رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار، غزوات اور جنگوں کا احوال - 23

تجدید معاہدہ کی کوشش
جنگ موتہ میں عرب قبائل کی طرف سے حصہ لینے اور قبیلہ خزاعہ کے لوگوں کو ظالمانہ انداز میں قتل کئے جانے کے بعد صلح حدیبیہ کا عہد وپیمان توڑنے پر ابوسفیان اس بات کو بھانپ گیا کہ یہ گستاخی بغیر سزا یوں ہی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ درحقیقت قریش نے لشکر اسلام کےلئے خود ہی حملہ کا مواقع فراہم کر دیا تھا۔ اس لیے وہ لوگ فوراً ہی مدینہ پہنچے کہ شاید معاہدہ کی تجدید کرلیں۔

ابوسفیان مدینہ میں اپنی بیٹی رسول خداﷺ کی زوجہ ”ام حبیبہ“ کے گھر پہنچا چونکہ باپ اور بیٹی نے کئی سال سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے باپ کا خیال تھا کہ بیٹی بڑے اچھے انداز سے استقبال اور پذیرائی کرے گی اور اس طرح وہ اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن جب رسول خدا ﷺ کے گھر میں وارد ہوا اور چاہا کہ بستر پر بیٹھ جائے تو بیٹی نے بے اعتنائی کے ساتھ بستر کو لپیٹ دیا۔ ابوسفیان نے تعجب سے پوچھا کہ ”تم نے اس کو لپیٹ کیوں دیا؟“ بیٹی نے جواب دیا کہ ”آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اور میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ آپ رسول خداﷺ کی جگہ بیٹھیں۔“

ابوسفیان نے صلح نامہ کی مدت بڑھانے کے لئے رسول خداﷺ سے رجوع کیا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموشی اختیار کی، ابوسفیان نے بزرگوں میں سے ہر ایک سے وساطت کے لئے رابطہ قائم کیا مگر نفی میں جواب ملا۔ حضرت علی علیہ السلام کی رہنمائی میں ابوسفیان مسجد کی طرف آیا اور یک طرفہ صلح نامہ کی مدت میں اضافہ کا اعلان کیا پھر غصہ اور مایوسی کے عالم میں بغیر کسی نتیجہ کے مکہ واپس پلٹ گیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۳۸،۳۹)

رسول خداﷺ اس فکر میں تھے کہ مکہ یہ خانہ توحید جو مشرکین کے گھیرے میں ہے اس کو آزاد کرا دیں لیکن اس سے صلح حدیبیہ مانع تھی۔ مسلمان نہیں چاہتے تھے کہ اس معاہدہ کو کچل کر مکہ فتح کریں جس کی رعایت کے لئے انہوں نے اپنے کو پابند بنایا تھا لیکن جب کسی امت کا وقت قریب آتا ہے اور مہلت کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو الٰہی قانون کے مطابق ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ایک قوم یا گروہ کا خاتمہ ہو جائے اور ان کے مدمقابل کے لئے کامیابی کا راستہ کھل جائے۔ موتہ کی جنگ اس بات کا سبب بنی کہ قریش مسلمانوں کو کمزور سمجھنے لگے اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑنے کی سوچنے لگے۔ اس لیے کہ جب رومیوں کے مقابلہ سے مسلمانوں کے بیٹھ رہنے کی خبر مکہ میں پہنچی تو قریش نے اس کو لشکر اسلام کی کمزوری پر محمول کیا اور مسلمانوں کے ہم پیمان اور ہمدرد قبیلوں پر ان کی جرات بڑھ گئی۔ صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق کوئی بھی قبیلہ دونوں گروہوں، قریش یا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرسکتا تھا۔ خزاعہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور بنی بکر نے قریش سے معاہدہ کیا سنہ8 ہجری میں خزاعہ اور بنی بکر کے درمیان جھگڑا ہوا قریش نے اس حملہ میں خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی خفیہ طریقہ سے مدد کی اور چہروں پر نقاب ڈال کر ان کےساتھ مل کر حملہ کیا۔

