چھ عشروں سے زیادہ کی تاریخ گویا انہوں نے
کھول کر سامنے رکھ دی۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں سے لے کر ملک کے دولخت
ہونے تک کے اہم واقعات کے وہ عینی شاہد تھے اور یادداشت ایسی کمال کہ چھوٹی
اور معمولی باتیں بھی ایسی ذہن نشین جیسے کل کی بات ہو۔ تین ہجرتوں پر
مشتمل نصف صدی سے زیادہ عرصے کی تاریخ کا یہ سفر وائس آف امریکہ اردو سروس
کے مینیجنگ ایڈیٹر جناب رضی احمد رضوی کا ہے۔ خوش نصیبی سے اسٹاک ہوم میں
ان سے ایک یادگار ملاقات ہوئی۔ پاکستان کے ابتدائی دور سے انہوں نے اپنی
گفتگو کا آغاز کیا اور بتایا کہ ان کی پیدائش۱۲جنوری ۱۹۴۴ء کو بھارت کے
صوبہ بہار میں ضلع گیا کے ایک چھوٹے سے قصبے رفیع گنج میں ہوئی۔ گیا وہی
مقام ہے جس کے قریب ہی واقع بودھ گیا میں روایات کے مطابق گوتم بدھ کو
نروان حاصل ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد۱۹۵۲ء میں وہ اپنے خالہ زاد بھائی
واعظ الرحمن (جو بعد میں حبیب بینک کے سینئر وائس پریزیڈنٹ بنے) اور اپنے
چچا زاد بھائی امان اﷲ بخاری کے ہمراہ اپنے بڑے بھائی غیور حسین کی نگرانی
میں مشرقی پاکستان جانے کے لیے کلکتہ کے سیالدہ ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ جب
اسٹیشن پر ریل گاڑی پر اردو میں پاکستان ریلوے لکھا دیکھا تو سمجھے کہ
پاکستان پہنچ گئے ہیں اورگاڑی دیکھتے ہی جذباتی ہوگئے اور زور زور سے تینوں
نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ حالات ان دنوں خوش گوار
نہیں تھے۔ ان کے بڑے بھائی صورتِ حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے تینوں کو
انتظار گاہ میں لے آئے۔ پہلے وہ راج شاہی اور پھر ڈھاکہ پہنچے۔ ابتدائی
تعلیم وہیں حاصل کی اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد ریڈیو
پاکستان ڈھاکہ سے اردو میں مقامی خبریں پڑھنا شروع کیں۔ سنہ۱۹۶۶ء میں انہوں
نے 'پی پی آئی' نیوز ایجنسی سے – جو اس وقت 'پی پی اے' کہلاتی تھی – اپنی
صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ سنہ ۱۹۶۷ء میں انہوں نے پاکستان ٹیلی
ویڑن کے ذیلی ادارے 'ایشین ٹیلی ویڑن' میں کراچی میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ
۱۹۷۰ء کے عام انتخابات سے قبل وہ پی ٹی وی کراچی کے شعبہ خبر سے منسلک
ہوگئے۔
اس کا پسِ منظر بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ۱۹۷۰ء کے تاریخی انتخابات سے
پہلے کی بات ہے جو متحدہ پاکستان کا آخری الیکشن ثابت ہوا۔ اس موقع پر
الیکشن ۷۰ء کے نام سے پاکستان ٹیلی ویڑن پر طویل نشریات کا اہتمام کیا گیا
تھا جو لوگوں کو آج تک یاد ہے۔ اور اتنے برس گزر جانے کے باوجود اس وقت
جنہوں نے یہ نشریات دیکھی تھیں، وہ اسے اب بھی یاد کرتے ہیں۔ ان دنوں کراچی
ٹیلی ویڑن سینٹر کے جنرل منیجر اسلم اظہر صاحب تھے جو بعد میں پی ٹی وی کے
منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے اور ٹیلی ویڑن کے لیے جن کی گراں
قدر خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جب وہ الیکشن ۷۰ء کی خصوصی نشریات کو
کراچی میں منظم کر رہے تھے تو انہیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جو مشرقی
پاکستان کی سیاست اور وہاں کی سیاسی شخصیات سے بخوبی واقف ہو اور ان کے
بارے میں مستند معلومات رکھتا ہو۔ انہوں نے ایشین ٹیلی ویڑن سروس کے جنرل
منیجر نور الاسلام صاحب سے رابطہ کیا جو بنگالی تھے اور نہایت باصلاحیت شخص
تھے۔ انہوں نے میرا نام تجویز کیا اور کہا کہ وہ آپ کے لیے بہت کارآمد رہے
گا۔ اسلم اظہر صاحب سے اس طرح ملاقات طے ہوئی اور گفتگو کے بعد انہوں نے
