ہجرتوں کا سفر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم !

ہم سب اپنے دیہات میں تھے-ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر پانچ گھر ملے ہوئے تھے، وہاں عورتوں اور بچوں کو رکھا گیا تھا- پھر ملٹری کے ٹرک آئے تو ہم اس میں بیٹھ کر روانہ ہوئے- بس تن کے کپڑے تھے باقی بھرا پرا گھر اسی طرح چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔

معزز قارئین ! آپ اسے یقیناَ َ آئی ڈی پیز کے بارے میں لکھا گیا مضمون سمجھ رہے ہونگے! اس حد تک تو آپ درست ہیں کہ یہ اپنے گھر کو ناگہانی طور پر چھوڑنے والوں کی کہانی ہے مگر یہ آج کے مہاجرین نہیں بلکہ ٦٣ سال پہلے اپنے گھر،شہر اور ملک چھوڑنے والوں کی کہانی ہے اور یہ کہانی میری والدہ کی یادیں ہیں جنہوں نے بارہ سال کی عمر میں ہجرت کی تھی اور اپنی چھوڑی گئی گڑیوں، گھر کےگھڑیال اور گھڑوں (اس دور کےایک بچے کی نظر میں انہی چیزوں کی اہمیت ہوسکتی ہے ! مگر زرا ان کے صوتی آہنگ پر غور کریں ) کا ذکر زندگی بھر حسرت سے کرتی رہیں- میری والدہ جن کے انتقال کو ایک سال گزرا ہے ہر سال اگست کے آغاز سے ہی جذباتی ہوجاتی تھیں اور ١٤ اگست کو تو ان کی بے چینی عروج پر ہوتی تھی۔ جس کی ایک وجہ تو وہ یادیں ہوتی تھیں جن سے گزر کر ارضِ وطن حاصل کیا گیا تھا اور دوسرا اس مقصد سے دوری کا احساس جس کے لئے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا تھا؟

گزشتہ سالوں میں نظریہ پاکستان کو دھندلانے کی جو سازشیں ہورہی ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ اس کو نہ صرف ہر وقت تازہ رکھا جائے بلکہ آنے والی نسلوں کو ذہن نشین بھی کرایا جاتا رہے اس کے لئے ضروری محسوس ہوا کہ ان معمر افراد کو جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا ہے، ان کی براہ راست معلومات کے ذریعے ان جذبات کو مہمیز کیا جائے جو تحفظِ پاکستان اور استحکامِ پاکستان کے لئے بے حد ضروری ہیں!

اس مقصد کے لئے پہلی نگاہ اپنی والدہ پر پڑی،ایک شاندار حافظے کی مالکہ امی جان جب ان واقعات کو دہراتی تھیں تو ان کی آنکھوں میں ایک نادیدہ چمک آجاتی تھی۔ یہ ساری باتیں پہلے کبھی تحریر میں نہ آسکی تھیں مگر دو سال قبل میں ان سے ان کی یادیں لکھوانے میں کامیاب ہوگئی (شائد انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا آخری اگست ہے اور سنی اور دہرائی باتیں حافظے سے محو ہوجائیں گی اور یوں وہ ایک طرح سے تاریخ کی مقروض ٹھہریں گی ) بہر حال اب اس تحریر کا کچھ حصہ نذر قارئین ہے آپ اس کا موازنہ آج کے حالات سےضرور کریں۔

ابا جان ملٹری میں تھے لہٰذا انکی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوتی تھی لیکن چھٹیاں اور تہوار ہم اپنے گائوں میں ہی مناتے تھے۔١٩٤٦ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر صوبہ بہار میں بدترین فسادات ہوئے تو ہم بھی وہیں تھے-ہنگاموں کی اطلاع ملتے ہی مسلمان چوکنے ہوگئے تھے،خوب نعرے لگ رہے تھے-عورتوں ،بوڑھوں بچوں کو ایک ایک جگہ جمع کردیا گیا جبکہ مرد اور لڑکے پہرہ دے رہے تھے۔پھر ملٹری کے ٹرک آگئے جس میں سوار ہوکر ہم سب وہاں سے نکلے۔۔۔۔۔۔َ ( ان فسادات کی تفصیل کئی ناولز کا حصہ ہیں اور مشہور بھارتی شاعر کلیم عاجز کی آپ بیتی میں ان کی جھلک نظر آتی ہے )

