فلم مغل اعطم کو کون بھلا سکتا ہے ؟
چلیں فلم بھلا دیں لیکن اس کے نغمات تو سدا بہار ہیں -
آج بھی دل میں ہلچل مچا دیتے ہیں
زندہ باد ---زندہ باد --اے محبت زندہ باد
دولت کی زنجیروں سے تو رہتی ہے آزاد
زندہ باد - زندہ باد - اے محبت زندہ باد
مغل اعظم ، مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی کہانی ہے جسکی سلطنت مغلیہ
سلطنت کے تمام حکمرانوں میں سب سے زیادہ وسیع اور قوی تھی یہاں تک
افغانستان کا شہر کابل بھی اسکی علمداری میں شامل تھا- اکبر بادشاہ نے اتنی
بڑی سلطنت کو صحیح خطوط پر چلانے کے لئے نو مشیر مقرر کئے ہوئے تھے- جن سے
وہ مشورے لیتا اور پھر اپنا ذہن رسا استعمال کر کے تغیر و تبدل کرتا اور
اپنی سلطنت میں نافذ کرتا تھا- ان مشیروں میں سے ایک مشیر کا تعلق سندھ کے
علاقے سیہون سے تھا-
بعض افراد ٹھٹہ سے تعلق بتاتے ہیں- یہ امر اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس نے ٹھٹہ
آکر کئی معاملات درست کئے تھے -
کراچی کے لوگ ٹھٹہ اور اس کے نواح میں واقع خوب صورت مقامات اور بزرگوں کی
زیارت کو جاتے رہتے ہیں- اس سفر کے لئے وہ قومی شاہراہ کا استعمال کرتے ہیں-
شاہراہ فیصل ہی آگے جاکر قومی شاہراہ کا روپ دھار لیتی ہے- کراچی شہر میں
یہ شاہراہ، ریل کی پٹری کے ساتھ بڑی دور تک چلی جاتی ہے- اوپر سے ہوائی
نظارہ کریں اور اگر نیچے ٹریفک نہ ہو تو ریل کی چمکتی ہوئی چار پٹریاں اور
اس کے ساتھ چلتی ہوئی کولتار کی سڑک دل پر ایک نہایت ہی اثر انگیز منظر کی
یادیں نقش کر دیتی ہیں- ملیر کے پاس پہنچ کر یہ دونوں سہیلیاں نہایت ہی
قریب آجاتی ہیں جیسے کچھ راز و نیاز کی باتیں کر رہی ہوں یا پرانی یادیں
تازہ کر کے دوستی اور رفاقت کے پھولوں میں مزید رنگ بھر رہی ہوں- مجھے تو
محسوس ہوتا تھا کہ ریل کی پٹری سڑک سے کہہ رہی ہو تم لوگوں سے کہنا کہ یہاں
رک کر ملیر مندر اور اور اس کے سامنے واقع سڑک کے اس پار ملیر سٹی اسٹیشن
کی سیر ضرور کرلیں- تاریخ کے نئے ابواب کھلیں گے-
|
|
آخر ایک دن میں رک ہی گیا کہ ملیر سٹی اسٹیشن کا کیا معاملہ ہے دیکھوں تو
صحیح- کوئی ریل گاڑی یہاں نہیں رکتی اور پوری رفتار سے زمین کو ہلاتی ہوئی
اور اردگرد کے لوگوں کو دہلاتی ہوئی ڈگا ڈگ ڈگا ڈگ کرتے ہوئے آگے نکل جاتی
ہے اور پٹری زور دے رہی ہے کہ رکو --دیکھو -پہچانو - اور یہی حال مندر کا
ہے -- ویران سا مندر نظر بھی نہیں آتا - لیکن پٹری کا اصرار ہے کہ اسے بھی
دیکھوں-
میں ملیر سٹی اسٹاپ سے آگے ملیر دریا کی طرف چلتا گیا- اور مجھے مخروط کی
شکل کا اونچا مندر نظر آگیا-افتاد زمانہ کے نرمیاں سختیاں جھیلتے جھیلتے یہ
کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار لگ رہا تھا لیکن اس کے اوپر محنت سے کی گئی نقش نگاری-