پیغمبر ﷺ کے حکم سے لشکر تیار ہوا اور اس کی سپہ سالاری عمرو بن عاص کے سپرد ہوئی کیونکہ ان کی بڑی ماں قبیلہ بکی سے تھیں، رسول خدا ﷺ نے چاہا کہ عمر عاص کو سپہ سالاری دے کر اس گروہ کے قلب کو اسلام کی طرف مائل کیا جائے، عمرو بن عاص دن میں کمین گاہ میں چھپے رہتے اور راتوں کو سفر کرتے جس وقت دشمن کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ رسول خداﷺ نے ابوعبیدہ جراح کو دو سو افراد کے لشکر کے ایک دستہ کےساتھ ان کی مدد کے لئے بھیجا، عمرو بن عاص کے لشکر نے ابوعبیدہ کے امدادی لشکر کے ساتھ قبائل بکی، عذرہ اور بلقین کے تمام رہائشی علاقہ کا دورہ کیا لیکن دشمن پہلے ہی آگاہ ہو کر اس علاقہ سے بھاگ گیا صرف آخری مقام پر لشکر اسلام اور لشکر کفر کے درمیان ایک گھنٹہ تک ٹکراؤ ہوا جس میں ایک مسلمان زخمی ہوا اور دشمن شکست کھا کر فرار کر گیا۔ (مغازی واقدی جلد۲ ص ۷۷۲،۷۷۹ تاریخ طبری ج۳ ص ۳۳،۳۲ ملخص)

(شیعہ مدارک میں یہ واقعہ یوں درج ہے۔ رسولِ خداﷺ نے صحابہ میں سے تین افراد ( حضرت ابوبکر، عمر اور عمرو بن عاص) کو اس سریہ کا امیر مقرر فرمایا لیکن وہ لوگ جنگی کامیابی حاصل نہ کرسکے اس لیے آنحضرت ﷺ نے چوتھی بار حضرت علی علیہ السلام کو امیر بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا اور آنحضرت نے علی علیہ السلام اور سپاہیوں کو مسجد احزاب تک رخصت کیا۔

علی علیہ السلام صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہوئے، دشمن ایک گروہ کثیر کےساتھ حملہ روکنے کے لئے آگئے لیکن علی علیہ السلام کی بے امان جنگ و پیکار نے دشمن کے دفاعی حملہ کو ناکام بنا دیا اور دشمن کو شکست دینے کے بعد علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز ہو کر مالِ غنیمت اور اسیرانِ جنگ کے ساتھ رسول کی خدمت میں پلٹے پرورگار نے ”سورة والعادیات میں اس واقعہ کا یوں ذکر کیا ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔۔۔۔” والعادیات صنباہ فالموریت قد حاہ فالمغیرات ضحجا فاثرن بہ نقعا فوسطن بہ جمعاہ“
قسم ہے ان گھوڑوں کی جو نتھنوں پر پتھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں ،پھر صبح دم حملے کرتے ہیں۔کفار کے دیار میں وہ گرد و غبار بلند کرتے ہیں اور دشمن کے دل میں گھس جاتے ہیں۔(ارشاد شیخ مفید ص ۹۰،۸۹ مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۲۸ بحارالانوار ج۲۱ ص ۷۶،۷۷ مناقب ابن شہر آشوب ج۳ ص ۱۴۲،۱۴۰)

لشکر مدینہ واپس آیا، لوگ نہایت برانگیختہ اور غیظ و غضب کے عالم میں تھے اور سپاہی ملول و خاموش، لوگ آگے بڑھے اور خاک اٹھا کر سپاہیوں کے چہروں پر ڈالنے اور شور کرنے لگے کہ ”اے فراریو، تم لوگ خدا کے راستے سے فرار کرتے ہو۔ سپاہی اپنے گھروں میں چلے گئے اور ملامت کے خوف سے ایک مدت تک گھروں سے باہر نہ نکلے یہاں تک کہ نمازجماعت کے ساتھ ادا کرنے کےلئے بھی نہیں آتے تھے۔ پیغمبر نے فرمایا”یہ لوگ فراری نہیں اور انشاءاللہ حملہ کرنےوالے ہو جائیں گے۔“ (مغازی ج۲ ص ۷۶۵)
رسول خداﷺ جعفر ابن ابی طالبؑ کے سوگ میں