اماں نے سلائی مشین اور اسکے اندر ہزار روپے رکھ لئے اور دادی نے مٹکے میں تھوڑا سا اناج بھر کر لے لیا مگر آگے چل کر یہ دونوں چیزیں بھی چھوڑنی پڑیں۔سب لوگ بہار شریف چلے گئے صرف چند لوگ رہ گئے جنہوں نے جانے سے انکار کردیا تھا-اگلے دن بقر عید تھی۔گوشت کا حصہ آیا،بہت برا حال تھا ٹرک پر بہت سے لوگوں کا زیور چوری ہوگیا تھا (اخلاقی بحران اس عالم میں بھی اپنا رنگ دکھا رہا تھا ) اباجان لکھئو میں تھے پندرہ دن بعد آئے

فسادات ختم ہوجانے کے بعد لوگ اپنے گاؤں آئے تو ہر چیز تہہ و بالا تھی جو لوگ گاؤں میں رہ گئے تھے ان میں ایک بزرگ مجید دادا نے عبادت میں مصروف ہونے کی وجہ سے اور ایک سر پھر سی ضدی خاتون الفن بوا نے اپنا گھر لیپنے، پوتنے کی وجہ سے انکار کردیا تھا، یہ لوگ حیران تھے کہ رات بھر گاؤں میں نہ جانے کیوں بہت شور ہورہا تھا ۔۔۔۔۔؟؟ ( کتنے دلچسپ کردار ہیں ) ابا جان کے آنے کے بعد ہم لوگ بمبئی چلے گئے کیوں انہوں نے لکھ کر دے دیا تھا کہ ہم پاکستان جائیں گے ! اس صاف اور واضح فیصلے پر ان کے ہندو کولیگز نے بہت مذاق اڑایا ۔۔۔۔۔ کہ وہاں جاکر مٹی پھانکو گے،اباجان کا ایک ہی جواب تھا کوئی بات نہیں!! وہ ایک پر جوش مسلم لیگی تھے اور جدو جہد پاکستان میں دل و جان سے شریک تھے۔

بمبئی میں ہم لوگ بارہ دن رہے- فلیٹ میں بہت ہجوم تھا- اس کے بعد پانی کے جہاز سے کراچی آئے، پورے سفر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے اور اپنے دوپٹے پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کا جھنڈا بناتے رہے - دادی جان کو ان کی پرجوش شخصیت کے باعث جہاز والوں نے َ َ بی اماںَ َ کا خطاب دیدیا اور وہ اس پر کافی مسرور تھیں - پھر کراچی پہنچ کر زندگی کا سفر ایک نئے انداز سے شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔ یہاں نہ صرف ہمارے رشتہ دار بلکہ ہر جگہ سے لوگ آئے۔ سب سے مل جل کر حالات کا مقابلہ کیا- سب کو یہ فکر تھی کہ ہم نے کلمہ کا نعرہ لگا کر یہ ملک حاصل کیا ہے تو اس کا خیال رکھنا ہے ! مگر شروع دن سے ہی پاکستان کے مخالف اس کا برا چاہتے تھے اسی لئے نا انصافی کی گئی اور پاکستان کا حصہ ہندوستان میں شامل کردیا گیا۔۔۔

کراچی آکر برنس روڈ کےایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہوئے-قائد اعظم کو اکثر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا- پاکستان کی پہلی سالگرہ کا ولولہ انگیز منظر آج بھی ایک گداز پیدا کردیتا ہے، پھر جب قائد اعظم کا انتقال ہوا تو سب کا رو رو کر برا حال تھا- سب دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے،ان کا باپ جو ان سے جدا ہوگیا تھا- ہم سب پیدل چل کر ان کی قرآن خوانی میں شریک ہوئے حالانکہ بسیں بھی چلائی گئی تھیں-اس موقع پر ہمارا پانچ سالہ اکلوتا بھائی ضیاء الہدیٰ رش میں گم ہوگیا اسکو ڈھونڈنا تھا چنانچہ ہم بچوں کو گھر بھجوا دیا گیا اور بڑے لوگ اس کو تلاش کرتے رہے- ہم پریشان گھر پہنچے تو منا فلیٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہواتھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پولیس نے اس کو گھر تک پہنچایا ۔۔۔ ( پولیس کا یہ کردار اب کہاں جو ایک نئے پاکستان میں تھا؟)

