ہمیں اس تنہائی سے عاری کر دو
کوئی حکم امتنائی ہی جاری کر دو
آنکھ سے آنکھ ملا کر ذرا بیٹھو تو سہی
حسن و جمال کو مسلط و طاری کر دو
اس خاک کے پتلے سے گفتگو کر کے
عشق کی آگ لگا کر ناری کر دو
چھوڑ کر ظالم یہ دوریاں ہم سے
اب تو خدارا کچھ یاری کر دو
شوخیوں کو یوں ہم پر لبریز نہ کر
اپنے برق تبسم کو حاوی کر دو