افسانہ ساز جس کا فراق و وصال تھا
شاید وہ میرا خواب تھا شاید خیال تھا
یادش بخیر زخمِ تمنا کی فصلِ رنگ
بعد اس کے ہم تھے اور غمِ اندمال تھا
دشتِ گُماں میں ناقہ ء لیلی تھا گرم خیز
شہرِ زیاں میں قیس اسیرِ عیال تھا
خونِ جگر کھپا کے مصور نے یک نظر
دیکھا تو اک مُرقعِ بے خدوخال تھا
کل شورِ عرض گاہِ سوال و جواب میں
جو بھی خموش تھا وہ عجب باکمال تھا
ہم ایک بے گزشتِ زمانہ زمانے میں
تھے حال مستِ حال جو ہر دم بحال تھا
پُرحال تھا وہ شب میرے آغوش میں مگر
اُس حال میں بھی اُس کا تقرب محال تھا
تھا مست اُس کے ناف پیالے کا میرا دل
اُس لب کی آرزو میں میرا رنگ لال تھا
اُس کے عروج کی تھی بہت آرزو ہمیں
جس کے عروج ہی میں ہمارا زوال تھا
اب کیا حسابِ رفتہ و آئیندہ ء گُماں
اک لمحہ تھا جو روز و شب و ماہ و سال تھا
کل ایک قصرِ عیش میں بزمِ سُخن تھی جون
جو کچھ بھی تھا وہاں وہ غریبوں کا مال تھا