چھوٹے چھوٹے محراب نما ابھار اور سب سے اوپر واقع چھوٹا سا گنبد اب بھی
سلامت تھے- یہ سارے کا سارا پتھروں کو تراش کر بنایا گیا ہے- ہندو عقیدے کے
مطابق مندر ایسی جگہ بنایا جائے جہاں پانی قریب ہی ہو- نہروں کے سنگم پر یا
دریاؤں کے سنگم پر کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق دیوتا مندر آتے ہیں اور
پانی سے کھیلتے ہیں- اگر مندر آبادی میں بنایا جائے تو اس کے اردگرد
خوبصورت باغیچہ بنائیں جس میں رنگ برنگے پھول ہوں اور فضا کو خوشگوار
بنارہے ہوں- میں مندر کے اردگرد کا جائزہ لیا -اب تو کچھ بھی نہیں تھا- ہو
سکتا ہے ماضی میں ایسا ہی کوئی باغیچہ رہا ہو- قریب ہی ایک اور شکستہ لیکن
کشادہ سی عمارت کے آثار نطر آئے- لگتا تھا کہ یہ عمارت بھی اپنے وقت میں
خوبصورت رہی ہوگی- ایک جانب ایک محراب سی بنی ہوئی تھی- میں اس کے قریب چلا
گیا- سامنے ایک یادگاری تختی لگی ہوئی تھی- اسے کھڑا ہو کر پڑھا تو چونک
پڑا- اس کی حالت بتارہی تھی اسی سابقہ زمانے کی تختی ہے-
میری ایک عجیب سی نیچر ہے کہ جب بھی کوئی ایسی قدیم عمارت دیکھتا ہوں تو
طرح طرح کے خیالات اور مناظر سامنے گھومنے لگ جاتے ہیں- ایسا ہی یہاں پر
ہوا تھا- اسی محراب کے پاس کھڑا مندر کو دیکھتا ہوا سوچنے لگا یہاں لوگ
کیسے کھڑے ہو نگے- کیسا ادب سے کوئی اشلوک پڑھ رہے ہوں گے- اس مندر کا کوئی
پنڈت بھی تو ہوگا- ویسے ہی لکڑی کی کھڑاویں ( سلیپر ) پہنے پھر رہا ھوگا-
تعظیم سے سر جھکائے پجاری آتے ہوں گے-اوپر لگی پیتل کی چمکدار گھنٹی کو
اپنا ہاتھ بلند کر کے بجاتے ہوں گے- “ٹن --ٹن - اس کی آواز مندر میں گونجتی
ہوگی- اور پھر مندر میں پیر رکھتے ہوں گے- تختی دیکھ کر میں چونکا- اس کے
ساتھ ہی جو خیالات کا ریلا ذہن میں امڈ امڈ کے آرہا تھا ختم ہو گیا- میں
تختی کی طرف متوجہ ہوا اس پر لکھا تھا
“ یہ سینی ٹوریم ٹھاکر لکھمی داس اور شیوہ جی کانجی پراگجی سومایہ کی یاد
میں دھی دھر پراگجی نے تعمیر کروایا -
10-12-1914“
اس تختی سے تو مجھ پر حیرت کا بڑا سا دروازہ ہی کھل گیا - ہم تو سمجھتے تھے
کہ یہاں کراچی میں ایک ہی سینیٹوریم ہے جو اوجھا نے بنایا ہے اور وہ بھی
بعد کی تاریخ میں یعنی 1942 میں لیکن یہ تختی تو کچھ اور ہی انکشاف کر رہی
ہے-
|
|
خیالات مجھے کہیں اور اڑا کر لے جارہے تھے - کراچی میں ساحل سمندر سے لیکر
شمال میں دریائے حب تک یا مشرق میں دریائے ملیر تک کوئی اور مقام نہیں تھا
جہاں یہ سینی ٹوریم قائم ہو سکتا تھا- پھر خود ہی میں نے جواب دیا کہ ملیر
کا علاقہ ہی ایسا علاقہ تھا جو ہر لحاظ سے صحت افزا قرار دیا جا سکتا
تھا-ملیر کے باغات-کھیت - دریا -ک نوئیں سب ہی ایک ساتھ مل کر اسے خوبصورتی
کی انتہا تک پہنچا رہے تھے دور دور تک امرودوں سے لدے ہوئے چھوٹے چھوٹے پیڑ
- سفید بادلوں سے ہم کلام کھجور کے درخت - سبزیوں اور انکی بیلوں کی صورت
میں نباتات مسکراتے رہتے تھے- نیلگوں آسمان پر خوبصورت پرندے پروں کو
پھیلائے ہوئے نظر آتے تھے - دریا کے کنارے ایک ٹانگ پر کھڑے بگلا نما پرندے
- کیا ہی سماں ہوتا تھا-
خلفائے راشدین کے بعد کے زمانے کی بات ہے کہ کسسی شہر میں ایک ہسپتال
کھولنے کے سلسلے میں کسی مناسب صحت افزا مقام کی تلاش شروع ہوئی - اس حوالے
سے فیصلہ کیا گیا کہ گوشت کے پارچے مختلف مقامات پر لٹکا دیجئے جائیں- جہاں
گوشت سب سے آخر میں خراب ہو اس مقام کو صحت افزا سمجھتے ہوئے وہاں ہسپتال
کی تعمیر کی جائے - لیکن ملیر کے اس سینی ٹوریم کے سلسلے میں یقین ہے ایسے
کسی تجربے یا امتحان کی ضرورت نہیں پڑی ہوگی کہ سب کو علم تھا کہ کراچی میں
اس سے زیادہ صحت افزا مقام کہیں اور نہیں-
مندر کے تقریباً سامنے ہی سڑک پار کر کے داہنی جانب ملیر سٹی کا اسٹیشن ہے
--کوئی ٹرین یہاں نہیں رکتی اور نہ مسافروں کو پتہ چلتا ہے کہ وہ کون سے
اسٹیشن سے گزر رہے ہیں - اس اسٹیشن کو دیکھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا
قول یاد آجاتا ہے “بے شک میں نے اپنے اللہ کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے
پہچانا “ -اس اسٹیشن کے بارے میں دہلی میں بیٹھ کر انگریزوں نے کیا کیا
خواب نہیں دیکھے تھے -کیا کیا نہیں سوچ رکھا تھا -کیا کیا منصوبہ بندی نہیں
کی تھی - لیکن آخر اس اسٹیشن سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے
سامان ہے سو برس کا
پل کی خبر نہیں
اور یہ ہے بھی حقیقت - کبھی کھڑے ہو کر اسٹیشن کا جائزہ لیں --چھوٹے بڑے
پلیٹ فارموں کی تعداد ہی گنیں تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے --اتنے سارے پلیٹ
فارم - جی ہاں چھ کے قریب پلیٹ فارم تو میں نے گنے ہیں ہو سکتا ہے اور بھی
ہوں
انگریزوں کے ذہن میں کیا تھا -----انہوں نے اتنا بڑا پلیٹ فارم کیوں بنایا
دراصل انہوں نے ملیر کی مٹی کی زرخیزی کا اندازہ لگا لیا تھا- وہ زیر زمیں
پانی کے ذخائر سے بھی آگاہ ہو گئے تھے -اس پانی کا تجزیہ بھی کر چکے تھے
-ملیر کے بڑے بڑے دہانوں والے کنوؤں سے بھی آشنا تھے - اردگرد بسنے والے
دہقانوں کی محنت اور جفا کشی کا اندازہ لگا چکے تھے - انہوں نے سوچا تھا کہ
آب پاشی کے جدید طریقے اپنا کر طرح طرح کی فصلیں اگائیں گے اور وہاں سے اس
اسٹیشن کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ منتقل کر کے اپنے دیس بھیجیں گے- لیکن یہ
ہو نہ سکا -وہ اس شعر کا انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے اپنے دیس کو سدھارے
تمنا جو نہ پوری ہو -- وہ کیوں پلتی ہے سینے میں
|