بلاتامل میرا انتخاب کرلیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈھاکے میں قیام کے دوران
اسی دشت کی سیاحی میں میرا وقت گزرا تھا۔ اس طرح میں ایشین ٹیلی ویڑن سے
عارضی طور پر کراچی ٹیلی ویڑن سینٹر آگیا۔ ادارہ چونکہ ایک ہی تھا، اس لیے
اسلم اظہر صاحب نے بہ کمالِ شفقت مجھے پھر نہ چھوڑا اور میں یہیں کا ہو کر
رہ گیا۔ تاوقتیکہ میرا تبادلہ اپریل ۱۹۷۲ء میں راولپنڈی ٹیلی ویڑن سینٹرپر
نہ ہوگیا جہاں مجھے نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ یہ وہ زمانہ
تھا جب پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس وقت ملک
کو بے پناہ داخلی اور خارجی مسائل کا سامنا تھا اور فضا میں ایک عجیب بے
یقینی اور مایوسی کی کیفیت طاری تھی۔ آگے کی کہانی بہت طویل بھی ہے اور دل
چسپ بھی جو پھر کبھی سہی۔
رضی احمد رضوی صاحب سے ملاقات کے دوران مختلف النوع موضوعات زیرِ گفتگو آتے
رہے اور انہوں نے بہت سی یادوں کا احاطہ کیا۔ اسی دوران ۱۹۶۹ء میں رباط میں
ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا
کہ بھارت نے گربچن سنگھ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے بھیج دیا تھا جو ایک
سکھ تھے۔ لیکن جب صدر یحیٰ خان نے انہیں کانفرنس ہال میں دیکھا تو سخت موقف
اختیار کیا جس پر بھارتی وفد کو کانفرنس میں شرکت سے روک دیاگیا۔ یحیٰ خان
کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان میں کئی خامیاں ہوں گی لیکن
وہ محبِ وطن انسان تھے۔ مزارِ قائد کی تعمیر برسوں سے تعطل کا شکار تھی جسے
انہوں نے ہی اپنے دورِ حکومت میں جلد مکمل کرایا۔پاکستان کی سیاست میں ان
کا کردار خاصا متنازع سمجھا جاتا رہا ہیاور یہ الگ لمبی بحث کا موضوع ہے۔
انہوں نے ضمنا یاد دلایا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یحیٰ خان کے دورِ
صدارت میں پاکستان کے دولخت ہونے سے کچھ ہی عرصہ پہلے نائب وزیرِاعظم اور
وزیرِ خارجہ کے عہدے قبول کیے۔
گفتگو کے دوران صحافتی کیریئر کے دوران کسی یادگار سیاسی واقعے سے متعلق
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں اس واقعے کا عینی شاہد ہوں کہ
۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو جب ڈھاکے میں فوجی ایکشن کیا گیا تو بھٹو صاحب وہیں موجود
تھے اور دو دن بعد غالباً ۲۷مارچ کو کراچی پہنچے۔ ہوائی اڈے کے ٹرمیک پر
صرف دو اخباری نمائندوں سے ان کی ملاقات ہوئی جن میں میرے علاوہ اے پی پی
کے نمائندے آئی اے خان تھے جو آج کل لندن میں رہتے ہیں۔ ڈھاکے سے کراچی
ایئر پورٹ پر اپنی آمد کے بعد بھٹو صاحب نے وہاں اوپر گیلری میں موجود
لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا، "خدا کا شکر ہے کہ
پاکستان کو بچالیا گیا "۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ یقیناً پاکستان کی تاریخ
کا ایک سبق آموز باب ہے اور اس پر کافی بحث ہوتی رہی ہے لیکن سنجیدہ اور
حقیقت پسندانہ تجزیہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کو کیا کیجئے کہ شاید
احساسِ زیاں ہی جاتا رہا۔
شملہ کانفرنس میں جانے سے قبل رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے بھٹو صاحب نے
مختلف وفود سے ملنا شروع کیا۔ اس حوالے سے رضی احمد رضوی بتاتے ہیں کہ ایک
دن علما کے وفد کے ساتھ مری میں ملاقات ہورہی تھی اور وہ پی ٹی وی کے لیے
وہاں کارروائی ریکارڈ کر رہے تھے۔ وہیں محکمہ اطلاعات کے ایک عمر رسیدہ
فوٹوگرافر بھی تصاویر بنا رہے تھے کہ کچھ علما نے اپنا چہرہ چھپانا شروع
کردیا۔ جس پر بھٹو نے اجلاس کے دوران خود بھی ناگواری کا اظہار کیا اور اس
بزرگ فوٹوگرافر کی اتنی تنبیہ کی کہ وہ بے چارے سکتے میں آگئے۔ انہوں نے