مسلمان خصوصاً حضرت جعفر ؑکی موت سے رسول خدا ﷺبے حد غمگین تھے، حضرت جعفرطیار ؑ کے شہید ہونے کی وجہ سے آپ شدت کےساتھ گریہ کر رہے تھے حضرت جعفرؑ کے گھر والوں کی تسلی کےلئے ان کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے فرمایا کہ”میرے بچے، عون و محمد و عبداللہ کہاں ہیں؟“
جناب حضرت جعف
رؑ کی بیوی ”اسماء“ بیٹوں کو رسول خداﷺ کی خدمت میں لائیں۔ آنحضرت نے شہید کے بچوں کو پیار کیا گلے لگایا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل کر داڑھی پر بہنے لگے۔ حضرت جعفرؑ کی بیوی نے پوچھا”اے اللہ کے رسول ﷺمیرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ میرے بچوں پر اس طرح نوازشیں کر رہے ہیں جیسے کسی یتیم پر ہوتی ہیں گویا ان کے باپ اس دنیا میں نہیں رہے؟“

رسول خدا ﷺنے فرمایا” ہاں وہ قتل کر دیئے گئے۔ پھر فرمایا”اے اسماء ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زبان سے کوئی ناروا بات نکالو اور سینہ کوبی کرو میں تم کو مژدہ سناتا ہوں، خدا نے حضرت جعفرؑ کو دو پر عنایت کئے ہیں جن سے وہ بہشت میں پرواز کرتے ہیں۔(بحارالانوار ج۲۱ ص ۵۶، ۵۷)

جنگ ذات السلاسل
جمادی الثانی 8ہجری قمری میں
رسول خدا کو یہ اطلاع ملی کہ قبائل ”بکی“ اور ”قضاعہ“ کے کچھ لوگ جمع ہو گئے ہیں اور مدینہ پر پہنچانے کےلئے عمرو ابن خزاعہ کو رسول خدا کی خدمت میں بھیجا وہ مدینہ میں وارد ہوا اور سیدھے مسجد کی طرف پہنچا اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اس نے مخصوص انداز سے ایسے دردناک اشعار پڑھے جو قبیلہ خزاعہ کے استغاثہ اور مظلومیت کی حکایت کر رہے تھے۔ آپ کا جو معاہدہ خزاعہ سے کیا تھا اس کے واسطہ سے پیغمبرﷺ کو اس نے قسم دلائی اور ان سے فریاد رسی کا طلبگار ہوا کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلب یہ تھا۔رسول خدا ﷺآدھی رات کو ہم جب ”وتیرہ“ کے کنارے تھے اور ہم میں سے کچھ لوگ رکوع و سجود میں تھے تو مشرکین نے ہم پر حملہ کر دیا۔ درآں حالانکہ ہم مسلمان تھے۔ انہوں نے ہمارا قتل عام کیا۔(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۳۹)

عمرو کے جاں گداز اشعار سے رسول خداﷺ کا دل درد سے تڑپ اٹھا۔ آپ نے فرمایا”اے عمرو ہم تمہاری مدد کریں گے۔“

لشکر اسلام کی آمادگی
رسول خدا نے روانگی کا مقصد بتائے بغیر لشکر اسلام کو آمادہ رہنے کا حکم دیا اور قریبی قبائل اور مدینہ والوں کو اس میں شریک کیا۔ آپ نے مجموعی طور پر10 ہزار جانبازوں کو روانگی کےلئے آمادہ کرلیا کسی کو خبر نہیں تھی کہ واقعی اس آمادگی کا مقصد کیا ہے اور لشکر کا آخری ہدف کہاں جا کر تمام ہوگا۔ اس لیے کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ حدیبیہ کا معاہدہ ابھی تک باقی ہے۔

راستوں کو کنٹرول کرنے کے لئے چیک پوسٹ
رسول خداﷺ دشمن کو غافل رکھنے کےلئے نہایت خفیہ طریقہ سے قدم اٹھا رہے تھے اور بہت باریک بینی سے کام لے رہے تھے اس کام کےلئے آپ کے حکم سے مدینہ کے تمام راستوں پر پہرے بیٹھا دیئے گئے تھے اور مشکوک افراد کی آمدو رفت پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش کے جاسوس لشکر اسلام کی روانگی سے آگاہ ہو جائیں۔حضور نے دعا کی خدایا” آنکھوں کو اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کر دے تاکہ ہم ان کے سروں پر اچانک ٹوٹ پڑیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۳۹)
جاری
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراءباعث عزت و رہنمائی ہو گی
 
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 111452 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More