وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں خطاب معاملہ گھمبیر ہوگیا

پیر کو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف پیش کیا ہے، لیکن اپوزیشن نے وزیر اعظم سے جرح کرنے کی بجائے واک آﺅٹ کر کے اپنا کیس کمزور کر دیا۔ عام تاثر تھا پیر کو اپوزیشن وزیر اعظم کو ٹف ٹائم دے گی اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کی آمد پر ایوان میدان جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے، لیکن کوئی بڑا ہنگامہ نہیں ہوا اوراپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے کہنے پر تمام اپوزیشن جماعتوں نے واک آﺅٹ کردیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے خطاب سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔وزیراعظم نے ہمارے 7 سوالوں کے جواب تو نہیں دیے، تاہم ان کے خطاب سے مزید 70 سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم کے پاس ہمارے 7 سوالوں کے جواب ہی موجود نہیں ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ہمارے سوال انتہائی آسان تھے جن کی وضاحتیں ضروری تھیں، تاہم وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔وزیر اعظم نے جہاں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وہاں انہوں نے عدالتی کمیشن کے ٹی اور پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کر دی اور گیند اپوزیشن کی کورٹ میں پھینک کر پارلیمانی حل تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے قومی اسمبلی میں پاناما لیکس کے حوالے اپنے پالیسی بیان میں اپوزیشن کے تمام ترالزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ پاناما لیکس میں میرا نام نہیں، اس کے باوجود میں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن ہمارے ٹی او آرز پر مطمئن نہیں ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی قائد حزب اختلاف اوردوسری جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں۔ یہ کمیٹی باہمی مشاورت کے بعد تحقیقات کے لیے ٹی او آرز یا ضابطہ کار بنائے۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے، ہمیں کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں، ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کی تقریر مفاہمت، وضاحت سے زیادہ سبق اور اپنے خاندان کے کاروباری پس منظر پر محیط تھی،جس میں انہوں نے بہت ہی دکھ بھرے انداز میں اپنے حالات زندگی بیان کیے،لیکن اپوزیشن کے سوالات کے جوابات دینے سے گریز کیا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنی دکھ بھری کاروباری ہسٹری سنائی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سارا کاروبار ان کے والد محترم کا تھا جو میاں نوازشریف تک منتقل ہوا ہے، لیکن اگر یہی بات ہے تو پھر یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ تو میاں شہباز شریف کی فیملی کا نام پاناما لیکس میں کیوں نہیں آیا؟،حالانکہ میں نوازشریف اور میاں شہباز شریف دونوں بھائی ہیں اوروالد کا مشترکہ کاروبار مشترکہ طور پر دونوں بھائیوں کے حصے میں آیا ہوگا، لیکن پانامالیکس میں صرف میاں نوازشریف کی فیملی کا نام آیا ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب سے نہ تو اپوزیشن کے سوالات کا جواب دیاہے اور نہ ہی قوم کو مطمئن کرسکے ہیں۔ انہوں نے گول مول بات کر کے چھان بین کے عمل کو تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہناہے کہ میاں نوازشریف قوم کو بتاتے کہ سرمایہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں گیا اور کیوں گیا؟ اس سرمائے سے پاکستان میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کی گئی؟ لیکن انہوں نے ان تمام سوالات کے جواب کوپس پشت ڈال کرالگ سے کہانی چھیڑ دی ہے۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ نواز شریف نے لندن میں پہلا فلیٹ 1993ئ، جبکہ دوسرا فلیٹ 1995ئ، میں خریدا تھا۔ عمران خان نے شریف خاندان کے غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف میرے پاس دستاویزات موجود ہیں، جس کے مطابق مریم نواز کی ملکیت میں 2 کمپنیز ہیں۔ 2 کروڑ 44 لاکھ روپے نواز شریف نے مریم نواز کو تحفے میں دیے تھے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ 1981ءسے 1993ءتک نواز شریف کی اوسط ماہانہ تنخواہ 22 ہزار 600 روپے تھی۔