بھی اپنے کیمرہ مین کو پیچھے کھینچا اور فوری ریکارڈنگ بند کرنے کو کہا۔
جنرل ضیا الحق کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ایک بات جس سے بہت سے لوگ متفق
تھے کہ وہ بظاہر ایک منکسر المزاج انسان تھے اور لوگوں کا دل جیتنے کا فن
جانتے تھے، اس سے قطعِ نظر کہ بہت سے لوگ ان کے بارے میں مختلف نقطہء نظر
رکھتے ہیں اور ان کی پالیسیوں اور کار گزاریوں، خاص طور پر ان کی افغان
پالیسی کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
عالمی شخصیات سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ امریکی وزیرِ
خارجہ ہنری کسنجر جب پہلی بار چین گئے تو راول پنڈی میں ان کا انٹرویو کیا۔
سابق ایرانی صدر ڈاکٹر ابوالحسن بنی صدر، سابق بھارتی وزیرِ اعظم آئی کے
گجرال، ایل کے ایڈوانی، مشہور صحافی کلدیپ نیر، شاعر اور ادیب جگن ناتھ
آزاد، عبدالستار ایدھی، بے نظیر بھٹو،میاں نواز شریف، الطاف حسین، خان
عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، عبدالصمد خان اچکزئی، نوبیل انعام یافتہ
سائنس دان نورمن برلاگ اور بہت سی دیگر عالمی شخصیات کے بھی انٹرویو کیے جن
کی ایک طویل فہرست ہے۔
مختلف واقعات کے حوالے سے گفتگو جاری تھی کہ رضی احمد رضوی نے بتایا کہ جب
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کراچی ٹیلی ویڑن سے خبر نشر ہوئی تو ایسے میں جب پوری
قوم ایک سانحے سے دوچار تھی، ایک ناظر نے نیوز ایڈیٹر کو ٹیلی فون کیا کہ
سقوط کے لفظ کاتلفظ درست ادا نہیں ہوا، اس پر توجہ کریں۔ ان کے فون پر پہلے
تو نیوز ایڈیٹر برہان الدین حسن صاحب نے تحمل اور خاموشی سے انہیں ٹالنے
اور ٹیلی فون بند کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں ان کے صبر کا پیمانہ بھی
لبریز ہوگیا اور انہوں نے ان صاحب کی اچھی خبر لی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر بہت سے بھارتی اور پاکستانی رہنماوٗں اور
اعلیٰ عہدیداروں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
ہماری ناقص رائے میں پاکستان کے سیاست دان اور افسران رعونت، نمود و نمائش
اور فضول خرچی کو اپنی شان سمجھتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بھارتی رہنما
بظاہر عاجزی، سادہ طرزِ زندگی کے حامل اور ظاہر پرستی سے بہت دور نظر آتے
ہیں۔ حتی کہ کئی سال پہلے بھارت کے دورے میں میں نے دیکھا کہ بیشتر اعلیٰ
عہدے دار جن میں سینئر فوجی افسران بھی شامل تھے بھارت ہی کی بنی ہوئی
کار'ایمبیسیڈر' استعمال کر رہے تھے۔
اردو زبان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں اردو کی
نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں اور اس سے مختلف لہجے بھی سامنے آرہے ہیں۔ یہ
لہجے اردو کی خوب صورتی میں اضافہ ہیں اور ہمیں انہیں ہدفِ تنقید نہیں
بنانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے اور علاقوں کی طرح پنجاب نے یقیناً
اردو کی بہت خدمت کی ہے اور اب یہ اردو کا بہت بڑا خطہ خیال کیا جاتا ہے۔
خبروں کے معیار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بیشتر صورتوں میں کم از کم دو
مستند ذرائع سے تصدیق کے بعد ہی خبر قابلِ نشر و اشاعت ہونی چاہیے۔ انہوں
نے بتایا کہ وائس آف امریکہ میں اسی اصول کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ صحافت،
سیاست، تاریخ، ادب اور عالمی امور پر ان سے اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں
جنہیں ایک کالم میں سمونا محال ہے۔ ان کا دھیما لہجہ اور خوب صورت باتیں دل
پر اثر کرنے والی ہیں، اسی لیے قارئین کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ |