Add Poetry

Allama Iqbal Poetry, Shayari & Ghazal in Urdu

Allama Iqbal Poetry, Shayari & Ghazal in Urdu

Allama Iqbal poetry reflects deep thoughts on life, love, and nation. Explore sad and inspiring shayari, touching Ghazals, and powerful 2 lines that speak to the heart. Easily download and share your favorite verses, perfect for WhatsApp status, Facebook, and Instagram. Copy paste the best text and express your feelings with meaning. Discover the timeless poetry of Allama Iqbal that continues to inspire across generations.

Related Tags on Allama Iqbal Poetry
Load More Tags

Allama Iqbal Featured Poetry

Allama Iqbal Poetry Images
Poetry Videos
زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مري خموشي نہيں ہے ، گويا مزار ہے حرف آرزو کا
جو موج دريا لگي يہ کہنے ، سفر سے قائم ہے شان ميري
گہر يہ بولا صدف نشيني ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبيعت ہي جن کي قابل ، وہ تربيت سے نہيں سنورتے
ہوا نہ سرسبز رہ کے پاني ميں عکس سرو کنار جو کا
کوئي دل ايسا نظر نہ آيا نہ جس ميں خوابيدہ ہو تمنا
الہي تيرا جہان کيا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا
کھلا يہ مر کر کہ زندگي اپني تھي طلسم ہوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسم خاکي ، غبار تھا کوئے آرزو کا
اگر کوئي شے نہيں ہے پنہاں تو کيوں سراپا تلاش ہوں ميں
نگہ کو نظارے کي تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا
چمن ميں گلچيں سے غنچہ کہتا تھا ، اتنا بيدرد کيوں ہے انساں
تري نگاہوں ميں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
رياض ہستي کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پيدا
حقيقت گل کو تو جو سمجھے تو يہ بھي پيماں ہے رنگ و بو کا
تمام مضموں مرے پرانے ، کلام ميرا خطا سراپا
ہنر کوئي ديکھتا ہے مجھ ميں تو عيب ہے ميرے عيب جو کا
سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل ديا ہے ، وہ بھي فريب خوردہ ہے آرزو کا
کمال وحدت عياں ہے ايسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھيڑے
يقيں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
گيا ہے تقليد کا زمانہ ، مجاز رخت سفر اٹھائے
ہوئي حقيقت ہي جب نماياں تو کس کو يارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبال دور ہوں ميں ، تو ہوں نہ محزوں عزيز ميرے
مثال گوہر وطن کي فرقت کمال ہے ميري آبرو کا
جنید
زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مري خموشي نہيں ہے ، گويا مزار ہے حرف آرزو کا
جو موج دريا لگي يہ کہنے ، سفر سے قائم ہے شان ميري
گہر يہ بولا صدف نشيني ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبيعت ہي جن کي قابل ، وہ تربيت سے نہيں سنورتے
ہوا نہ سرسبز رہ کے پاني ميں عکس سرو کنار جو کا
کوئي دل ايسا نظر نہ آيا نہ جس ميں خوابيدہ ہو تمنا
الہي تيرا جہان کيا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا
کھلا يہ مر کر کہ زندگي اپني تھي طلسم ہوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسم خاکي ، غبار تھا کوئے آرزو کا
اگر کوئي شے نہيں ہے پنہاں تو کيوں سراپا تلاش ہوں ميں
نگہ کو نظارے کي تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا
چمن ميں گلچيں سے غنچہ کہتا تھا ، اتنا بيدرد کيوں ہے انساں
تري نگاہوں ميں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
رياض ہستي کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پيدا
حقيقت گل کو تو جو سمجھے تو يہ بھي پيماں ہے رنگ و بو کا
تمام مضموں مرے پرانے ، کلام ميرا خطا سراپا
ہنر کوئي ديکھتا ہے مجھ ميں تو عيب ہے ميرے عيب جو کا
سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل ديا ہے ، وہ بھي فريب خوردہ ہے آرزو کا
کمال وحدت عياں ہے ايسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھيڑے
يقيں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
گيا ہے تقليد کا زمانہ ، مجاز رخت سفر اٹھائے
ہوئي حقيقت ہي جب نماياں تو کس کو يارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبال دور ہوں ميں ، تو ہوں نہ محزوں عزيز ميرے
مثال گوہر وطن کي فرقت کمال ہے ميري آبرو کا
توصیف
شکوہ راہ اقبال پر چلنے کی تمنا کر کے
دل بھی رنجیدہ ہےالٰلّه سے شکوہ کر کے
اصفیا سمجھیں گے ہر بات کہ صوفی میں ہوں
کیا زمانے کو ملے گا مجھے رسوا کر کے
انجم لکھنویؔ
شِکَوہٗ
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدہ پر نم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھونڈھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
! خلد آدم کو کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوۂ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اُٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
طالب مدح تھا اب طالب شکوہ میں ہوں
جو ہے دریا کا طلبگار وہ قطرہ میں ہوں
تو ہے معبود مرا اور ترا بندہ میں ہوں
مالک حسن ہے تو عشق کا جلوہ میں ہوں
اپنے عاشق کو محبت کی سزا کس نے دی
بر سر دار انا الحق کی صدا کس نے دی
مشت بھر خاک سے اور ہستی آدم کا وجود
میں نے مانا یہ تری کارا گری ہے معبود
اور فرشتے پس آدم بھی ہوئے سر بہ سجود
ہیں اُسی نسل سے کیونکر یہ مسلمانو ہنود
کچھ نصیری ہیں نصارا بھی ہیں عیسائی بھی
جز مرے کرتے ہیں کیا تیری پذیرائی بھی
تیرے کلمے کا بھی اعلان کیا ہے ہم نے
کتنی قوموں کو مسلمان کیا ہے ہم نے
قریہ قریہ تجھے ذیشان کیا ہے ہم نے
مرحلہ سخت تھا آسان کیا ہے ہم نے
ہم اگر حق پر ہیں تو عرش سے آواز تو دے
یا بلالے ہمیں اور قوت پرواز تو دے
نام مسجد ہے ترا گھر جو بنا رکھا ہے
فرش عصمت کو بھی سجدوں سے سجا رکھا ہے
یاد میں نے بھی تجھے وقت دعا رکھا ہے
پر دُعاؤں میں اثر تو نے بھی کیا رکھا ہے
جینے والے کو دعا دیتا ہوں مر جاتا ہے
میرے ایمان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے
میں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتا ہوں
سجده شکر بصد شوق ادا کرتا ہوں
میں بہر حال تجھے راضی رضا کرتا ہوں
بخش دے میری خطائیں یہ دُعا کرتا ہوں
تو اگر ہے تو عمل کی مرے تائید بھی کر
جاری میرے لئے تو چشمہ تو حید بھی کر
لامکاں تو ہے حرم اصل تیرا گھر بھی نہیں
وہ کلیسا بھی نہیں مسجد و مندر بھی نہیں
تیرے رہنے کی جگہ یہ دل مضطر بھی نہیں
نور جب تو ہے ترا پھر کوئی ہمسر بھی نہیں
چاند سمجھوں تجھے سورج یا ستارہ سمجھوں
کوئی پہچان بتا کچھ تو اشارہ سمجھوں!
حق تجھے مان لیا خود ر ہے عابد بن کر
بندگی کی ہے تری واقعی زاہد بن کر
دعوتیں بانٹیں ترے دین کا قاصد بن کر
جو مخالف ہوا لڑ بیٹھے مجاہد بن کر
ہر جگہ پرچم توحید کو گاڑا کس نے
باب خیبر کو دو انگلی سے اُکھاڑا کس نے
نام زندہ ر ہے تیرا کہ اُٹھائی افتاد
جب سنائی تو سنائی تجھے اپنی روداد
تیغ باطل سے نہتھا لڑا بن کر فولاد
مڑ کے دیکھا نہ کبھی گھر کی طرف وقت جہاد
فوج اعدا نہ رہی جنگ کے منظر بدلے
میری ٹھوکر سے ہی پتھر کے مقدر بد لے
میں نے کردار زمانے کا پلٹتے دیکھا
تیرا پھیلا ہوا اسلام سمٹتے دیکھا
تو نے کب جنگ میں پیچھے مجھے ہٹتے دیکھا
کٹ گیا میرا گلا تو نے بھی کٹتے دیکھا
آسماں میری دعاؤں سے کہیں دُور نہ تھا
رن میں مجبور تھا میں تو کوئی مجبور نہ تھا
تیرا ادنی سا کرشمہ ہیں سبھی شجر و حجر
تو نے پیدا کئے دریاؤں میں بھی لعل و گہر
اتنی فرصت بھی نہ دی دیکھتا سارے منظر
مجھکو دوڑاتا رہا ہاتھ میں پرچم دیگر
تیرے اسلام کی تبلیغ مرے دم سے ہوئی
تیری دنیا کی شروعات بھی آدم سے ہوئی
لات و عزہ و ہبل کا تو بڑا لشکر تھا
غاصبانہ جہاں قبضہ تھا وہ تیرا گھر تھا
جب خدائی تھی تری تب بھی خدا پتھر تھا
گویا تخلیق بتا ں کیلئے اک آزر تھا
ہم نے طوفان نحوست کی روش موڑی ہے
یعنی پتھر کے خداؤں کی کمر توڑی ہے
تیرا محبوب نہ ہوتا تو ترا کیا ہوتا
بندگی کا تری ہر موڑ پہ سودا ہوتا
تجھکو سجدہ نہیں پھر غیر کا سجدہ ہوتا
کیسا لگتا تجھے میں کہتا جو اچھا ہوتا
سن کے یہ بات میری تجھکو جلال آجاتا
تجھکو محبوب کا اُس وقت خیال آجاتا
فاقہ کرتے ہیں مسلمان شکم سیر ہنود
شکر کرتے ہیں ادا، پھر بھی ترا سر بہ سجود
کیوں نہیں دیکھتا جب ہر جگہ تو ہے موجود
تجھکو پرواہ نہیں ہے میری شاید معبود
تو ہے رزاق تو ہی سبکو غذا دیتا ہے
پھر مجھے کس لئے تو بھوکا سلا دیتا ہے
ذہن قاصر ہے کہ میں کیسے گنہگار ہوا
تیری رحمت کا بحر کیف طلبگار ہوا
پھر بھی تیرا نہ کسی موڑ پہ دیدار ہوا
میں تولد ہوا دنیا میں یہ بیکار ہوا
تو ہے معبود تو بندے سے جدائی کیسی
جو میرے کام نہ آئے وہ خدائی کیسی
کیا ستم ہے ترا پہلے مجھے جنت دیدی
میں نے مانگی نہ تھی خود اپنی خلافت دیدی
اپنی من مانی جو چاہی وہ وصیت دیدی
اور پھر خلد بدر ہو یہ اجازت دیدی
مجھکو دنیا میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا
تو نے اک مٹی کے انسان کا دل توڑ دیا
جب مٹانا ہی تھا کیوں مجھکو بنایا تو نے
کیوں فرشتوں سے مرا سجدہ کرایا تو نے
کیوں بلندی پہ بیٹھا کر یوں گرایا تو نے
کیسا احسان ترا جو کہ جتایا تو نے
اے خدا تو ہی بتا کیا یہ تری مرضی ہے
یہ جو مرضی ہے تری اس میں بھی خود غرضی ہے
تیری دھرتی ہے مگر صورت دہقاں ہم ہیں
ایک اک دانہ گندم کے نگہباں ہم ہیں
زینت غنچۂ گل بھی ہیں گلستاں ہم ہیں
تیری دنیا کی سجاوٹ کے بھی ساماں ہم ہیں
امتحاں پھر بھی ہمیں سے ترا منشا کیا ہے
تیری رحمت نے گہنگار کو سمجھا کیا ہے
ہم سے پہلے تیرے عالم کے عجب عالم تھے
مشت بھر خاک نہ تھی اور نہ کوئی آدم تھے
جب ہوئی کا را گری تیری وہاں پر ہم تھے
کیا عبادت کے لئے تیری ملائک کم تھے
ہم کو بے وجہ بنایا کوئی احسان نہیں
ہم سے پہلے تو تری کوئی بھی پہچان نہیں
میرے اعمال بھلے اور بُرے تونے کئے
کام زیبا جو ہیں تجھکو وہ ترے تو نے کئے
زخم ماضی کے تھے دل میں جو ہرے تو نے کئے
در احساس مرے کھوٹے کھرے تو نے کئے
تیری مرضی میں جو آئے وہی تو کرتا ہے
پھول سے رنگ جدا اور کبھی بو کرتا ہے
پتے صحرا پہ اگر ایڑیاں رگڑی ہم نے
پیاس پیاسوں کی بجھائی ہے اُسی زم زم نے
بالیقیں حسنِ عمل دیکھ لیا عالم نے
لاج آدم کی بچا رکھی ہے اک آدم نے
تو اگر چاہتا کوثر بھی پلا سکتا تھا
تشنہ لب کو لب کوثر بھی بلا سکتا تھا
مسجد اقصیٰ پر قابض ہیں عدوئے اسلام
جنگ ہم کرتے ہیں تو کرتا ہے ہم کو ناکام
یعنی مقصد ہے ترا ہم رہیں ہو کے بدنام
اب نہیں چلتا کہیں نعرہ تکبیر سے کام
یہ بتا کب تری رحمت بھلا ساتھ آے گی
مسجد اقصیٰ فلسطین کے ہاتھ آے گی
یہ صداقت ہے ترے نام پہ ایماں رکّھا
طاق دل پر ترے اخلاص کا قرآں رکّھا
تجھ کو ممدوح کہا دل کو ثنا خواں رکّھا
بزم عصمت میں ترا ذکر چراغاں رکّھا
اس مشقت کے عوض تو نے مجھے خوار کیا
یہ خطا مجھ سے ہوئی میں نے تجھے پیار کیا
جرم کیا ہے میرا محشر جو بپا ہونا ہے
اتنا معلوم ہے بندے کو سزا ہونا ہے
تجھ سے سمجھوتا بھی کیا تجھ سے جدا ہونا ہے
تو خفا ہو جا اگر تجھکو خفا ہونا ہے
جن و انساں ملے دوزخ میں جلانے کیلئے
باقی ہر شئے ہے کیا جنت میں سجانے کیلئے
Amjad Khan
تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز‌ آرزو
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت بيں نہیں
آہ یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گلچیں نہیں
کام مجھ کو دیدہ حکمت کے الجھيڑوں سے کیا
دیدہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ تیرا
سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے
میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے
مطمئن ہے تو پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں
زخمیٔ شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں
یہ پریشانی مری سامان جمعيت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانۂ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے
Shayan
Famous Poets
View More Poets
Poetry Images

