن انہوں نے آج تک کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔یہ ان کے سچا رہنما ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔ خاکساروں نے مجھے قتل کی دھمکیاں دی ہیں میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں سید ہوں سید موت سے کبھی نہیں ڈرتا ۔ میں اپنے یاران طریقت اور حلقہ بگوشوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ صرف اور صرف مسلم لیگ امیدوار کو ہی ووٹ دیں اور عامتہ المسلمین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی مسلم لیگ ہی کو کامیاب و کامران بنائیں ۔اس کانفرنس کے بعد حضرت امیر ملت نے بحیثیت صدر آل انڈیا سنی کانفرنس مسلم لیگ کی حمایت میں اپنا ایک دستخطی بیان ہفت روزہ الفقیہ امر تسر میں شائع کروایا کہ’’ مسلم لیگ اہل اسلام کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اس سے الگ رہنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ مارچ1946کے اوائل میں آل انڈیا سنی کانفرنس کے چھپن علماء و مشائخ کا ایک متفقہ بیان شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ ’’آل انڈیا سنی کانفرنس ،مسلم لیگ کے اس طریقہ عمل کی تائید کرسکتی ہے۔ جو شرعیت مطہرہ کے خلاف نہ ہوجیسے کہ الیکشن کے معاملہ کانگریس کو ناکام کرنے کی کوشش ۔اس میں مسلم لیگ جس سنی مسلمان کوبھی اٹھائے سنی کانفرنس کے اراکین و ممبران اس کی تائید کر سکتے ہیں ۔ووٹ دے سکتے ہیں۔دوسروں کو اس کے ووٹ دینے کی ترغیب دے سکتے ہیں ۔مسئلہ پاکستان یعنی ہندوستان کے کسی حصہ میں آئین شریعت کے مطابق فقہی اصول پر حکومت قائم کرنا سنی کانفرنس کے نزدیک محمود و مستحسن ہے۔،، اس پر مندرجہ ذیل حضرات کے دستخط تھے۔ مفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضا خان بریلوی ،حضرت سید محمد محدث کچھو چھوی ،صدر الا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی ،صدر الشریقہ مولانا محمد امجد علی اعظمی مصنف بہار شریعت ،مولانا عبدالحامد بدایوانی ،محدث پاکستان مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد لائل پوری ،علامہ عبد المصطفےٰ ازہری ،مولانا وقار احمد پیلی، مولانا محمد اجمل سنبھلی ،مولانامفتی تقدس علی خان بریلوی ،مولانا غلام معین الدین نعیمی ،حضرت امیر ملت کی نمائندگی مولانا عبدالرشید صدر مدرس نقشبند یہ علی پور سیداں شریف نے کی ۔

آپ کا سالانہ عرس مبارک نہایت عقید ت و احترام کے ساتھ آپ کے جانشین حضرت صاحبزادہ پیر سید منور حسین شاہ جماعتی کی زیر صدارت مؤرخہ 10/11مئی بروز ہفتہ اتوار دربار عالیہ حضرت امیر ملت علی پورسیداں شریف میں منایا جا رہا ہے۔
Shakil Qasmi
About the Author: Shakil Qasmi Read More Articles by Shakil Qasmi: 4 Articles with 4344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.