عادت ہو گئی ہے مجھے انتظار کی
پابند ہو گئی میں تیرے انتظار کی
ممکن نہیں تیرے بنا اک پل گزارنا
اس پر طویل ہو گئی رات انتظار کی
کب سے نگاہیں منتظر دیدار کیلئے
آجاؤ کہ اب تاب نہیں انتظار کی
شمعیں جلا جلا کر اکتا گیا یہ دل
لیکن گزر نہ پائی شب انتظار کی
دل کی آباد بستی ویران ہو گئی
حد سے زیادہ ہو گئی حد انتظار کی
کب تک ڈھلے گی آخر شب انتظار کی
تعبیر سحر ہو گی کب انتظار کی
عظمٰی تجھے تقدیر نے چن دیا جس میں
ٹوٹے گی وہ دیوار کبھی انتظار کی