اقتصادی راہداری منصوبہ، خطرات کی زدمیں

 بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھی تحفظات ظاہر کیے ۔شسما سوراج نے وجہ یہ بیان کی کہ اقتصادی راہداری منصوبہ قبضہ کے گئے علاقے (آزاد کشمیر ) سے گزرے گا۔ان دنوں آزاد کشمیر کے کئی علاقوں میں چینی ہنر مند بڑی تعداد میں نظر آرہے ہیں جو سڑکوں اور دوسرے منصوبوں پر کام کر ہے ہیں ۔ان ہنر مندوں کا تعلق پیپلز لبریشن آرمی سے نہیں ہے تاہم مغربی میڈیا کی نظر ان پر غیر ملکی فوجیوں کے حوالے سے ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان آزاد کشمیر میں کام کررہے تقریبا آٹھ ہزار چینی ہنر مندوں کی حفاظت پر کوئی 8 ہزار پاکستانی سیکوروٹی اہلکار تعینات ہین ۔یعنی ہر چینی اہلکار کی حفاظت کے لیے ایک پاکستانی اہلکار تعینات ہے ۔ گوادر سے کاشغر تک نئی عظیم الشان تجارتی راہداری پر کام شروع ہونے والا ہے ۔ اس منصوبے کی وجہ سے چینی ہنر مند اور زیادہ نمایاں کو کر دنیا کو نظر آئیں گے۔46 ارب ڈالر کاپاکستان چین اقتصادی راہداری (پی سی ای سی )منصوبہ چین کے شمال مغربی شہر کاشغر کو پاکستان کے جنوبی حصے میں گوادر بندر گاہ سے ملائے گا۔اس منصوبے کے ذریعے چین کا رابطہ گلگت بلتستان سے ہو کر بلوچستان میں موجود گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کے ذریعے بحیر عرب تک ہو سکتا ہے۔ 3 ہزار کلومیٹر طویل نئی عظیم الشان شاہراہ گلگت بلتستان ، پنجاب، صوبہ خیبر پختونخواہ، اور سندھ سے گزر کر گوادر سے کاشغر تک رابطہ ممکن بنائے گی ۔ آزاد کشمیر بھی اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہے ؟ ابھی واضح نہیں ہے کہ آزاد کشمیر کس حد تک اس منصوبے سے مستفید ہوگا ۔ حکومت پاکستان نے نئی عظیم الشان شاہراہ کے روٹ پر تنازعہ کے باعٹ تا حال کوئی واضح نقشہ جاری نہیں کیا ۔ روٹ کے نقشے کو وزارت منصوبہ بندی کی سرکاری ویب سائٹ پر کیوں نہیں ڈالا گیا۔ غیر مستند حوالے ظاہر کررہے ہیں کہ تجارتی راہداری آزاد کشمیر کو بھی ٹچ کرے گی ہو سکتا ہے 13 مئی کو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پی سی ای سی منصوبے پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی ۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی چوہدری احسن اقبال کی پی سی ای سی منصوبے پرتفصیلی بریفنگ سے صورت حال کچھ واضح ہوئی ہے تاہم ،جمعیت علما اسلام ف ، پاکستان تحریک انصاف اور دوسری جماعتیں کھل کر پی سی ای سی منصوبے کے روٹ پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا چنانچے ان سے بات چیت کی گئی اور اب خاموشی ہے ۔ آزاد کشمیر کے حکمران کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ تو لگاتے ہیں تاہم بے پناہ ثمرات کی حامل نئی عظیم الشان شاہراہ بارے ان کا کوئی موقف نہیں ہے۔ اگر نئی عظیم الشان شاہراہ کے ثمرات سے آزاد کشمیر کو محروم کر بھی دیا جائے تو حکمرانوں کے پاس اپنے موقف اور تحفظات کے اظہار کی جرت موجود نہیں ہے ۔ برائے راست وسط ایشیا سے ملنے کا موقع پی سی ای سی منصوبے کے زریعے ممکن ہے ۔ چھوٹی سی دنیا میں بند کشمیری بھی اس منصوبے کے زریعے ایک بڑے لینڈ سکیپ کا حصہ ہو سکتے ہیں ۔ان کے تجارتی روابط مین اضافہ ہو سکتا ہے ۔ چین کے وزیر اعظم نے 2013 مین دورہ پاکستان کے دوران پاک چین اقتصادی راہدای کا منصوبہ تجویز کیا تھا چین کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران اس منصوبے پر عملی پیش رفت ہوئی اس دورے کے دوران چھیالیس ارب ڈالر کے پاک چین معاہدے دراصل چین کی سرمایہ کاری کی شکل میں ہوںگے جس میں اہم ترین پاکستان چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے۔ راہداری کے تحت چین کے نقشے کے مطابق خنجراب، ایبٹ آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان ،ڈیرہ غازی خان ،کوئٹہ اور گوادر تک سڑک ۔