اپوزیشن نے کوئی شو رشرابہ کیے بغیر ایوان سے واک آﺅٹ کر دیا۔ اپوزیشن کے واک آﺅٹ سے وزیر اعظم کی سیاسی پوزیشن قدرے مستحکم ہو گئی ہے اوراس طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے اوپر آف شور کمپنی قائم کرنے سے متعلق الزامات پارلیمنٹ میں وضاحت دینے کا سنہری موقع خودہی گنوادیا ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے جال میں پھنس کر ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیر اعظم کی تقریر بڑی غور سے سنتے ہوئے نوٹ لے رہے تھے۔ عمران خان جس طرح وزیر اعظم کی تقریر کے نوٹس لے رہے تھے اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ نہ صرف میاں نواز شریف کی تقریر کا جواب دیں گے، بلکہ آف شور کمپنی کے بارے میں اپنا موقف بھی پیش کریں گے۔ تاہم ا ±ن کی یہ خواہش اس وقت دم توڑ گئی جب قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کا اعلان کردیا کہ چونکہ وزیراعظم نے پاناما لیکس سے متعلق اپوزیشن کی جماعتوں کے سات سوالوں کے جواب نہیں دیے، اس لیے وہ بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ عمران خان کی باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ اپوزیشن لیڈر کے اس فیصلے کے لیے تیار نہیں تھے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پاناما لیکس پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور فریقین پارلیمنٹ میں کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، مگر وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے احتساب کے لیے خود کو پیش کرنے اور اپوزیشن کے سوالوں کے جواب نہ دینے کے باعث برائے نام متحدہ اپوزیشن کم از کم واک آؤٹ کے ایشو پر متحد نظر آئی، لیکن تمام حلقے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہیں کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد قائد حزب اختلاف اور اسی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنا موقف اسمبلی فلور پر پیش کرنے سے قبل واک آؤٹ کیوں کر گئے، جس کا وقتی طور پر فائدہ حکمران جماعت ضرور اٹھا رہی ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے اسمبلی میں طرزعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری دونوں کو درمیانی راستہ نکال کر راضی کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلا گئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کئی روز سے واویلا کیا ہوا تھا اور وزیراعظم کی تقریر کے دوران اسمبلی میں موجود بھی رہے، لیکن جب موقع آیا تو وہ بھی اپنا موقف پیش نہیں کر سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کے پارلیمنٹ سے واک آﺅٹ کرنے سے میاں نواز شریف پر سے دباﺅ کچھ کم ہوا ہے اوریہ واک آﺅٹ پی پی کا میاں نواز شریف کے ساتھ تعاون تھا۔ پاناما لیکس بھونچال میں صرف مولانا فضل الرحمن میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور پانامالیکس بھونچال میں برملا حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کرچکے ہیں، یقینا مولانا ایک بڑے سیاست دان ہیں، لیکن اس کے باوجود میاں نوازشریف کو پی پی کے تعاون کی از حدضرورت تھی، ماضی میں بھی کڑے وقوتوں میں پی پی نے میاں نوازشریف کا ساتھ دیا، جبکہ میاں نوازشریف نے پی پی کا ساتھ دیا ہے، لہٰذا میاں نوازشریف پاناما لیکس معاملے میں بھی کئی روز سے پی پی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں مشغول تھے۔ مبصرین کا خیال تھا کہ پی پی اس بار پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اوروہ میاں نوازشریف کا ساتھ دینے کے موڈ میں نہیں ہے، لیکن اب پارلیمنٹ سے واک آﺅٹ کر کے اس نے ایک تیرسے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک تو عمران خان کے ساتھ ہاتھ کیا اور اس کے ساتھ میاں نوازشریف کے ساتھ خاموش تعاون اوراپوزیشن کے کسی رکن کو ناراض بھی نہیں کیا۔ مبصرین کے مطابق اپوزیشن نے واک آﺅٹ کر کے غلطی کی ہے، کیونکہ اگروہ پارلیمنٹ میں رہ کر میاں نوازشریف سے سوالات کے جواب طلب کرتے اور میاں نوازشریف ان کے سوالات کے جواب دے دیتے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میاں نوازشریف نے خود کو کٹہرے میں کھڑا کرلیا ہے۔ اپوزیشن کے پاس میاں نوازشریف پردباﺅ بڑھانے کا اچھا موقع تھا، لیکن انہوں نے واک آﺅٹ کر کے یہ موقع گنوا دیا ہے۔
خیال رہے کہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام آنے پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ حزب اختلاف کی 9 جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے 15 ٹی او آرز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کمیشن کی جانب سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تھا، جبکہ اس کے لیے 3 ماہ کی مدت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز حکومت نے مسترد کردیا اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تماشا قرار دیا تھا۔ وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے، جبکہ گزشتہ روز وزیراعظم نے ایک بار پھر کہا کہ اگر اپوزیشن ہمارے ٹی او آرز پر مطمئن نہیں ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی قائد حزب اختلاف اوردوسری جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں۔ یہ کمیٹی باہمی مشاورت کے بعد تحقیقات کے لیے ٹی او آرز یا ضابطہ کار بنائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟

پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خطاب سے یہ امید لگائی جارہی تھی کہ شاید معاملات بہتری کی طرف جائیں اور پانامالیکس پر پھیلی ہلچل میں کچھ کمی دیکھنے کو ملے، لیکن افسوس معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ بیس کروڑ عوام پریشان ہیں کہ پانامالیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، تاہم جہاں تک وزیراعظم کی پانامالیکس پر ٹی او آرز بارے پارلیمانی کمیٹی بارے قائد حزب اختلاف سے مشاور کا تعلق ہے تو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت معاملے کو اس قدر پیچیدہ کرنے کی بجائے شروع دن سے سنجیدگی کے ساتھ لیتی اور اپوزیشن کو اس معاملے میں اعتماد میں لے کر چلتی۔ حکومت کی اسی غفلت نے اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع دیا اور اب وہ جس طرح حکومت پرتابڑ توڑ حملے کررہی ہے اس کے باعث آنے والے دنوں میں سیاسی منظرنامے میں تلخی مزید بڑھنے کامکان ہے۔ پاناما لیکس معاملہ ایک مرتبہ پھرڈیڈلاک کا شکار ہوگیا ہے، جس کا ملک کسی صورت حال میں متحمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم عوامی حلقے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے غیرجانبدارانہ عمل کے لیے بے تاب ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.