امی کی منظر نگاری خودبخود آنکھوں میں آنسو رواں کردیتی تھی اور ہم ماضی میں کھو جاتے تھے-الفاظ ان جذبات کی درست ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں- آگے امی نے لکھا کہ قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان بھی شہید کردئے گئے - وہ لوگ کم ہوتے گئے جنہوں نے پاکستان کا مقصد صحیح طرح سے سمجھا تھا اور پھر مشرقی پاکستان میں جدا کردیا گیا۔ حالات نہ جانے کیوں بگڑتے چلے گئے، جو لیڈر آئے اپنا بناتے رہے- فوجی جنرل آکر اقتدار پر قبضہ کرتے رہے- پرویز مشرف کے دور میں انتہا ہوگئی۔ ( یہ یادیں دو سال قبل قلم بند کی گئیں تھی)انصاف ختم کردیا گیا-آٹا، چاول مہنگا اور ملتا بھی مشکل سے ہے۔ حالات سے گھبرا کر بہت سارے لوگ امریکہ اور غیر ممالک چلے گئے حالانکہ اگر اسی جذبے سے یہاں کام کرتے تو قوت بن کے برے لوگوں کو کمزور کردیتے ۔۔۔۔۔ ( یہاں پر والدہ آبدیدہ ہوگئی تھیں، اپنے قریبی اعزہ کی غیر ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی جنون کو یاد کر کے! جس کو مقصدِ حیات بنا کر وہ لوگ خوش تھے اور ان کی کامیابی کے بعد امی ان کی جدائی سے نڈھال تھیں ۔۔۔) لوگ آتے جاتے رہیں گے مگر پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور رہے گا انشاء اللہ ! پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔ پاکستان کو اللہ ہمیشہ اچھا رکھے ! آمین۔

قارئین ! اس تحریر کے ہر جملے میں پاکستان کے مسائل کا دکھ اور اس کی بدحالی پر افسوس، اس کے لئے نیک تمنائیں اور خواہشات اور اس کے مکینوں کی لاپرواہی کا کرب چھپا ہوا ہے- کاش کہ موجودہ نسل بھی اس کو محسوس کرسکے اور صاحب اختیار لوگ بھی اسی دلسوزی کے ساتھ کام کرسکیں ۔

تاریخ وہ آئینہ ہے جس سے مستقبل کے خدو خال سدھارے جاسکتے ہیں اس لئے تاریخ کا مطالعہ اور تجزیہ ہر عشرے کے بعد اس کو کرنے والوں لئے از حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں کم ہی صحیح مگر اب بھی ہمارے گھروں میں ایسے کردار موجود ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا ہے اور ہجرت کے کرب سے گزرے ہیں- نئی نسل صرف جئے مہاجر، جئے بلوچ اور دیگر قوم پرستی کے نعرے لگا کر کس طرح اس دکھ کو سمجھ سکتی ہے؟ جب مقصد عظیم ہو تو ہجرت کا وہ درد جو اپنے رشتوں کو کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے کیسے راحت میں بدل جاتا ہے؟؟؟ متحدہ قومیت کا نعرہ لگانے والے آج بھی سرگرم ہیں اور کل بھی تھے ! جب کہ ہم تو جداگانہ قوم ہیں۔ ہمارا مذہب اور تہذیب علیحدہ ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا تھا اور برقرار رہے گا- انشاء اللہ

جہاں تک ہجرت کا سوال ہے تو مہاجرین آج بھی ہیں ! ذرا ان لوگوں کے کرب کو سمجھئے جو اغیار کی خوشنودی کے لئے اپنے گھروں سے دربدر کئے جارہے ہیں- اپنے ہی ملک میں اپنی ہی شناخت کے لئے تباہ کئے جارہے ہیں - اپنی ہی فوج کے ہاتھوں تاراج ہو رہے ہیں کیا اس زخم کا کوئی مداوا ہے؟؟؟؟؟
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.