ریلوے لائن اور گیس پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ جبکہ اس کے ارد گرد انڈسٹریل علاقے بنائے جارہے ہیں ۔جو اہم ترین علاقوں میں ہوں گے تا کہ چین اور پاکستان اس علاقے میں صنعتیں قائم کر کے اپنا سامان ایک طرف وسطی ایشیائی ریاستوں ،دوسری طرف عرب ،افریقی،یورپی اور امریکی ممالک کی مارکیٹوں تک آسانی سے پہنچاسکیں۔اس منصوبے سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار بھی ملے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے اہم معاہدوں میں گوادر بندر گاہ کی ترقی، گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر، گوادر ایکپریس وے، گوادر پورٹ کو کاشغر سے ملانے کے لیے روڈ نیٹ ورک، گوادر میں ایل این جی ٹرمینل اور گوادر سے نواب شاہ تک پائپ لائن بچھانا شامل ہے۔ منصوبے کے تحت گہرے پانیوں والی گوادر بندرگاہ کو چین کے مغربی علاقے سنکیانگ سے جوڑا جائے گا۔ اسی اقتصادی کوریڈور کے تحت نئی سڑکوں کی تعمیر، ریلوے اور توانائی کے منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا۔یہ کوریڈور چین کو مغربی اور وسطی ایشیا سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی سہولت دیتا ہے اور ساتھ ہی اس سے پاکستان کے مالی حالات میں بہتری کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔پاک چین اقتصادی کوریڈور کا مقصد پاکستان کی سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر نو کرنا ہے تاکہ سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل ہو سکے۔ اس منصوبے کے اندرونی اور بیرونی مخالفین بھی ہیں چنانچہ سیکوروٹی کے مسائل بھی ہیں ۔ ایک خصوصی سیکورٹی فورس بھی قائم کر سی گئی ہے جس کے زریعے چینی منصوبوں کو فول پروف تحفظ فراہم کرنے کا منصوبہ ہے ، نئی فورس کوبلوچستان اور گلگت بلتستان میں تعینات کیا جا رہا ہے ۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور جنداللہ کی طرف سے خطرات کا سامنا ہے ۔چین اور پاکستان اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان میں چینی مفادات کی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان ہر ممکنہ کوشش کر رہا ہے اور چین پاکستان کی کوششوں سے مطمئن ہے۔پاکستان چین اقتصادی تعلقات میں رکاوٹ ڈالنے میں بیرونی عناصر بالخصوص بھارت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کے اندر بھی مسائل موجود ہیں ۔اس حوالے سے سکیورٹی خدشات پر بھی بظاہر قابو پانے کی حکمتِ عملی نظر آتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خطے کے بدلتے حالات میں یہ حکمتِ عملی کس حد تک کارآمد ہو گی۔ پاکستان اپنی داخلی سلامتی کے خطرات سے دوچار ہے۔ داخلی سلامتی کی صورت حال اس قدر خراب ہے کہ پاکستان فوج کو ضرب عضب کے نام سے آپریشن شروع کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ عسکری حکام نے ہی چینی حکام کو اس بڑے منصوبے کی سیکوروٹی کی یقین دھانی کرائی ہے ۔ برحال گوادر سے کاشغر تک شاہراہ کا منصوبہ خطے کی سیاست اور طاقت کا توازن بدل دے گا اسی لیے اس منصوبے کو گیم چینجر منصوبہ بھی کہا جا رہا ہے ، یہ شاہراہ جس جس علاقے سے گزرے گی وہاں حقیقیی ترقی اور انقلاب آئے گا۔ کشمیر اگرچہ ایک متنازعہ خطہ ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیریوں کو اچھی حکمرانی ، اچھے نظام ،ترقی اور بہتر بنیادی ڈھانچے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسی حوالے سے پاکستان چین اقتصادی روٹ کشمیریوں کے لیے بھی اہم ہے ۔ سرزمین کشمیر کی ملکیت کا معاملہ حل ہو یا نہ ہو کشمیریوں کے لیے بہتر زندگی کا خواب ممکن ہے ۔بہتر زندگی کے خواب کی تعبیر کے لیے پاکستان چین اقتصادی راہدای معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50730 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More