Allama Iqbal Poetry in Urdu

Allama Iqbal was born on 9th November 1877 in Sialkot, Punjab, British India (now in Pakistan), and he passed away on 21st April 1938 in Lahore, Punjab, British India. A wonderful treasure that inspires hearts and minds throughout the ages is Allama Iqbal poetry. Famous as the Poet of the East, Iqbal inspired young people toward self-awareness and self-respect by using strong language to arouse the Muslim Ummah. Deep ideas, feelings, and messages regarding unity, education, self-belief, and faith abound in his poetry. He used Allama Iqbal shayari Urdu to inspire people to rise with confidence and knowledge.

Iqbal poetry shows Islam and love of country. References to the Holy Quran and the teachings of the Prophet Muhammad (PBUH) abound in his poetry. Many of his poems repeat his well-known idea of Khudi (selfhood), demonstrating the great need for self-actualization for individual and group development. For many people, especially students, Allama Iqbal poetry in urdu is a source of inspiration. In addition to being a poet of the East, Allama Iqbal has the status of "Musawir e Pakistan", "Hakeem-ul-Ummat", and "Mufakir-e-Pakistan".

On themes including spirituality, hardship, and the Muslim identity, Allama Iqbal shayari Urdu approaches subjects. Each line has a powerful message that inspires and uplifts the reader, whether it's Iqbal poetry in Urdu 2 lines or long poems. Often employed in talks, school gatherings, and even on social media, these little lines help to impart knowledge.

Today, Allama Iqbal poetry in urdu for students is much admired, cited, and read everywhere. Pakistan especially values his work. His work encourages people to think deeply, act intelligently, and live intentionally.

User Reviews

Today's youth can neither enjoy nor understand Allama Iqbal's poetry. The deep message and wisdom in his verses are often overlooked.

  • Nadeem , Fsd

The poetry shared on Hamariweb touches the heart and reflects deep emotions.

  • Laiba , Fatehpur

Allama Iqbal was our great leader, Through his powerful poetry, he awakened our souls, And inspired us to fight for the freedom we cherish today.

  • khwaja , Fatehpur